ہیں تلخ بہت حقائق

مقتدا منصور  جمعرات 19 مارچ 2015
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گئے اتوار کی صبح،ایک طرف پاکستان کا آئرلینڈ سے میچ جاری تھا، جس میں کراچی کے کھلاڑی سرفراز نے دوسری بار نمایاں ترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یہ وہی سرفراز ہے، جسے جن بنیادوں پر ورلڈ کپ کے ابتدائی میچوں سے دور رکھا گیا ، عام آدمی ان معاملات سے بخوبی واقف ہے۔ دو میچوں میں عبرتناک شکست نے بورڈ حکام کو اس کھلاڑی کو ٹیم میںشامل کرنے پر مجبور کردیا۔

جب کہ دوسری طرف لاہور کی یوحنا آباد کالونی میں دو کلیساؤں پر خود کش حملوں کے نتیجے میں آگ اور خون کا کھیل جاری تھا۔ اس دہشت گردی میں ڈیڑھ درجن کے قریب افراد ہلاک اور سو کے قریب شہری زخمی ہوئے۔ اس سانحے کے فوراً بعد دو مشکوک افراد کو مشتعل ہجوم نے تشدد کے بعد انتہائی بیدردی کے ساتھ نذر آتش کردیا۔ چرچوں پر حملہ جہاں دہشت گردی کے خلاف حکومت کی ترجیحات کا پردہ چاک کرتا ہے، وہیں مشکوک افراد کا جلایا جانا دراصل  قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عوام کے بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کا ا ظہار ہے۔

پاکستانی حکمرانوں کی منافقانہ پالیسیوں اور دہرے معیارات کے نتیجے میں پاکستان ایک زد پذیر (Fragile) ملک بن چکا ہے۔آمروں کو جانے دیجیے، جن کا مزاج اور مفاد دونوں ہی وسیع البنیاد فیصلوں کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے۔

لیکن سیاسی جماعتوں کی حکومتیں بھی اس سیاسی عزم و بصیرت سے عاری ہیں، جو مذہبی شدت پسندی، متشدد فرقہ واریت اور دہشت گردی جیسے مظاہر کا قلع قمع کرنے کے لیے ضروری ہے۔ پیپلز پارٹی کی نااہلی اپنی جگہ مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وہ  مذہبی شدت پسندی کے خلاف واضح سوچ رکھتی ہے۔

لیکن مسلم لیگ (ن) جس دہرے معیار کا شکار ہے، اس نے ملک کی سلامتی کو درپیش خطرات کو دوچند کردیا ہے۔ایک طرف اس میں مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کے مظاہر کو سمجھنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کی اہلیت اور صلاحیت کی کمی ہے جب کہ دوسری طرف ان مظاہر کے خاتمے میں سنجیدگی کا بھی فقدان ہے۔

کسی فرد یا افراد کے گروہ کی نفسیاتی کیفیت کا تعین اس کے دعوؤں سے نہیں،بلکہ اس کی کارکردگی اور کیے گئے اقدامات سے ممکن ہوتا ہے۔ ابن صفی مرحوم بہت بڑا جملہ لکھ گئے ہیں کہ دعوے ہمیشہ بزدل کیا کرتے ہیں، عملی لوگ دعوے نہیں عمل کرتے ہیں۔ گویا جو شخص جتنا زیادہ بزدل ہوتا ہے، وہ دلیری کے اتنے ہی زیادہ دعوے کرتا ہے۔

یہی کچھ معاملہ جمہوریت اور جمہوریت نوازی کا ہے۔ ہر آمر ، فاشسٹ صبح شام اپنے جمہوری ہونے کے دعوے کرتا رہتا ہے۔ ویسے بھی وطن عزیز میں متذکرہ بالا صفات کا فقدان ہے۔

اس لیے ان کے بارے میں صرف دعوے ممکن ہیں۔ چنانچہ کلیساؤں، امام بارگاہوں اور مساجد پر خود کش حملوں اور مختلف عقائد اور نظریات کے حامل افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف کسی بھی حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ لیکن مسلم لیگ (ن) کی سوچ اور کردار انتہائی مایوس کن ہے۔ جس کے ان گنت شواہد موجود ہیں اور جن پر گفتگو ضروری ہے۔

یہ بات ذرایع ابلاغ کے ریکارڈ پر ہے کہ چند برس قبل ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے مذہبی شدت پسندوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ آپ پنجاب پر حملے سے گریز کریں۔‘‘ اس بیان کا مقصد شاید مذہبی شدت پسند عناصر سے یہ کہنا تھا کہ دیگر صوبوں میں وہ جو چاہے کرتے رہیں، مگر پنجاب میں کارروائی سے گریز کرنا چاہیے۔ بیشتر کالعدم تنظیمیں گزشتہ کئی انتخابات سے اب تک مسلم لیگ (ن) کی کھل کر حمایت کرتی چلی آرہی ہیں۔

مسلم لیگ (ن) میں بعض شخصیات مذہبی شدت پسندوں کے ساتھ دلی وابستگی کا اظہار کر چکی ہیں البتہ بعض مواقع پر انھوں نے مذہبی شدت پسندوں کے خلاف کچھ بیان ضرور دیے، مگر اندر چھپی ہمدردیاں ختم نہیں ہوسکیں۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ لال مسجد کے مولوی کے دو وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود مختلف حیلے بہانوں سے اسے گرفتار کرنے سے گریزکیا گیا۔ حالانکہ مولوی عزیز نے ایک سے زائد مرتبہ ببانگ دہل داعش (ISIS)کے ساتھ وابستگی کا اعلان کیا۔

وفاقی حکومت خود بھی مذہبی شدت پسندوں اور متشدد فرقہ واریت پسندوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کے لیے ذہنی اور قلبی طور پرآمادہ  نہیں ہے۔ شدت پسندی کے خلاف اس کے تمام بیانات محض لیپا پوتی ہیں۔ اس کے ووٹ بینک کا بڑا حصہ کالعدم تنظیموں کے ووٹروں پر مشتمل ہے، اس لیے اس سے شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی کی توقع کرنا عبث ہے۔ البتہ اسے کراچی کے معاملات درست کرنے میں حد سے زیادہ دلچسپی ہے، کیونکہ اس شہر سے اس کے کاروباری  مفادات وابستہ ہیں۔ اس ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، مسلم لیگ ن جب بھی اقتدار میں آئی اس نے دہشت گردی کے خلاف کارروائی سے بچنے کے لیے کبھی چند غیرمتعلقہ افراد پر مشتمل کمیٹی کے ذریعے مذاکرات کیے، کبھی کل جماعتی کانفرنس کے ذریعے تاخیری حربے اختیار کرنے کی کوشش کی۔ اسی کل جماعتی کانفرنس کے اعلان نامہ میںشدت پسندوں کو Stake holder قراردیا گیا تھا۔ جس سے اس جماعت کی سوچ واضح ہوکر سامنے آتی ہے۔

مسلم لیگ ن محض پنجاب میں اپنی نشستوں کی اکثریت کی بنیاد پر تیسری بار اقتدار میںآئی ہے اور  خود کو صبح شام جمہوری ثابت کرنے میں زمین آسمان کے قلابے ملاتی رہتی  ہے، مگر  اپنے تینوں ادوار میں جو اقدامات کیے ہیں، وہ اس کے غیر جمہوری  رویے کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ مسلم لیگ ن جب بھی اقتدار میں آئی اس نے فوجی عدالتیں قائم کرنے کے علاوہ ایسے تمام اقدام کیے جو جمہوریت کش تھے۔ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور تاحیات حکومت کرنے  کی خواہش میں اپنے دوسرے دور اقتدار (1997سے 1999) میں 15ترمیم لانے کی کوشش کی، جسے سینیٹ نے ناکام  بنایا۔ مخصوص کاروباری اور تاجر حلقوں کی کراچی پر قبضے کے لیے ہر دور میں نام نہاد آپریشن شروع کیا۔ توقع یہی ہے کہ جس طرح کراچی پر قبضے کا خواب1992میں پورا نہیں ہوسکا اب بھی پورا نہیں ہوسکے گا۔ اس کی غیر جمہوری سوچ کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ وزارتیں میرٹ کے بجائے اپنے خاندان اور برادری کے لوگوں میں بانٹتی ہے۔مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے 1980ء سے تادم تحریر حاصل ہونے والے اقتدار کو اپنے کاروبار پھیلانے کے لیے استعمال کیا ہے۔

درج بالا صورتحال سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دہشت گردی اور مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ کسی بھی طور حکومت اور اس کے منصوبہ سازوں کی اولین ترجیح نہیں ہے۔ ان کی دلچسپی صرف کراچی کے وسائل پر بلا شرکت غیرے قابو پانا ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کراچی میں امن وامان کی بحالی کی خواہشمند ہے، وہ درست نہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کراچی میں امن و امان کی بحالی میں سنجیدہ ہوتی تو اس شہر میں ایک بااختیار مقامی حکومت اور مقامی پولیسنگ کا نظام متعارف کرا کے اسے پرامن بنایا جاسکتا ہے۔ بھارتی حکومت نے1990 کے عشرے میں ممبئی کو بدامنی سے پاک کرنے کے لیے اسی قسم کے اقدامات کیے تھے جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے۔ انھوں نے کسی جماعت کو دیوار سے لگانے کی کوشش نہیں کی بلکہ سیاسی عمل کے ذریعے شیوسینا کا مقابلہ کیا تھا، جو ممبئی کی طاقتور سیاسی قوت تھی اور آج بھی ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت پر قابو پانے میں عدم دلچسپی بھی واضح ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) سنجیدہ ہوتی تو بہت پہلے پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے اس عفریت پر قابو پا چکی ہوتی۔

ملک جن کثیر الجہتی مسائل کا شکار ہے اور جن میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، وہ تسلسل کے ساتھ جاری غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ان کی جڑیں ماضی کے غلط فیصلوں میں پیوست ہیں۔ ایک طرف ریاست کے منطقی جواز کے اس تصور اور تفہیم کا متعارف کرایا جانا ہے، جو بابائے قوم کے تصورات سے متصادم ہے۔ دوسرے قبائلی، جاگیرداری اور برادری نظام کی تنگ نظریوں میں گھرے معاشرے کو بہتر حکمرانی کے ذریعے جمہوری کلچر کا خوگر بنانے کے بجائے خود منصوبہ ساز بھی نسلی، لسانی اورقو میتی تنگ نظری میں گھرے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے عقیدے اور فرقہ کے علاوہ لسانی اور صوبائی بنیادوں پر تقسیم بھی گہری ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ لہٰذا دہرے معیار کی گرداب میں پھنسے حکمرانوں سے دہشت گردی کی عفریت پر قابو پانے کی توقع محض ایک خواب سے زیادہ نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔