انسان مر گیا، انسان کھو گیا

رئیس فاطمہ  جمعرات 19 مارچ 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

کوئی بھی بچہ جب اس دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے تو وہ صرف انسان ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔ اس کا مذہب کیا ہے، مسلک کیا ہے، کون سی زبان بولتا ہے، عبادت کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ یہ سب بعد کے مراحل ہیں۔ مذہب و مسلک کا تعلق ماں باپ اور خاندانی بزرگوں سے ہوتا ہے۔ جو مذہب والدین یا دادا ، پردادا کا ہوتا ہے وہی بچے کا بھی قرار پاتا ہے۔

دنیا میں بے شمار زبانیں بولی جاتی ہیں جن کا تعلق مختلف مذاہب اور علاقوں سے ہے۔ لیکن عام طور پر انسان جن علاقوں میں بستے ہیں وہیں کی زبان بھی روانی سے بولتے ہیں۔ برصغیر پر انگریزوں کی حکومت کے دوران ان کے بیرے اور خانساماں بھی انگریزی بڑی روانی سے بولتے تھے جب کہ تھے وہ ان پڑھ۔لیکن ان دیسی ملازموں پر بدیسی آقاؤں کا کوئی جبر نہیں تھا کہ وہ ان کا مذہب اختیار کریں۔ ایسے ہی ایک بزرگ ہر ماہ کی ابتدائی تاریخوں میں والد صاحب کے پاس آیا کرتے تھے۔

نام تھا ان کا محمد یونس علی۔ یہ بالکل انگوٹھا چھاپ تھے۔ والد صاحب کے توسط سے شملہ میں ایک انگریز فیملی کے خانساماں تھے۔ تعلق میرٹھ سے تھا۔ والدین کی وفات کے بعد تین چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کے لیے نوکری درکار تھی۔ لاڈ پیار میں تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ لیکن انگریز خاندان میں ملازمت کے دوران میم صاحب نے جب ان کی فرض شناسی اور ایمانداری دیکھی تو بنگلے ہی میں انھیں بہن بھائیوں کے ساتھ سرونٹ کوارٹر رہنے کے لیے دے دیا اور اسی انگریز میم نے صاحب بہادر کی مدد سے تینوں بہن بھائیوں کی تعلیم کا بھی بندوبست کردیا۔

1948 میں انگریز فیملی کے انگلستان سدھار جانے کے بعد وہ پاکستان آگئے اورکسی نہ کسی طرح محنت مزدوری کرکے گھر کی کفالت کی۔ لیکن جب دونوں بھائی اچھی ملازمتوں پہ لگ گئے تو ان کی بیویوں کو یونس علی کا وجود گوارا نہ ہوا۔ وہ ایک مسجد میں رہنے لگے۔ ایک بار اپنی وفات سے چند ماہ قبل وہ اپنے انگریز مالک اور اس کی فرشتہ صفت میم کو یاد کرکے بہت روئے اور بتانے لگے کہ دوران ملازمت جب بھی نماز کا وقت ہوتا اور وہ نماز ادا کر رہے ہوتے تو کتنا بھی ضروری کام ہوتا میم صاحبہ انھیں ڈسٹرب نہ کرتیں۔ صرف یہی نہیں جمعہ والے دن انھیں پورے دن کی چھٹی ملتی۔

ان کے بہن بھائیوں کو گھر پر مولوی صاحب قرآن مجید پڑھانے آتے۔ جن کا معاوضہ وہ میم خود ادا کرتی۔ رمضان میں یونس صاحب سے کھانا پکوانے کا کام نہیں لیا جاتا تھا۔ بلکہ دوسرے ملازم ڈیوڈ سے ان کی ڈیوٹی بدل دی جاتی تھی۔ وہ خاندان یونس علی کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا لیکن تینوں چھوٹے بہن بھائیوں کو تنہا چھوڑنا انھوں نے گوارا نہ کیا۔ دونوں میاں بیوی نہایت بلند کردار کے مالک تھے۔ کرسمس کی تقریبات میں یا کسی دوسرے موقعے پر جہاں بدیسی مشروب کے جام بھرنا ضروری ہوتا تھا  وہاں یونس علی معذرت کر لیتے تھے اور وہ نیک لوگ برا بھی نہیں مانتے تھے۔

وہ جاتے وقت اپنا پتہ بھی یونس علی کو دے گئے تھے جو ان سے کہیں کھو گیا اور وہ آخری لمحے تک اپنے محسنوں کو یاد کرتے رہے۔ آخر یونس علی کیوں مرتے دم تک اس عیسائی جوڑے کو یاد کرتے رہے۔ وہ تو محض ملازم تھے اور اپنی خدمات کا ماہانہ معاوضہ لیتے تھے۔ دراصل یہ خلوص، فراخدلی اور ہمدردی کا وہ جذبہ تھا جس کی وجہ سے غیر اپنے بن جاتے ہیں اور اپنے پرائے ہوجاتے ہیں۔ جب انسان دوسرے کو صرف انسان سمجھتا ہے تو بہت کچھ درمیان سے نکل جاتا ہے۔

پاکستان میں غیر مسلموں کے ساتھ آئے دن جو ناروا سلوک کیا جا رہا ہے اس کے پیچھے کون سے خفیہ مقاصد ہیں؟ یہ کون ہیں جو اپنی مرضی کا اسلام اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرکے اس خطے کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کردینا چاہتے ہیں۔

کہیں ان تخریبی کارروائیوں کا سرا ان رکیک حملوں اور سازشوں سے تو نہیں ملتا جن میں سیاسی لیڈر مخالف جماعت کے جلسوں اور کارنر میٹنگ میں سانپ چھڑوا دیتے ہیں، فائرنگ کروا دیتے ہیں۔ ان کے ورکرز کو اٹھوا لیتے ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے سینیٹ اور اسمبلیوں کی نشستیں خریدی جاتی ہیں۔ جو نہیں مانتے انھیں جیلوں میں ناکردہ گناہوں کی پاداش میں بند کردیا جاتا ہے۔ جھوٹے مقدمات بنا دیے جاتے ہیں تاوقتیکہ وہ وعدہ معاف گواہ بن جائیں یا ان جرائم کا اعتراف کرلیں جو انھوں نے کبھی کیے ہی نہ ہوں۔ اپنے مقاصد میں کامیابی اسی طرح تو ملتی ہے۔

موجودہ منظر نامہ تو کچھ یہی کہانی سناتا ہے۔ قائد اعظم نے جو پاکستان بنایا تھا وہ ان کے تابوت کے ساتھ ہی مقبرے میں دفن ہوگیا۔ جناح کے پاکستان میں ہر شخص صرف ’’پاکستانی‘‘ تھا اور کچھ نہیں۔ لیکن گزشتہ چند سالوں سے اب یہاں پاکستانی تو کوئی ہے ہی نہیں۔

سب اپنے اپنے قبیلوں، ذاتوں اور برادریوں کے اسیر۔ اور سب سے زیادہ تکلیف دہ جو لفظ مجھے لگتا ہے وہ ہے ’’اقلیت‘‘۔ یہ کیا کہ آپ غیر مسلموں کو اس ایک لفظ میں قید کردیں؟ آخر یہ دوسرے مذاہب کے لوگ جن میں ہندو، عیسائی اور پارسی شامل ہیں انھیں صرف پاکستانی کیوں نہیں سمجھا جاتا؟ ان کے لیے اسمبلی میں علیحدہ نشستیں کیوں رکھی گئی ہیں۔ یہ اچھے اور پیارے لوگ صرف ’’اقلیت‘‘ کے خانوں میں کیوں بند کردیے گئے ہیں۔

انھیں عام پاکستانیوں کی طرح کسی بھی نشست پہ انتخاب لڑنے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ اس لیے کہ ان کی عبادت کا طریقہ ہم سے مختلف ہے؟ یا اس لیے کہ ان کا خدا کوئی اور ہے اور مسلمانوں کا خدا کوئی اور؟ سمندرکا پانی دریاؤں کے پانی سے کیا الگ ہوتا ہے؟ جھیلوں، آبشاروں اور تالابوں کا پانی اور رم جھم برسنے والی برسات کا پانی کیا الگ ہے؟ صرف نام الگ الگ ہیں اور بس۔ تو پھر جب تمام فہمیدہ، سنجیدہ، فراخدل اور روادار مسلمان اس بات سے انکاری نہیں ہیں۔

مندروں اورگرجا گھروں کا احترام کرتے ہیں، پارسیوں کے آتش کدوں کو عزت دیتے ہیں تو پھر یہ کون ہیں جو انسانیت کو ہندو، مسلمان اور عیسائیوں میں تقسیم کرکے قتل کرتے ہیں اور فتح کے جھنڈے لہراتے ہیں۔ قاتلوں کے گلے میں ہار ڈالتے ہیں۔ مذہب کے نام پر ہتھیار لہرا کر خود کو مذہب کا محافظ بتاتے ہیں۔ اور برسر اقتدار پارٹیاں سب کچھ دیکھتی اور جانتی ہیں لیکن مصلحتاً خاموش رہتی ہیں کیونکہ بیشتر کا اقتدار بھی انھی کا مرہون منت ہے۔ جو آنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں وہ بھی حسب خواہش ان کے مطالبات پورے کرنے کے پابند ہیں۔

انسان کھو گیا، انسان مر گیا۔ اگر کچھ باقی ہے تو وہ بھیڑیے اور لومڑیاں جو انسانی چہروں کے نقاب لپیٹے آزادانہ گھوم رہے ہیں۔ جہاں چاہتے ہیں بم برسا دیتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں خون کی ہولی کھیلنے پہنچ جاتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں اور جس طرح چاہتے ہیں اپنی کارروائیاں اپنے ’’سرپرستوں‘‘ کی آشیرواد سے کھلے عام جاری رکھتے ہیں کہ آج بھیڑیے آبادیوں میں گھس آئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔