ہم المیے خود تخلیق کرتے ہیں

شبنم گل  جمعرات 19 مارچ 2015
shabnumg@yahoo.com

[email protected]

ذہن جب مثبت توانائی سے بھرپور ہو تو انسان خوبصورت بات سوچے بنا نہیں رہ سکتا۔ خاص کر وہ دل جو فطرت کی خوبصورتی کے ساتھ دھڑکتا ہو۔ مگر دلکش خیال فقط ذہن تک محدود رہ جاتا ہے۔

کیونکہ مختلف مسائل میں الجھے ذہن کوئی خوبصورت خیال سننے کی حس کھو بیٹھے ہیں۔ اب لوگ موسموں کا ذکر نہیں کرتے۔ وہ موسموں کی شدت میں ضرور دلچسپی رکھتے ہیں کہ موسم کی شدت انھیں کس قدر پریشان کر رہی ہے۔ انسان وقت کے ساتھ بدل جاتا ہے۔ اب زندگی تلخ حقائق اور سنگین واقعات سے بھری ہوئی ہے۔

کبھی انسان قیمتی ہوا کرتے تھے۔ مگر اب فقط قیمتی اشیا کو فوقیت دی جاتی ہے۔ موسم بدلتے ہی ڈیزائنرزکے نت نئے رنگ مارکیٹ میں آجاتے ہیں۔ زیادہ ترکپڑوں اور فیشن پر بات ہوتی ہے۔ جتنے مہنگے کپڑے ہوں گے،اتنا ہی رتبہ بلند ہوگا۔کپڑوں، موبائل،گاڑیوں اور فیشن پر مقابلہ بازی کا موسم عروج پر ہے۔ ہم سب مشینی دورکا حصہ ہیں۔

ہماری سانسیں بھی میکنزم کا شکار ہیں۔ سانسیں فطرت کی توانائی محسوس نہیں کرسکتیں۔ وہ زندگی کی خوشبو سے بے بہرہ ہیں اور لمحے گزرتے چلے جاتے ہیں بلاسبب۔

وقت کے پاس بھی گزرنے کا کوئی جواز نہ ہو جیسے۔ زندگی مطمئن ہو تو وقت کو پر لگ جاتے ہیں۔ بصورت دیگر وقت ٹھہر جاتا ہے۔ وقت ٹھہر جائے تو اسے ڈھنگ سے گزارنے کے سلیقے سیکھنے پڑ جاتے ہیں۔ پھر بری عادتیں مزاج کا حصہ بن جاتی ہیں۔ سگریٹ، شیشہ، الکحل، پان، چھالیہ، چائے۔ بس ہر وقت منہ چلتا رہے۔ یہ بلاسبب منہ کا چلتے رہنا خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہ دبے انتشار کا لاوا کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔

بسیار خوری بھی وقت نہ کٹنے کا ردعمل ہے۔ بھوک سے لوگ مر جاتے ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جنھیں ایک وقت کا کھانا نصیب نہیں ہے۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کی میز ہر طرح کے کھانوں سے بھری رہتی ہے اور وہ کھا کھا کے بیمار پڑ جاتے ہیں۔ گویا کہ ہر طرح سے بھوک ہی تمام تر مسائل کی جڑ ہو۔ وقت کی سوئیاں بھی انسانی احساس کے ساتھ دھڑکتی ہیں۔ احساس نہ ہو تو وقت بے معنی و بے قیمت بن جاتا ہے۔

محض ایک گہرا خلا جو زندگی کی تمام تر خوبصورتی کو نگل جاتا ہے۔ آدرش کھوکھلے دکھائی دیتے ہیں۔ خوبصورت احساس بار بار چونک جاتا ہے۔ زندگی کی بدصورتی سوچ کی نزاکت کا تعاقب کرنے لگتی ہے۔ آپ کتنی ہی کوشش خواہ کیوں نہ کرلیں بری خبر سنے بغیر نہیں رہ سکتے۔ انسانیت سوز واقعات کی کرچیاں احساس کو بری طرح سے زخمی کیے بنا نہیں رہ سکتیں۔

ذہن میں دھواں سا بھر جاتا ہے۔ فضا کراہوں سے گونج اٹھتی ہے۔ مردہ جسموں پر بین کرتا ہوا احساس بلکتا ہے۔ آنسو ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے۔ احساس کبھی بدل نہیں سکتا۔ مگر انسانی احساس کا بٹوارہ ہوچکا ہے۔ احساس شیعہ، سنی، ہندو، مسلمان و عیسائی میں بٹ گیا ہے۔

یہ مندر، گرجا و مسجد کی تکرار میں کہیں کھوگیا ہے۔ محبت وعقیدت سے بھرا احساس لے کر عبادت گاہ میں جائیں تو ہر جگہ ایک ہی جذبہ ملے گا۔ اس جذبے میں کہیں نفرت، تعصب و انتقام کا شائبہ نہیں ہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب نفرت کرنا نہیں سکھاتا۔ وہ جھوٹ، برائی اور منافقت سے روکتا ہے۔

تمام تر مذاہب امن و آشتی کا پیغام دیتے ہیں۔ بدھ ازم میں کسی بھی جاندار کو ایذا دینے کی سخت مذمت کی جاتی ہے۔ وہی بدھسٹ بپھرے تو مسلمانوں کے ٹکڑے کر ڈالے۔ انٹرنیٹ کٹے ہوئے اعضا کی تصاویر سے بھر گیا۔ ایک عورت کا کٹا ہوا بازو چونکا گیا۔ اس کی کلائی میں چوڑیاں تھیں۔ یہ کسی سہاگن کا بازو تھا۔یہ ہاتھ کبھی دعا کے لیے اٹھتے ہوں گے۔ یہ اپنے بچوں کے لیے پیار سے کھانا بناتے ہوں گے۔

ایسی تصاویر اکثر اخبارات میں شایع ہوتی ہیں۔ ہر طرف بکھرے ہوئے اعضا اور اعضا سے محروم کراہتے جسم انسانیت کی بے حسی پر ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔ ہر سمت نفرتوں کا جہنم سلگنے لگا ہے۔ انسان اپنی زندگی کا المیہ خود تخلیق کرتا ہے۔

اکثر المیے غفلت اور لاپرواہی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ غصہ، عدم برداشت اور اشتعال آمیز رویے قومی مزاج بن چکے ہیں۔ یہ غیر منطقی رویے احساس محرومی کا ردعمل ہیں۔

بنیادی سہولتیں مفقود ہیں۔ ہر طرف ملاوٹ شدہ اشیا کا زہر لوگ اپنے اندر انڈیل رہے ہیں۔ بدامنی اور دہشت گردی کے مہیب سایوں نے عوامی زندگی کو مفلوج کردیا ہے۔ کوئی بھی بدترین واقعہ عوام کی راتوں کی نیندیں چھین لیتا ہے۔ ذہنی امراض میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ایب نارمل رویے مشتعل ہجوم کی ترجمانی کرنے لگے ہیں۔ ہجوم کا ردعمل ایسے مواقعے پر ہمیشہ منفی رہا ہے۔

ایک بری روایت سے دوسری بری روایت جنم لیتی ہے۔ ہجوم کی نفسیات یہ ہے کہ اس میں شامل لوگ اخلاقی قدروں سے مستثنیٰ ہوجاتے ہیں۔ ہجوم کا ردعمل اذیت پسند رویوں کی نشاندہی کرتاہے۔ خود برے رویوں اور استحصال کا شکار شخص دوسروں کو نشانہ بناکر اپنی محرومی سے انصاف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

یہ توڑ پھوڑ یا جلاؤ گھیراؤ احساس محرومی و بے بسی کا اظہار ہے۔ ہم پرامن احتجاج کی طاقت کو کبھی محسوس نہیں کرسکے۔ پرامن احتجاج دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کا موثر ہتھیار رہا ہے۔ جو کئی سیاسی و سماجی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بنا ہے۔

اظہار میں معنویت اور عمل میں تاثیر نہ ہو تو انتشار جنم لیتا ہے۔ یہ انتشار کبھی تھمتا نہیں ہے۔ یہ روپ بدل کر دوبارہ لوٹ آتا ہے۔ بقول ایک مفکر کے ’’زندگی اظہار چاہتی ہے۔ زندگی اظہار ہے۔

اگر زندگی کو اظہار کی اجازت نہیں تو آپ تخلیق کر رہے ہیں۔ ذخیرہ کر رہے ہیں۔ دھماکہ خیز قوتوں کا۔ وہ دھماکہ کریں گے اور آپ پرزہ پرزہ ہوجائیں گے۔ انسان کے اندر تقسیم فکر وعمل میں تضاد کی بیماری ہے۔ لہٰذا ہر انسان فکر و عمل میں تضاد کی بیماری کا شکار ہے۔ منقسم ہے، وہ کبھی سہولت، خاموشی و روحانی مسرت کا شکار نہیں ہوسکتا۔ جہنم ہمیشہ موجود ہے، جب تک آپ کل نہیں ہوجاتے۔‘‘

حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کے اندر کا نفاق زندگی کے المیے تخلیق کرتا ہے۔ کوئی بھی المیہ ایسا نہیں ہے جس میں انسان کی اپنی مرضی شامل نہ ہو۔ جب سیاستدان اپنے ورکرز کو کسی واقعے کے ردعمل پر پرسکون رہنے کی تلقین کرتے ہیں تو انتشار پیدا نہیں ہوتا۔ مگر جب خاموش رہتے ہیں تو بے قابو ہجوم ہر چیز تہس نہس کر ڈالتا ہے۔ انسانی جانوں کے نذرانے سے احتجاج میں شدت پیدا ہوجاتی ہے۔ جتنی زیادہ توڑ پھوڑ ہو اتنا ہی احتجاج پر اثر ہوتا ہے۔

اذیت پسندی سے بھرپور رویے دن بدن فروغ پا رہے ہیں۔ نفرتوں کو جان بوجھ کے ہوا دی جاتی ہے۔ اور ان تضادات کو خوب کیش کروایا جاتا ہے۔

غیر انسانی رویے منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔برے رویوں کی تشہیر سے اخبارات زیادہ بکتے ہیں۔ چینلزکے سامنے لوگوں کا ہجوم برقرار رہتا ہے اور مظلوموں کی محرومیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ دکھ سے دکھ کو تسلی ملتی ہے۔ ہر طرف شکایتی رویے ہیں۔

ماہر نفسیات روبن کوواسکی کا کہنا ہے ’’ہم گفتگو کا آغاز منفی مشاہدے سے کرتے ہیں کیونکہ منفی رویے لوگوں کا دھیان مبذول کرواتے ہیں۔ کیونکہ مثبت باتوں پر لوگ زیادہ دھیان نہیں دیتے۔‘‘ لڑائی جھگڑے اور غیر انسانی واقعات توجہ اور دھیان حاصل کرنے کی وجہ بنتے ہیں۔ نظرانداز کرنے اور بات نہ سننے کی وجہ سے جارحیت جڑ پکڑتی ہے۔

ہمیں گفتگو کا سلیقہ نہیں آتا۔ ہم مثبت باتیں نہیں کہہ سکتے، کیونکہ ذہن فقط نفاق سوچتا ہے۔ انتشار، زندگی کے حسن کا دشمن ہے۔ سوچ کی وحدت سے خیال کی خوبصورتی جنم لیتی ہے۔ مگر نفاق و انتشار سکہ رائج الوقت ہے۔

بدصورت واقعات کو دیکھ کر کئی خوبصورت خیال بکھر جاتے ہیں۔ دنوں تک ذہنی سکون منتشر ہوجاتا ہے۔ جیسے یوحنا آباد میں جلتے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر محسوس ہوا۔ کرب کی گہری کھائی میں زندگی کے خوبصورت رنگ گرتے چلے گئے۔

اپنے دیس میں ہوتے ہوئے ظلم کو دیکھ کر بلھے شاہ کی آنکھیں بھی پرنم ہوگئیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔