اقتدار، حاکمیت اور ظلم

سید نور اظہر جعفری  جمعرات 19 مارچ 2015

قوموں کی ترقی کے راستے متعین ’’ہدف‘‘ کے بغیر پورے نہیں ہوتے اور ’’نئے افق‘‘ تقرریوں سے ہویدا نہیں ہوتے۔ اگر دنیا میں صرف تقریروں سے سارے مسئلے حل ہو سکتے تو کشمیر، فلسطین، مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر کے مسائل حل ہو جاتے۔

دنیا بھر میں بے مقصد تقریروں اور تفریحی دوروں کا سب سے مشہور مقام ہے اقوام متحدہ کا اجلاس۔ جس کے بے مقصد ہونے کا اندازہ اس سے لگا لیجیے کہ اس نے آج تک کوئی منصفانہ فیصلہ نہیں کیا۔ یہ ان اقوام کے ارادوں اور مقاصد کا ادارہ ہے جو وہ زبردستی دنیا پر تھوپتی رہتی ہیں اور گزشتہ تقریبا ً40 سال سے تو اقوام کا یہ ادارہ دراصل امریکا بہادر کا ’’کٹھ پتلی‘‘ ادارہ بن چکا ہے۔

امریکا جو چاہتا ہے اس ادارے سے منوا لیتا ہے اور یوں دنیا بھر میں اس کے ’’عزائم‘‘ کو ایک محفوظ ’’چھتری‘‘ مل جاتی ہے جو سعودی عرب سے لے کر جرمنی تک کے تعاون سے قائم ہوتی ہے اور اس طرح امریکا دنیا بھر میں “Democratic Dictator”(جمہوری آمر) کے طور پر حکمراں ہے، اور اگر آپ محسوس کر سکتے ہیں تو کر لیجیے کہ ’’اقتدار کی اس ہیروئن‘‘ کا نشہ دنیا کی کچھ اور اقوام کو بھی متاثر کر رہا ہے۔

بھارت کو اس بات کا نشہ بہت چڑھ رہا ہے۔ موجودہ وزیر اعظم بھارت اور صدر امریکا کے درمیان جو ’’بندر بانٹ‘‘ ہوئی ہے اس میں حسب توفیق ہم بھی شامل ہیں۔ تالیاں بجانے والوں میں کیونکہ ہمارے کرتا دھرتاؤں کو بھارت سے بہت پیار ہے اور وہ اسے پسندیدہ قرار دینے پر ’’تلے‘‘ بیٹھے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ نئی دہلی کے پاؤں پکڑ لیں۔

اور ساتھ ہی امریکا اور جرمنی تک کا ’’لے پالک‘‘ جو اب ان کو بھی آنکھیں دکھانے لگا ہے ’’اسرائیل‘‘۔ وہ بھی اقوام متحدہ سے برسوں سے مستفید ہو رہا ہے۔ شاید جرمنی ’’ہٹلر‘‘ کے کارنامے دھندلانے کے لیے اسرائیل کی حمایت پر کمربستہ رہتا ہے۔

جرمنی نے شاید قرآن پاک کے اسرائیل کے بارے میں ارشادات کو اہمیت نہیں دی ہے ان کا ویسے بھی اس سے کیا تعلق جو سچ اور حق ہیں اور جن کے بارے میں اسرائیل کو پوری طرح ادراک ہے کہ یہ سچ ہیں اور سچ ہو کر رہیں گے۔

قرآن پاک رب العالمین کے ان ارشادات کا مجموعہ ہے جو اپنے اپنے عہد میں پورے ہوئے جن قوموں نے یا نسلوں نے یا امتوں نے ان احکامات کو مانا، ارشادات کو سمجھا وہ اپنے اپنے عہد میں جلیل القدر ثابت ہوئیں، نامور رہیں اور جن قوموں یا امتوں نے اس کو جھٹلایا اور گمراہی اختیار کی وہ تباہ ہو کر رہیں کہ یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ جو اس کے خلاف عمل کرے گا تباہی اور بربادی اس کا مقدر ہو گی اور ہے۔ کیونکہ اسرائیل کو اس کے بارے میں یقین ہے لہٰذا اس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ کسی طرح ان کو غلط کر دیا جائے جو نہیں ہو گا۔

مسلمان ملکوں کو خداوند کریم نے سب کچھ دیا ہے اور ان کو محتاج نہیں بنایا۔ بلکہ خدا نے کسی قوم کو محتاج نہیں بنایا کیونکہ وہ رب العالمین ہے اور جو قوم بھی بڑھ کر محنت کرتی ہے اور اپنے عوام کے لیے ’’فلاح‘‘ کے راستے قائم کرتی ہے وہ ترقی کرتی ہے۔ ’’فلاح‘‘ کا مفہوم بھی ہر قوم کے لیے الگ ہے۔ خدا وہی دیتا ہے جو آپ مانگتے ہو، چاہتے ہو۔

ہم نے قوموں کو دوستی اور دشمنی کے پیمانوں میں بانٹ رکھا ہے۔ یہ ہمارا دوست ہے، یہ ہمارا دشمن ہے۔ روس کو ہمیشہ بلاوجہ پاکستان کا دشمن سمجھا گیا۔ اس رویے کی وجہ سے اس کا جھکاؤ ہمیشہ بھارت کی طرف رہا، اس علاقے میں اسے ایک ایسا ملک تو ضرور چاہیے تھا جہاں اس کی SAY ہو۔ بھارت ایک چالاک ملک، اس وقت تک روس کے ساتھ تو رہا مکمل طور پر جب تک اس نے پاکستان کو پاکستان بنانے کی ’’سزا‘‘ نہیں دے دی۔

اب بھارت کے ’’پیچ‘‘ امریکا سے چل رہے ہیں کہ وہ موجودہ وقت کا ’’چیمپئن‘‘ ہے اور امریکا کی تنزلی کے بعد وہ کسی اور ابھرتے ہوئے سورج کے ساتھ ہو جائے گا یہی اصل اور درست جمہوریت ہے کہ عوام کو فائدہ ہو۔

یہی جمہوریت کشمیر میں ان کا خون بہا رہی ہے تا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رشتہ استوار کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ کر لیں اور اس سلسلے میں ان کو اسرائیل کی ’’تکنیکی‘‘ معاونت ظلم کے قائم کرنے کے سلسلے میں حاصل ہے جو وہ فلسطینیوں پر کرتا ہے۔

عرب ملک صرف ’’عقاب‘‘ پالنے پر توجہ دے رہے ہیں یہ عقاب بلوچستان سے وہاں لے جائے جاتے ہیں اس کے علاوہ موسم سرما کے ’’شکار‘‘ میں ان کو دلچسپی ہے کیونکہ یہ نایاب پرندے پاکستان میں آتے ہیں دنیا بھر سے خدا کے فضل و کرم سے، لہٰذا وہ یہاں ان کا شکار کرتے ہیں۔ ہمارے حکمراں ان کو اپنے ذاتی مفاد میں دنیا بھر کے طے شدہ قوانین کو توڑ کر ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور یہ حکمراں بھی پاکستان کے عوام کی مرضی کے خلاف ان پاکستانی حکمرانوں کو مدد دیتے ہیں۔

ان کے ملک ان پاکستانی حکمرانوں کی سیرگاہیں، قیام گاہیں بن جاتے ہیں جب وہ پاکستان سے فرار چاہتے ہیں۔ بدعنوان سیاستداں ہم یوں کہتے ہیں کہ ان پر الزام ہے کہ یہ پاکستان کی دولت لوٹ کر ان ملکوں میں جمع کرتے اور وہاں اپنی جائیدادیں بناتے اور رہتے ہیں۔ یہ تو وقت ہی مزید بتائے گا کہ کون کتنا ’’بدعنوان‘‘ ہے اور بتائے گا ضرور کیونکہ ہر حساب کھلے گا، ہر کتاب پڑھی جائے گی، ہر جرم کی سزا ملے گی یہ قدرت کا قانون ہے صرف وقت کا مسئلہ ہے دیر یا سویر اس کا فیصلہ ہو گا ضرور، یہ قانون قدرت ہے جو تبدیل نہیں ہوتا۔ پہلے ملک کے عوام کا معیار زندگی ’’بہتر‘‘ اور پھر بلند کیا جاتا ہے۔

یہ دنیا کا مسئلہ ہے اور دنیا بھر میں ایسا کیا جاتا ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں عوام سے کہا جاتا ہے کہ پھٹے پرانے پیوند لگے کپڑوں میں ’’میٹرو‘‘ میں سفر کرو تا کہ ہمارا ذاتی خزانہ بھرے اور ہمارے بچے ’’شہزادے شہزادیاں‘‘ بن سکیں۔ میٹرو میں کیا پراسراریت ہے وہ تو کافی عیاں ہو چکی ہے۔ سفر وسیلہ ظفر تو بہرحال ہے سب کے لیے تم اور تمہارے بچے اس کے حقدار نہیں۔ تھر ہو یا کوئی اور پاکستان کا علاقہ بچے مرتے رہتے ہیں کوئی خاص بات نہیں۔ پولیو، ہیپاٹائٹس، ایبولا وائرس اور دنیا بھر کی بیماریاں پاکستان کے عوام کے لیے ہیں۔

ہم نے اپنے بچوں کا باہر علاج کا بندوبست کر رکھا ہے عوام کے بچوں کا یہی مقدر ہے۔ ویسے بھی ملک کی آبادی بڑھے گی تو مسائل میں اضافہ ہو گا، ہم آبادی کم نہیں کر سکتے اگر ان بیماریوں اور سہولتوں کے فقدان سے آبادی کم ہو سکتی ہے تو کیوں نہ اس کا فائدہ اٹھایا جائے۔ یہ تو کم کرچ بلکہ ’’بغیر خرچ بالا نشیں‘‘ ہے۔

جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے اور جس نے یہ فرقے اور مسلک نہیں قائم کیے، جو سب کا وارث ہے۔ اعلیٰ ہے، حاکم ہے، مالک ہے، اس کو کتنا اور کیسے دھوکا دے سکتے ہیں یہ نہ جانے وقت کے فرعون کیوں بھول جاتے ہیں چاہے کسی بھی ملک سے تعلق ہو۔

اپنی آنکھوں سے دنیا میں عبرت کی تصویر بنتے دیکھ لیا حکمرانوں کو، مگر کچھ نہیں سیکھا، کچھ نہیں سمجھا، دراصل ’’اقتدار، حاکمیت، ظلم‘‘ یہ وہ نشے ہیں جن کا اب تک سوائے موت کے کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔

آج تک کوئی اس دنیا سے ظلم کر کے آرام سے رخصت نہیں ہوا، یا خودکشی کر لی یا اسے مار دیا گیا، یہ سبق سب نے پڑھا ہے۔ عملی مظاہرے دیکھے ہیں مگر بشر کا ’’شر‘‘ اب طاقتور ہے اور وہ اس کو خاتمے کی طرف لے جا رہا ہے، سب کچھ روبہ زوال ہے اور دنیا بھر کی قوموں میں اس سفر میں ہم بہت آگے ہیں۔ بہت تیزی سے زوال کے اس گڑھے کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔

شاید خدا اس قوم پر ایک بار پھر رحم کر دے کہ وہ بار بار اپنے نام لیواؤں کو بچاتا ہے اس قوم میں بھی اس کے نام لیوا ہیں، تعداد کم ہے، مگر ہیں، شاید خدا ان کی سن لے شاید۔۔۔!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔