گمنام روایات کے امین لوگ

منظور ملاح  جمعرات 19 مارچ 2015

میں جب کچھ سننے سمجھنے کے قابل ہوا، تو اپنے گاؤں کے چاروں طرف موجود لہلہاتی فصلوں، جھاڑیوں، پودوں، جانوروں اور پرندوں کی وسیع دنیا دیکھ کر خوش ہوتا، صبح اسکول جاتے وقت اور واپس گھر آتے ہونے ان سے کسی نہ کسی وجہ سے مخاطب ضرور ہوتا۔

جب سورج ڈھلنے لگتا تو ابو، امی روٹی کھانے کے لیے بلاتے، کھانا کھانے کے بعد اپنے گھر سے کچھ فرلانگ فاصلے پر موجود چاچا اللہ بخش کے گھر جاتا، جہاں دنیا جہان کی خبریں اپنے ساتھ لے کر آنے والے بزرگ لوگ چارپائیوں پر بیٹھ کر اپنی کمر کے ساتھ چادر کس کر بیٹھتے اور جو بھی جس جگہ سے دن گزار کے آتا، وہ وہیں کی خبریں سناتا اور بتاتا۔ ان میں کچھ زمیندار، کسان، چھوٹے بیوپاری، سیاسی کارکن اور سرکاری ملازم ہوتے، جو اسی محلے سے تعلق رکھتے۔ سیاست، سماجیات، ماحولیات، تاریخ اور لوک ادب ان کے موضوعات ہوتے۔

زندگی کے تجربات، گزرے دنوں کی یادیں، ماحولیاتی تبدیلیوں، کرنٹ افیئرز اور پھر لوک شاعری میں شاہ لطیف، سچل اور کئی شاعروں کی شاعری سنائی جاتی۔ کچھ وقفے کے بعد پہیلیوں کی باری آتی، جس میں ایک پہیلی تو دوسرے بوجھنے لگتے، یوں سندھی زبان کے کئی بھولے بسرے الفاظ ان کی زبان پر آتے اور پہیلیوں کو بوجھنے کا فن بھی توجہ حاصل کرتا، مقامی ساز نڑ کے خوبصورت ردھم کے ساتھ ساون فقیر کی جمالیاتی حسن سے بھرپور شاعری جس کے آخر میں یہ الفاظ دہرائے جاتے کہ ’’دل جلا ساون کہے‘‘ سندھ کی رزمیہ شاعری کے بڑے نام بھاگو بھان کی سندھ کے سومرو بادشاہ دودو اور دلی کے علاؤالدین کے درمیان جنگ کے مناظر کی جادوئی حقیقت نگاری پر مشتمل شاعری‘‘ جب دو دو گھوڑے پہ چڑھ کر لڑنے کے لیے روانہ ہونے لگا تو زمین ہلنے لگی اور درخت کے پتوں نے ہوا پر حرکت کرنا چھوڑ دیا۔‘‘

بھی گائی جاتی تو سننے والوں کے دل باغ و بہار ہو جاتے۔ جاڑا ہو یا ساون لوک کچہری کی روایات جاری رہتیں۔ کئی سالوں تک اس گھر میں یہ میلہ لگا رہا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ان میں سے کئی زندگی کی بازی ہارکر چلے گئے یہاں تک کہ چاچا اللہ بخش کی والدہ بھی چل بسی لیکن اللہ بخش نے اس تسلسل کو ٹوٹنے نہ دیا۔ زندگی کے کئی اتار چڑھاؤ آئے، کبھی ہاتھ تنگ تو کبھی کبھی جیب بھری رہی پھر بھی اس روایت کو مدھم ہونے نہ دیا۔

قد کے چھوٹے، سر پر سفید ٹوپی، شیو بڑھی ہوئی، بھاری آواز، چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ، اپنے دکھوں کو من میں دفن کر کے ہر وقت ہنسی مذاق کرتے رہتے ۔ میں بھی تسلسل کے ساتھ ان کے ہاں جاتا اور گھر کے آنگن میں رکھی چارپائیوں پر دوسروں کے ساتھ ڈیرا ڈال کے بیٹھتا۔

کبھی وہ جھیلوں، ان میں موجود مختلف اقسام کی گھاس، مچھلی کے اقسام اور عادات، مگرمچھوں اور سائیبریائی پرندوں کے شکار کی باتیں کرتے تو کبھی سیاست میں کود پڑتے۔ ان کے آئیڈیل سیاستدان ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ پھر زمینوں اور فصلوں کی باتیں کرتے، اپنے تجربات دوسروں سے شیئر کرتے یہاں تک کے لاہور اور پشاور کی رنگینیوں میں بھی ڈوب جاتے۔ رشتوں کے بدلتے تعلق، برسات اور قحط کی علامات، لوک دانش کی خوبصورت باتیں، ان کے زبان سے نکل کر میری جمالیاتی حس کو چھوتیں۔ ان پڑھ ہونے کے باوجود ان کے پاس علم کا خزانہ تھا۔ ان کا واقعات بتانے کا انداز بھی نرالا تھا۔

وہ اپنی زبان کے ساتھ دونوں ہاتھوں کو بھی تیزی سے حرکت میں لاتے اور تسلسل کے ساتھ پرکشش ڈکشن میں بتاتے جاتے، اگر وہ پڑھے لکھے ہوتے تو شاید اچھے افسانہ نگار یا ناول نگار ہوتے۔ خوبصورت آواز کی لوک فنکارہ ریشماں سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے اتنا اچھا گانا کس سے سیکھا تو اس نے دلچسپ جواب دیا تھا کہ ہمارے لیے کوئی اسکول ہی نہیں بنا ویسے بھی علم شاندار عمارتوں کی بجائے دھول اڑاتے ہوئے مسافروں، مال مویشی چرانے والے، چرواہوں، زمین کا سینہ چیرنے والے کسانوں سر پر تغاری اٹھاتے ہوئے مزدوروں سے ملتا ہے اور اللہ بخش بھی تو ایسے ہی محنت کش لوگوں میں سے تھے۔

پال تھیرو نے اپنے سفرنامے ’’دی گھوسٹ ٹرین ٹو ایسٹرن اسٹار‘‘ میں لکھا ہے کہ ارنیسٹ ہیمنگوے جب افریقا گئے تو معصوم پرندوں سے شکار کھیلا، غلام افریقیوں سے کھانا پکوایا اور عیاشیاں کرتے رہے، لیکن جب میں امریکی امن دستوں کے ساتھ افریقا گیا تو ان مظلوم لوگوں کے ساتھ ننگے پاؤں سانپ بلاؤں کی موجودگی میں مارا مارا پھرتا، ان کے ساتھ کھاتا، پڑھاتا اور رات زمین پر سوتا۔ جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا، اللہ بخش بھی ایسے ہی مظلوم طبقوں کے نمایندے تھے، اس لیے ان کی باتوں سے اپنی مٹی کی خوشبو بھی آتی تھی۔

پورچوگال کے نوبل لاریٹ رائٹر، جوز سارا ماگو بھی مال چرانے والے چرواہوں کے ساتھ بیٹھتے، ان کی باتیں غور سے سنتے اور پھر اپنی تصانیف میں وہی کردار، ڈکشن اور اسٹائل اپناتے جس سے اسے ادبی حلقوں میں شہرت ملی۔ اس نے اعلان کیا کہ یہی چرواہے ان کے استاد تھے۔

اللہ بخش نے بھی بچپن سے بکریاں چرائیں، مٹھڑاؤ اور نارا کینال کنارے موجود جھاڑیوں میں پاؤں گھسائے، انگریزوں کے دور کے املی اور شیشم کے لمبے اور گھنے درختوں کے نیچے تیز دھوپ کی موجودگی میں ٹھنڈی چھاؤں کے نیچے آرام کیا اور شام کو مدھم روشنی میں بکریوں کے ساتھ من کی باتیں کیں۔

اور شام کو وہی باتیں ہمیں سننے کو ملتیں، اس لیے وہ بھی جوز سارا ماگو کے استادوں کی طرح میرے بھی استاد تھے۔ مارچ کی 12 تاریخ کو شام کی ٹھنڈی ہواؤں کی آغوش میں جب حسب معمول ان کی باتیں سن کر واپس گھر لوٹا تو آدھی رات کی پر فریب روشنی میں ان کی روح پرواز کر چکی تھی اور ہم جیسے علم کے پیاسے لوگ ہاتھ ملتے رہ گئے۔

اب اس کے گھر کے آنگن میں اداسی چھائی ہوئی ہے، ہر آنکھ اشک بار ہے۔ ویسے بھی پتہ نہیں کیوں اچھے لوگ زندگی میں جلد ہی الوداع کہہ جاتے ہیں۔ اللہ بخش جیسے لوگ اپنی گمنام روایات کے امین ہوتے ہیں، جنھیں شہرت کی بھوک ہوتی ہے نہ ہی سطحی پن Mediocrity اور منافقت Hypocrisy کو قریب آنے دیتے ہیں۔ بلکہ یہ لوگ صوفی ازم کے نعرہ پر گامزن ہوتے ہیں کہ جو محنت کرے وہی کھائے۔ اس ملک خصوصاً سندھ کی دھرتی سے ایک اور گمنام روایات کا امین آدمی بچھڑ گیا۔ جس پر ہم صرف آنسو ہی بہا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔