سب سے بڑا میلہ دلی میں اردو کا میلہ

انتظار حسین  جمعـء 20 مارچ 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

صاحب ویسے تو یہ نقشہ ہم پاکستان میں بھی دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کراچی سے لاہور تک اور لاہور سے اسلام آباد تک کہ ہر لٹریچر فیسٹیول ایک اچھا خاصہ میلہ ہوتا ہے۔ بات انگریزی سے شروع ہوئی تھی۔ اردو نے اس میں حصہ بنانا شروع کیا پھر سندھی پنجابی اور دوسری پاکستانی زبانوں نے بھی اپنا اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا۔ مگر سب سے بڑا ادبی میلہ ابھی ہم دلی میں دیکھ کر آ رہے ہیں۔ اور یہ تھا نخالص اردو کا میلہ جو جشن ریختہ کے عنوان سے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں برپا ہوا۔ ویسے تو یہ سینٹر دلی کی راجدھانی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

آئے دن صبح و شام یہاں ادب اور آرٹ کی‘ کلچر کی گہما گہمی رہتی ہے لیکن ایسا میلہ اس ادارے نے بھی پہلے کب دیکھا ہو گا۔ یارو اغیار سمجھ بیٹھے تھے کہ اردو کا دفتر دلی سے مٹ گیا۔ ارے کہاں مٹا۔ صورت خورشید ادھر ڈوبی اور ادھر پھر نمودار ہو گئی۔ لیجیے یہ تو پھر اردو کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اتنا ہجوم اتنا مجمع سامعین کا آئی آئی سی کے در و دیوار نے‘ اس کے سبزہ زاروں نے‘ اس کے بلند و بالا ایوانوں نے کبھی کا ہے کو دیکھا ہو گا۔ ہاں اور یہ مجمع اردو کے ان روایتی سامعین کا نہیں تھا جو مشاعروں میں ہوا کرتا تھا اور جو واہ واہ سبحان اللہ کے شور سے اور مکرر کے مسلسل مطالبوں سے آسمان سر پہ اٹھا لیتا تھا۔

یہ مجمع نئی راجدھانی کے نئے نویلے صاحبزادوں کا ہندی انگریزی میں پیری ہوئی صاحبزادیوں کا تھا۔ اور جشن ریختہ کے بانی جناب سنجیو صراف اعلان کر رہے تھے کہ مطبع نولکشور کے چھاپے ہوئے سارے ذخیرے کو ہم نے انٹرنیٹ میں انڈیل دیا ہے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں اس ضمن میں اعداد و شمار بھی پیش کیے تھے۔ خیر وہ آگے چل کر۔

ویسے تو یہاں ہر سیشن اور ہر نشست میں مجمعوں سے بڑھ کر مجمعے تین تھے۔ ایک مجمع جاوید اختر کے مداحوں کا‘ دوسرا مجمع ضیا محی الدین کے پروانوں کا‘ تیسرا مجمع نومولود داستان گویوں کے متوالوں کا۔

اس اجمال کی تھوڑی تفصیل اس طرح ہے کہ جاوید اختر کو ان کی والدہ صفیہ اختر نے جادو کا نام دیا تھا۔ وہ جادو اب ان کی شاعری اور شخصیت کا حصہ بن گیا ہے۔ ان کی شاعری کو قبول عام کی سند حاصل ہے اور ان کی شخصیت کا جادو اب ہم نے ریختہ کے اجتماع میں دیکھا۔ وہ بول کیا رہے تھے اپنے مداحوں پر سحر کر رہے تھے۔

ضیا محی الدین کا احوال کیا پوچھتے ہیں۔ اردو نثر و نظم دونوں کی پڑھنت میں انھوں نے وہ کمال حاصل کیا ہے کہ جب وہ راشد اور فیض کی نظمیں پڑھتے ہیں تو شاعری جادو بن جاتی ہے۔ اور جب وہ نثر کی طرف آتے ہیں تو ادھر بھی کچھ ایسا ہی نقشہ نظر آتا ہے۔ مجمع ان کے سیشن میں اتنا تھا کہ ابلا پڑ رہا تھا۔ اندر تو ہم جا نہیں سکے۔ لیکن جب اس ایوان کے بڑے دالان سے گزرے تو دیکھا کہ یہاں بھی سامعین کا ایک ہجوم ہے اور اسکرین پر اس کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ کریدا تو پتہ چلا کہ جو سامعین ہال میں نہ سما سکے ان کے لیے یہاں دالان میں یہ انتظام کیا گیا ہے کہ ضیا محی الدین خود ہال میں اپنا جادو جگا رہے ہیں‘ یہاں ٹیلی ویژن اسکرین کے واسطے سے اپنے سامعین سے مخاطب ہیں۔

اور یہ جو تیسرا مجمع ہے یہ اپنی جگہ پر ایک طلسم ہوش ربا ہے۔ ارے جب سن ستاون کے بعد اردو ادب کی تاریخ میں غدر پڑا تھا تو کلاسیکی عہد کی شاعری سے بڑھ کر مصلحین کا نرغہ داستانوں پر پڑا تھا۔ داستان گوئی اور داستان نگاری کی پوری روایت کے بارے میں حکم صادر ہوا تھا کہ اس کے مردے کو ذرا گہرا گاڑنا۔ اور واقعی اس وقت سے لے کر ابھی پچھلے برسوں تک یہی گمان تھا بلکہ یاروں کو یقین تھا کہ اردو داستان کی روایت نیست و نابود ہوگئی۔ اور اس شہر دلی کے آخری داستان گو میر باقر علی نے اس رنگ سے داستان گوئی کی شام کی کہ داستانوں کا دفتر لپیٹ کر طاق میں رکھا اور سروطہ لے کر چھالیاں کترنی شروع کر دیں۔ بھلے وقتوں میں ٹھسے سے راجوں مہاراجوں کے درباروں میں جاتے تھے اور اپنی داستان گوئی کا سحر پھونکتے تھے۔ اسی حال میں آخری سانس لیا اور گزر گئے۔ ارے ہم تو سمجھ رہے تھے کہ داستان گوئی کی روایت نے بھی میر باقی علی کے آخری دموں کے ہنگام آخری ہچکی لی اور مردہ شد۔

ارے پھر وہ دو نوخیز داستان گو محمود فاروقی اور دانش حسین کس کھوہ سے برآمد ہوئے اور داستان سنائی شروع کر دی۔ ابھی شمس الرحمن فاروقی داستان امیر حمزہ کے بحر نا پیدا کنار کے بیچ غوطے لگا رہے تھے۔ ان کی شناوری کے مراحل تو طے ہو جانے دیتے۔ ان دو داستان گویوں نے شہر دلی کو خبردار کیا کہ ہم داستان در بغل پھر آ گئے ہیں۔ یہ کل کی بات ہے اور آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ لاہور میں بھی داستان گویوں کی ایک جوڑی نمودار ہو چکی ہے اور دلی میں بھی مزید ایک داستان دارین شاہدی پیدا ہو گئے ہیں۔ لیجیے جشن ریختہ میں داستان گوئی کی بھی ایک محفل آراستہ ہو گئی۔

جو سنجیدہ بحث مباحثے وہ بھی تو اپنا بیان مانگتے ہیں۔ مگر وہ بعد میں۔ پہلے یہ دیکھتے چلیں کہ یہ جو نئے نئے ہنرمند ہیں۔ کوئی فلم ساز‘ کوئی تھیٹر آرٹسٹ‘ کوئی دستاویزی فلم کا ماہر‘ یہ کس خوشی میں یہاں گھوم پھر رہے ہیں۔ اور کس ٹوہ میں ہیں۔ ایک بی بی ہیں نندتا داس وہ بھی یہاں منڈلا رہی تھیں۔ کسی نے ہمارے کان میں کہا انھیں معمولی شے مت سمجھنا۔ کانٹے کی فلم ساز ہیں۔ منٹو پر فلم بنانے کے عمل میں ہیں۔ ہم نے ان سے کہا کہ منٹو کو قریب سے جاننے والے اتنا کچھ کہہ چکے ہیں۔

ہم اس معلومات میں کیا اضافہ کریں گے۔ بولیں کہ آپ سے تو یہ جاننا مقصود ہے کہ جب منٹو صاحب پاکستان پہنچے تو وہاں ادبی فضا کیا تھی۔ منٹو صاحب کا سواگت کیسا ہوا۔ ہم نے کہا کہ ارے یہ تو اپنی جگہ پر ایک رزمیہ ہے۔ ’کھول دو‘ کی اشاعت پر ایک یورش۔ وہ سرکاری یورش تھی۔ پھر ترقی پسند تحریک سے مجادلہ۔ پھر سیاہ حاشئے‘ کی اشاعت پر لعن طعن۔ احمد ندیم قاسمی کا منٹو کے نام کھلا خط۔ ترقی پسند رسالوں کی طرف سے منٹو کا بائیکاٹ۔ نہ صرف منٹو کا بلکہ سب رجعت پسندوں کا۔

ہاں ایک بی بی اور سرگرم نظر آئیں۔ جو گندر پال کی دختر نیک اختر سکریتا پال نامی گرامی افسانہ نگار جو گندر پال کو بڑھاپے نے آ لیا ہے۔ وہ خانہ نشین ہیں۔ مگر سکریتا بہت متحرک ہیں۔ جاوید اختر سے سوال جواب وہی کر رہی تھیں۔ ہمارے لیے دو سوغاتیں لائیں۔ ایک تو اپنی انگریزی شاعری کی سوغات اور گلزار صاحب کی طرف سے ریوڑی گزک کی سوغات۔ دونوں ہی سوغاتیں بہت میٹھی تھیں۔ ہم انھیں پا کر کتنا خوش ہوئے کہ چُپڑی اور دو دو۔ باقی آیندہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔