گداگر اور گداگروں کے ٹھیکیدار

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 20 مارچ 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

شہر کی سڑکوں، گلیوں، مسجدوں، بازاروں، مارکیٹوں، پٹرول پمپوں، اسپتالوں غرض آپ شہر کے کسی مقام سے گزریں آپ کو بھیک مانگنے والوں کا سامنا کرنا پڑے گا جو ہاتھ پھیلا کر آپ کو ’’اﷲ کے نام پر‘‘ سوال کرتے نظر آئیں گے، مجھے ان مانگنے والوں کے چہروں پر ایسی خوشامدانہ بے بسی نظر آتی ہے جسے دیکھ کر مجھے گھن آتی ہے۔ یہ ایک بہ ظاہر پیدا ہونے والا رد عمل ہے جو عموماً ہر اس شخص کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے جسے ان بھیک مانگنے والوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان بھکاریوں میں نوجوان لڑکیوں کے گروہ بھی ہوتے ہیں جو بھیک کی آڑ میں جسمانی کاروبار بھی کرتے ہیں۔ بھیک مانگنا اور بھیک کی آڑ میں کاروبار کرنا دونوں ہی کام انسانیت کی توہین ہیں۔

ہمارا معاشرہ لین دین کے کیچڑ میں اس قدر دھنسا ہوا ہے کہ ان مجبوروں اور لاچاروں سے بھی پولیس بھتہ لیتی ہے اور بھتہ نہ ملنے کی صورت میں ان غریبوں کے چالان ہوتے ہیں اور انھیں جیلوں تک پہنچا دیا جاتا ہے یا ان کی عزتوں سے کھیلا جاتا ہے، ہمارے ملک میں گداگری کے حوالے سے قوانین بھی بنے ہوئے ہیں اور ان قوانین کا استعمال قانون نافذ کرنے والوں کے صوابدید پر منحصر ہوتا ہے، عید، بقر عید کے موقعے پر کراچی اور دوسرے بڑے شہروں میں دیہی علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں گداگر آتے ہیں اور شہریوں کو ان گداگروں سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔

ان بھکاریوں، گداگروں کے بھی ٹھیکیدار ہوتے ہیں جو ہر روز صبح انھیں اپنی گاڑیوں میں بٹھا کر انھیں مقررہ جگہوں پر چھوڑ دیتے ہیں، ان گداگروں میں لولے، لنگڑے، اندھے وغیرہ شامل ہوتے ہیں جو اپنی معذوری دکھا کر شہریوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لیتے ہیں اور بھیک حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ٹھیکیدار ان غریبوں، بے بسوں، لاچاروں سے بھیک کی کمائی کا ایک بڑا حصہ وصول کر لیتے ہیں، ان کے چہرے سرخ و سفید ہوتے ہیں، ان کی صحت قابل رشک ہوتی ہے یہ ٹھیکیدار بہترین کپڑوں میں ملبوس ہوتے ہیں، خوبصورت گھروں میں رہتے ہیں، قیمتی گاڑیوں میں گھومتے پھرتے ہیں، جب ان ٹھیکیداروں کے کاروبار پر نظر ڈالتا ہوں تو نہ جانے کیوں میری نظروں کے سامنے پسماندہ اور غریب ملکوں کے حکمران آ جاتے ہیں۔

پسماندہ ملکوں کا حکمران طبقہ جب ترقی یافتہ ملکوں سے امداد لینے جاتا ہے تو اسے بھی اپنے ملک کی غربت کا حوالہ دینا پڑتا ہے۔ غربت کا نقشہ غربت کے اعداد و شمار پیش کرنا پڑتے ہیں اور جب وہ اپنے ملک کی غربت دور کرنے کے نام پر کروڑوں ڈالر کی بھیک حاصل کر لیتاہے تو اس رقم سے غریبوں کی غربت تو دور نہیں ہوتی البتہ امیروں کی امارت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بھیک یا خیرات دینا ثواب بھی ہے اور نیکی بھی لیکن انسانیت کے نصاب میں سب سے بڑا ثواب، سب سے بڑی نیکی بھوک اور غربت کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غربت اور بھوک کسی معاشرے کا لازمی حصہ اور فطری وصف ہوتے ہیں یا یہ معاشرتی تقسیم کی پیداوار ہوتے ہیں؟ بھوک کی ایک وجہ اور معقول وجہ یہ ہوتی ہے کہ ضرورت کے مطابق اجناس پیدا نہ ہوں، انسان کی بنیادی ضرورتیں پوری نہ ہوں اس کی دوسری وجہ قومی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے، مثال کے طور پر پاکستان ہی کو لے لیں پاکستان میں غذائی پیداوار ہماری ضرورت سے زیادہ ہوتی ہے۔ گندم ہماری غذا کا سب سے بڑا حصہ ہے اور گندم اس قدر زیادہ پیدا ہو رہی ہے کہ ہم اسے انتہائی سستے داموں برآمد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس خوشگوار حقیقت کے برخلاف حقیقی صورت حال سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ ہے کہ ہماری آبادی کا 40 فی صد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور غربت کی لکیر کا مطلب روٹی، کپڑے جیسی بنیادی ضرورت سے محرومی ہے۔

بھکاری اور گدا گر بھی روٹی، کپڑے سے محرومی کی وجہ سے ہی بھیک مانگتے ہیں اور عزت و ذلت کی حد بندیوں کو عبور کر لیتے ہیں لیکن آبادی کا ایک بڑا حصہ ان حد بندیوں کو عبور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، خاموشی سے فاقے کرتا ہے بھیک نہیں مانگتا، ایسے حساس، خود دار اور عزت نفس کو جان سے زیادہ عزیز رکھنے والی بھاری اکثریت عملاً بھکاریوں سے مختلف نہیں لیکن ان کی عزت نفس، ان کے اور بھیک کے درمیان دیوار بن کر حائل ہو جاتی ہے، یہ سلسلہ نیا نہیں صدیوں پر پھیلا ہوا ہے اور غربت اور پسماندگی کے نام پر ترقی یافتہ ملکوں سے کروڑوں ڈالر کی بھیک لینے والے ٹھیکیدار اس رقم کا بڑا حصہ خورد برد کر لیتے ہیں اس لیے غربت کم نہیں ہوتی، امارت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی دولت پیدا کرنے والا مزدور، کسان اور دوسرے غریب طبقات ہی ہوتے ہیں۔ کلفٹن، ڈیفنس میں یا ماڈل ٹاؤن جیسی پوش بستیوں میں رہنے والا طبقہ تو نہ گندم پیدا کرتا ہے نہ چاول نہ گنا نہ کپاس پھر وہ ان پوش بستیوں میں کیسے پہنچ جاتا ہے اس کے ملکی اور غیر ملکی بینکوں میں کروڑوں ڈالر کیسے آ جاتے ہیں وہ دنیا کے مختلف ملکوں میں بڑی بڑی قیمتی جائیدادیں کیسے خرید لیتا ہے کیا اس کی جائز آمدنی اتنی ہوتی ہے کہ وہ یہ ساری عیاشیاں کر سکے؟ نہیں یہ ساری دولت وہ ناجائز طریقے سے کماتا ہے اور یہ ساری دولت غریبوں کی محنت کا نتیجہ ہوتی ہے، بھیک دینا خیرات کرنا اگر ثواب اور نیکی کے کام ہیں تو اپنی محنت کی کمائی غاصبوں سے چھین لینا کیا ثواب اور نیکی کے کام نہیں؟

دنیا کی مجموعی دولت کا اسی فی صد حصہ صرف 20 فی صد لوگوں کے تصرف میں ہے اور اس اسی فی صد کا اسی فی صد صرف دو فیصد غاصبوں کے ہاتھوں میں ہے، دولت کی اس نا منصفانہ اور شرمناک تقسیم کی وجہ ہمارے معاشرے میں بھکاری بھی پیدا ہو رہے ہیں گداگر بھی۔ بعض ’’صلح پسند‘‘ اکابرین اور قلمکار کہتے ہیں کہ جمہوریت کے ذریعے ہی اس تفاوت کو دور کیا جا سکتا ہے۔ بلاشبہ جمہوریت کے ذریعے اس ظالمانہ فرق کو دور کیا جا سکتا ہے لیکن جمہوریت ہے کہاں؟ گدا گروں کے ٹھیکیداروں کی طرح غربت کے ٹھیکیداروں کے ہاتھوں میں جب تک اختیار اور اقتدار رہے گا وہ غریبوں کے نام پر باہر سے بھی بھاری امداد بٹورتے رہیں گے اور اندر کے عوام کی کمائی پر بھی سانپ بن کر بیٹھے رہیں گے۔

ہمارا حکمران طبقہ بھیک اور گداگری کو انسانیت کی تضحیک سمجھ کر اسے روکنے کے لیے سخت قوانین بناتا ہے، سڑکوں، بازاروں سے بھیکاریوں اور گداگروں کو پکڑ کر جیلوں میں ڈال دیتا ہے، بلا شبہ بھیک اور خیرات توہین انسانیت ہیں اور اسے روکنے کے لیے سخت سے سخت قوانین بننے چاہیے۔ لیکن بھکاریوں اور گداگروں، بھوک اور گداگری کو پیدا کرنے والوں کے لیے کیا سزا کیسے قوانین بننے چاہئیں اور بھوکوں اور گداگروں کے ٹھیکیداروں کے لیے کیسے قوانین بننے چاہئیں، کیسی سزائیں مقرر کی جانی چاہئیں؟

مچھر، مکھی کے کاٹنے سے انسان مر نہیں جاتا لیکن ان کیڑوں سے انسان اس قدر نفرت کرتا ہے کہ انھیں مسل دیتا ہے، انھیں مار دیتا ہے اور یہ مخلوق جن گندی نالیوں میں پیدا ہوتی ہے ان نالیوں میں جراثیم کش ادویات چھڑک کر ان حشرات کی پیداوار کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ حشرات الارض جو ہر سال لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں کروڑوں کو غربت بھوک بیماری، بیکاری کے دلدل میں دھکیل دیتے ہیں ان کو غریب انسان کب تک سروں پر اٹھا پھرے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔