پارسا!

ندیم جاوید عثمانی  اتوار 22 مارچ 2015
جب بھی تازہ پھولوں کی مہک میری ناک سے ٹکراتی تو ایسا لگتا جیسے کسی تازہ قبر پر ڈھیروں پھولوں کی چادر ڈال دی گئی ہو۔ فوٹو اے ایف پی

جب بھی تازہ پھولوں کی مہک میری ناک سے ٹکراتی تو ایسا لگتا جیسے کسی تازہ قبر پر ڈھیروں پھولوں کی چادر ڈال دی گئی ہو۔ فوٹو اے ایف پی

میں ایک طوائف ہوں، یہاں شخصیت کی شناخت کے لئے نہیں جسم کی شناخت کے لئے نام ہوتے ہیں، تو میرا نام کنول فرض کرلیں۔ میرے نزدیک دُنیا کی سب سے بہترین خوشبو تازہ پکی ہوئی روٹی کی خوشبو ہے، جو ایک کوٹھے کو بھی گھر ہونے کا احساس فراہم کرتی ہے۔

جب کبھی میں اپنی کھڑکی سے نیچے جھانکتی تو نیچے سجی پانوں اور پھولوں کی دکانیں اس بازار کو الگ ہی رونق بخش رہی ہوتی تھیں، یہ اور بات ہے کہ جب بھی اُن تازہ پھولوں کی مہک میری ناک سے ٹکراتی تو ایسا لگتا جیسے کسی تازہ قبر پر ڈھیروں پھولوں کی چادر ڈال دی گئی ہو۔ بالکل ایسے ہی احساسات میرے تب بھی ہوتے تھے جب رات کوکوئی گاہک اپنی کلائی میں پھولوں کو لپیٹے آتا تو صبح بستر پر اُن مسلے ہوئے پھولوں کو دیکھ کر میں سوچنے لگتی تھی کہ ان پتیوں پر زیادہ سلوٹیں پڑی ہیں یا میری روح پر؟ ظاہری زخموں کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ان کا علاج کیا جاسکتا ہے مگر وہ زخم جو پوشیدہ ہوں اُن کی صرف تکلیف برداشت کی جاتی ہے، خاص طور پر اُس صورت میں جب مقام درد کا تعین بھی نہ ہو سکے۔

اس درد کی شدت اُس وقت اور بڑھ جاتی تھی جب میں باہر کسی کام سے نکلتی اور بازاروں میں کسی عورت کو اس کے خاوند یا بچوں کے ساتھ دیکھتی تھی، ان کو یوں کُھلی فضاء میں سانس لیتا دیکھ کر میری اپنی سانسیں رکنے لگتی تھیں، اور میری آنکھوں میں بھی یہ خواب مچلنے لگتا کہ میں بھی ایسے ہی اپنے شوہر کے ہمراہ خریداری پر نکلوں، اس سے جھوٹی ناراضگی کا اظہار کرکے اپنی فرمائیشں پوری کراؤں، میرے بچوں نے ایسے ہی میری انگلی تھام رکھی ہو، مگر مجھے پتا تھا میرے اس گھر کے خواب کے بیچ یہ کوٹھے کا سمندر پڑتا ہے جس کی لہریں میری آنکھوں میں سجنے والے ایسے ہرخواب کو بہا کر لے جائیں گی۔

میرا نام عابد ہے، جیسے دسترخوان پر ہر نئی ڈش کھانے والے کی کمزوری ہوتی ہے ایسے ہی میرے لئے ہر نیا جسم میری کمزوری ہے، جن بازاروں کو بدنام کہا جاتا ہے وہاں میرے جیسے شریف اکثر راتوں کو پہنچ جاتے ہیں ۔ میری ابھی شادی نہیں ہوئی تھی تو اپنی خواہشوں کے لئے میں نے ایسے ہی چور دروازے دیکھ رکھے تھے ۔ ایسے ہی ایک کوٹھے پر میرا رابطہ کنول نامی ایک طوائف سے ہوا ،جو نام کی طرح خود ایک کھلا ہوا پھول تھی، جس کو دیکھ کر آپ ہی پتیاں مسلنے کو دل کرنے لگتا ہے۔ میرے اکثر جانے سے پتہ نہیں وہ کس غلط فہمی کا شکار ہوئی کہ ایک دن مجھ سے شادی کی خواہش کا اظہار کربیٹھی۔ میں اور ایک طوائف سے شادی؟ توبہ میرے لئے تو اماں بہنیں لڑکیاں دیکھتی پھررہی تھیں، اور میں نے کہہ دیا تھا مکمل دین دار اور باپردہ ہو جسے زمانے کی ہوا نہ لگی ہواور شاید اس خوف کی وجہ یہ تھی کہ مجھے خود بہت زمانے کی ہوا لگی ہوئی تھی، بس تو جس دن اُس نے شادی کی خواہش کا ظاہر کی میں نے اُس کے کوٹھے کا رُخ کرنا ہی چھوڑ دیا۔ خریدار ہونا چاہئیے بکنے والی چیزوں کی یہاں کمی تھوڑی ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں نے گھر والوں سے کہہ دیا کہ اب جلد سے جلد کوئی پاپردہ لڑکی فائنل کرلیں۔

میرے کوٹھے پر ایک ریاض نامی شخص آنے لگا، وہ جب بھی آتا پتہ نہیں اُس کی آنکھیں دیکھ کر مجھے ایسا کیوں لگتا کہ اُن آنکھوں میں دیگر مردوں والی وہ ہوس نہیں، جو عورت کو دیکھتے ہی جگمگانے لگتی ہے۔ بارہا دل کیا کہ اس سے اپنی خواہش کا اظہار کردوں مگر اپنے ایک گاہک عابد سے اظہار کو بھگت چکی تھی، اب نہیں چاہتی تھی کہ بول کر پھر اپنی اس خواہش کو پامال کروں۔ مگر شاید میرے جذبوں میں صداقت تھی کہ ایک دن ریاض نے خود مجھے شادی کی پیشکش کردی، کتنے لمحے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا، میں نے یقین دہانی کو پھر پوچھا تم یہی کہہ رہے ہو نا جو میں سُن رہی ہوں، یہ جانتے ہوئے بھی میں ایک طوائف ہوں؟ ہاں تو کیا ہوا طوائف کیا عورت نہیں ہوتی؟ یا اُس کے اندر عورت والے جذبات نہیں ہوتے؟ میں نے تمہاری آنکھوں میں ایک گھر کے خواب کو دیکھا ہے۔

پھر کس طرح میں کوٹھے سے نکلی یہ الگ کہانی ہے۔ بہرحال آخرکار میں نے ریاض سے شادی کرہی لی، حالانکہ دل میں سو طرح کے وسوسے تھے کہ یہ میرے ماضی سے واقف ہے آگے چل کر چھوڑ نہ دے، مگر شادی کے بعد جو محبت اُس نے مجھے دی اُس نے میرے تمام خدشات مٹا دئیے۔ شادی کے بعد میں برقع پہننے لگی تھی مگر حجاب نہیں کرتی تھی۔ اب جب ریاض کے ساتھ شاپنگ پر بازار جاتی جھوٹی ناراضگی دکھا دکھا کر اپنی فرمائیشں پوری کراتی تو ایسا لگتا میرا برسوں کا خواب پورا ہوگیا، اور خوشیوں کا یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ زندگی کی سب سے بڑی خوشی تو اُس دن ملی جب مجھے پتہ چلا تھا کہ میں ماں بننے والی ہوں۔

میرے پیر تو خوشی کے مارے زمین پر ہی نہیں ٹک رہے تھے۔ اُس دن ریاض اسی سلسلے میں مجھے ایک کلینک پر چیک اپ کے لئے لے کر آئے تھے، ڈاکٹر ابھی تک نہیں آئی تھی ویٹنگ ایریا میں کافی رش لگا ہوا تھا۔ میں ریاض سے باتوں میں مصروف تھی کہ میری نظر بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے عابد پر پڑی جس کے ساتھ مکمل حجاب کئے ہوئے ایک عورت تھی، ہاتھوں میں دستانے اور پیروں میں موزے۔ میں یہ سب دیکھ کر ہی سمجھ گئی کہ یقینا اس کی بیوی ہی ہوگی، اُس کی نظر مجھ پر نہیں پڑی تھی، میرے ہونٹوں پر ایک تلخ سی مسکراہٹ اُبھری اور میں دوبارہ ریاض سے باتوں میں لگ گئی ۔

میری بیوی اُمید سے تھی آج اُس کو چیک کے لئے کلینک لایا تھا، میں اپنی بیوی کے ساتھ بیٹھا تھا جب میری نظر کنول پر پڑی افوہ یہ برقع یہ گھریلوانداز۔ ایک طوائف کے! بے ساختہ میری نگاہ اپنی بیوی پر گئی جو سرسے پاؤں تک پردے میں رہتی تھی تو میرا سینہ فخر سے چوڑا ہوگیا ابھی میں اسی بات پر خوش ہورہا تھا کہ میری بیوی کو اچانک گھبراہٹ شروع ہونا شروع ہوگئی، ڈاکٹر آئی نہیں تھی اُسے شاید کوئی درد ہورہا تھا، تکلیف کی شدت روکنے کے لئے بار بار میرا ہاتھ پکڑ رہی تھی کہ اچانک اُس کے مُنہ سے ایک بڑی اُلٹی نکلی، اُس کے برقعے کا سارا اوپری حصہ خراب ہوگیا، بحالت مجبوری میں نے اُسے نقاب کھولنے کا کہہ دیا تاکہ صیح طرح سانس لے سکے۔ اس کی خراب حالت کی وجہ سے آس پاس کے مریض بھی متوجہ ہورہے تھے۔

میں اپنی بیوی کنول کے ساتھ کلینک میں بیٹھا تھا اور کافی دیر سے اس مکمل برقع پوش کو دیکھ رہا تھا، جس کی شاید حالت خراب ہورہی تھی تب بھی وہ پردہ نہیں ہٹا رہی تھی اور مجھے ہنسی آرہی تھی کہ سلام ہے بی بی تمہارے اس پردے پرکہ اچانک اُس کو اُلٹی آنے کی وجہ سے نقاب ہٹانا پڑا اور اُس کے چہرے پر نگاہ پڑتے ہی میں اُچھل پڑا ۔ ارے یہ تو ریحانہ تھی میرے پرانے محلے میں ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ بہت خوبصورت تھی، پانچ سال تک نہ صرف اس سے میرا چکر چلا تھا بلکہ ہم دونوں نے مل کر کتنی راتوں کو روشن کیا تھا، ایک بار تو حمل سے بھی ہوگئی تھی اللہ اللہ کرکے جان چھڑانا پڑی تھی۔ یہ اپنا نقاب نہیں کھولتی تو مجھے تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اتنے پردے کے پیچھے ریحانہ ہے!

اب میری بیوی کی طبعیت سنبھل رہی تھی اور اُس کے برقع کا اوپری حصہ جو میں نے سامنے پنکھے کے آگے پھیلا دیا تھا وہ بھی خشک ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر آنے والی ہی تھی کہ میں نے اپنی بیوی ریحانہ سے کہا چلو اب تو طبعیت بہتر ہے نقاب کرلواچھا نہیں لگتا ۔ اوروہ جی کہہ کر واپس مکمل پردے میں ہوگئی! میری نظر ایک بار پھر سامنے بیٹھی کنول پر گئیں اور ایک بار پھر میرے لبوں سے نکلا ۔۔۔۔ طوائف!

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔