ایشیاء کا سوئٹزرلینڈ

راؤ منظر حیات  ہفتہ 21 مارچ 2015
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

ہم انفرادی اوراجتماعی کردارمیں انتہائی مشکل لوگ ہیں۔ لیکن حیرت انگیزاَمریہ بھی ہے کہ ہمارے کئی رویے انتہائی آسان ہیں۔ زمین اورآسمان کے اس فرق کو ہر شخص اپنی نظرسے دیکھتا ہے۔وہ کتنا معقول اورسنجیدہ یاحقیقت کے قریب تر ہے،یہ ایک بالکل علیحدہ سوال ہے!

ہم ہرمسئلہ کو بلاروک ٹوک کے بڑھنے دیتے ہیں۔ جب وہ بلابن کرسامنے کھڑاہوجاتاہے توہم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا۔اب کیا کیا جائے۔مثال کے طورپرکراچی کے حالات کوپیش کرتا ہوں۔ اخباراورٹی وی دیکھ کرایسے ابہام ہوتاہے کہ یہ تمام مصیبت دوچارمہینوں میں پیداہوگئی۔کمال یہ ہے کہ ہم قلیل مدت میں بھی مسئلہ کوانتہائی سطحی طرزپرحل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہرشخص جانتاہے کہ کراچی کوپچیس سے تیس برس پہلے لسانی بنیادوں پرتقسیم کرنے کی پُرزورحکومتی کوشش کی گئی۔مختلف آدمیوں کوباقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت حکومتی چھتری کا تحفظ فراہم کیاگیا۔ان سے ہرسیاسی اورغیرسیاسی کام لیا گیا۔ انھیں مسلسل استعمال کیاگیا۔جب بھی ضرورت پڑی،انھیں اس وقت کی حکومتی منشاء کے تحت مختلف کام سونپے گئے۔نتائج دینے کے لیے دباؤمیں رکھاگیا۔اب تمام نظام جولسانیت کی بنیاد پرترویج پا رہا تھا،انتہائی پختہ بنیادوں پرمضبوط ہوچکاہے۔

اس پرکئی سوال اٹھتے ہیں اوران کا قومی سطح پرجواب ہونا چاہیے۔ مگر کوئی آدمی یا ادارہ اصل مسائل پربات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کوئی اپنی بھیانک غلطی ماننے کے لیے بھی تیارنہیں۔ہرمقتدرشخص دوسرے کی طرف انگلی اٹھا رہا ہے۔اصل میں سب جانتے ہیں کہ معاملہ کیاہے اوراسے کیسے حل ہوناچاہیے مگربغدادکی طرزپر ہرجانب مناظروں اورمذاکروں کا زورہے!میری رائے میں اب اس لسانی گروہ کو ایک نئی طرز پر استوارکیاجائیگا۔اب اس سے مختلف کام لیاجائیگا!نتائج بالکل واضح ہیں۔کراچی بدستور مشکلات میں رہیگا۔

بات کوآگے بڑھاتے ہوئے عرض کرونگاکہ تقریباًایک ہفتہ آزادکشمیرگزارکرآج ہی واپس آیا ہوں۔سب سے پہلے تو اپنی یہ غلطی تسلیم کرتاہوں کہ وہاں پہلے کیوں نہیں گیا؟دنیاکے کئی ممالک میں وقت گزارنے کے باوجوداپنے خطہ کے اس خوبصورت ترین حصہ کوکیسے بھول گیا۔صاحبان!ایک افسوس ساذہن پرچھایاہواہے کہ اتنے خوبصورت علاقے کونظرانداز کیسے کرگیا۔لیکن اب میں وہاں مسلسل جاتارہونگا۔جیسے ہی آپ مری کی ایکسپریس ہائی وے سے اترتے ہیں توایک جہان حیرت آپکے سامنے آجاتاہے۔کوہالہ جاتے ہوئے ہم سڑک کوایکسپریس وے کی طرزپرکیوں نہیں بناپائے۔حقیقت میں کوئی بہانہ موجودنہیں ہے۔

اگرمظفرآبادتک ایک محفوظ اور دورویہ سڑک تعمیرکردی جائے تویقین فرمائیے کہ ایک سیاحتی انقلاب ممکن ہوسکتاہے۔یہ شاہراہ مسلسل نظراندازہورہی ہے۔جیسے ہی آپ کوہالہ کے پُل سے گزرتے ہیں،پورا منظر بدلتاہوانظرآتاہے۔ایسے ایسے خوبصورت درخت،کہ کئی جگہ رک کرانکے رنگ شناخت کرتارہا۔سبزہریالی میں سفید،گلابی اورسرخ رنگ کے متضاد پیڑ،اس شان سے ایستادہ نظرآتے ہیں کہ انسان حیرت زدہ رہ جاتاہے۔مختلف رنگ کے درختوں کانام میں نے نہیں پوچھا۔

اس لیے کہ قدرت کی جانب سے خوبصورتی کوکوئی نام نہیں دیاجاسکتا۔میری نظرمیں ان درختوں کاصرف ایک نام ہوسکتا ہے اوروہ ہے’’خوبصورت درخت‘‘ یا شائدکچھ بھی نہیں!دوسری بات مجھے زیادہ مناسب نظرآتی ہے۔ مری سے مظفرآباد تک سڑک پرفاصلے کے نشانات بہت کم ہیں۔اس لیے پتہ نہیں چلتاکہ سفرکتناہوچکاہے اورکتناباقی رہ گیا ہے۔جب بھی آپ کار روک کرکسی شخص سے فاصلہ پوچھتے ہیں تووہ اپنے حساب سے جواب دیتاہے۔ ایک راہ گیرکہنے لگاکہ مظفرآباد صرف چالیس منٹ دورہے۔چالیس منٹ گزرنے کے بعدایک اور راہ گیرنے انکشاف کیاکہ ابھی ڈیڑھ گھنٹے کی اورمسافت باقی ہے۔

مظفرآبادپہنچ کربھی ایک شخص بڑی سنجیدگی سے کہنے لگاکہ شہر ابھی تیس منٹ دور ہے۔ فاصلہ بتانے والے نشانات کے موجود نہ ہونے سے اکثر ناواقف لوگوں کومشکلات کاسامناکرناپڑتاہے۔کوہالہ سے آگے دوجگہ پرلینڈسلائڈز(Land Slides)کی وجہ سے ٹریفک کومتبادل راستہ سے گزارنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ متبادل راستہ انتہائی غیرمحفوظ اورمشکل تھا۔یہاں ٹریفک کے حادثات بالکل عام ہیں۔اگرآپ معمولی سی غلطی کرلیں تو گاڑی کا سیکڑوں فٹ کھائی میں گرجانا یقینی ہے۔

حادثات کی ایک بہت بڑی وجہ شاہراہ کے کناروں پرپختہ بیرئرز (Barriers)کاموجود نہ ہونا ہے۔ مجھے آئی جی آزادکشمیربتا رہے تھے کہ پوری ریاست میں سب سے زیادہ جانی نقصان ٹریفک کے حوادث کی بدولت ہوتاہ ے۔معمولی حکومتی توجہ سے ان تمام راستوں پرانسانی جان کے زیاں کوکم کیاجاسکتاہے۔مظفرآباد ایک زندہ شہرہے۔اس نے ایک دہائی قبل زلزلہ کی قیامت دیکھی ہے۔تقریباًپوراشہر زمین بوس ہوگیا تھا۔مگرجس عزم سے اس کی تعمیرنوکی گئی ہے،وہ جذبہ بہت قابل قدرہے۔

میں یہ نہیں کہہ سکتاکہ تمام شہردوبارہ تعمیر ہوچکاہے مگراس خوبصورت آبادی کابیشترحصہ دوبارہ بنادیا گیا ہے۔شہرمیں معیاری ہوٹل بہت کم ہیں۔لے دے کرایک پی سی ہوٹل ہے جودریائے جہلم کے کافی نزدیک ہے۔یہاں کئی جدیدطرزکے نئے ہوٹل بنانے کی گنجائش موجودہے۔کئی مقامات تواتنے موزوںہیں کہ وہاں ایک خوبصورت ہوٹل بنانے کے متعلق سوچنے کی زحمت بھی نہیں کرنی پڑے گی۔ پورے آزادکشمیرمیں جرائم کی شرح بہت کم ہے۔

خدا کا شکرہے کہ انھوں نے پاکستان کے منفی رجحان کونہیں اپنایا۔یہ پورا علاقہ انتہائی محفوظ ہے۔بنیادی وجہ یہ ہے کہ مقامی آبادی کے تمام لوگ ایک دوسرے کوبخوبی جانتے ہیں بلکہ پہچانتے ہیں۔لہذا باہرسے کوئی شخص جرم کی غرض سے وہاں آنے کاحوصلہ نہیں رکھتا۔چالیس لاکھ کی آبادی ہرطرف بے ترتیبی سے موجودہے۔آپ اگرکسی پہاڑی چوٹی پر نظر دوڑاتے ہیں، توآپکوانتہائی بلندی اورمشکل جگہ پربہت سے گھر نظر آئینگے۔ سمجھ نہیں آتا،اتنی اونچائی پریہ گھرکیسے تعمیرکیے گئے۔دریائے جہلم کے دونوں طرف آ بادیاں ہیں۔میں نے یہاں عجیب طرزکے پُل دیکھے ہیں۔

دریاکے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک لکڑی،رسیوں اورتاروں پرمشتمل یہ پُل اکثرجگہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔دیکھنے میں بھی انتہائی خوبصورت اورلوگوں کے لیے بے پناہ سہولت کاباعث ہیں۔ دورسے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ دریا کے اوپرکسی بچے نے رنگ دار ربن باندھ دیاہو۔ اس کے علاوہ دریا عبور کرنے کاایک اورمنفرد طریقہ بھی دیکھنے میں آیا۔یہ خاصہ خطرناک معلوم ہوتاتھا۔دریاپرایک مضبوط آہنی رسی باندھ دیجاتی ہے۔وہ ایک پُلی کے ساتھ ایک ’’ڈولی‘‘ کے ساتھ منسلک ہے۔اس ڈولی یاچیئرلفٹ طرز کی چیزکودوسرے کنارے سے کھینچا جاتا ہے۔اس طرح پانچ چھ انسان دریا کو فضائی طریقہ سے عبورکرلیتے ہیں۔کشمیرمیں خصوصاً میرپور کے علاقے سے بارہ سے پندرہ لاکھ کے قریب لوگ برطانیہ منتقل ہوچکے ہیں۔

یہ تمام اب برطانوی شہری ہیں۔یہ تارکین وطن کی تیسری نسل ہے۔ پہلی نسل تک تواپنے علاقے سے انسیت موجود تھی۔ مگر دوسری یاتیسری نسل تک یہ جذبہ کافی حدتک معدوم معلوم ہوتا ہے۔ عجیب اَمریہ بھی ہے کہ یہ لوگ اپنے مقامی علاقوں میں بہت کم سرمایہ کاری کرتے ہیں۔اس کی اصل وجہ معلوم نہیں۔ ہوسکتاہے کہ کافی عرصے سے حکومت کشمیرمیں ایسا مناسب ماحول پیدا نہیں کرسکی جس میں یہ لوگ اپنے سرمایہ کومحفوظ سمجھتے ہوں۔ لہذاکاروباربہت کم نظرآتاہے۔یہ برطانوی شہری صرف ایک کام ضرورکرتے ہیں۔اپنے قصبوں میں بڑے بڑے گھر ضرور بناتے ہیں۔ان میں سے اکثرگھربالکل خالی پڑے رہتے ہیں۔سالہاسال ان میں کسی مکین کاگزرنہیں ہوتا۔اس سرمایہ کاری سے ریاست کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔

مظفرآبادسے تیس منٹ کی مسافت پرنیلم جہلم پاور پروجیکٹ کی تعمیرزورشورسے جاری ہے۔اس منصوبہ سے واپڈا کو ایک ہزارمیگاواٹ بجلی دستیاب ہوگی۔یہ تمام منصوبہ زیر زمین ہے۔زمین کے نیچے مہیب سرنگوں کا ایک جال بچھایا جا رہاہے جس میں کئی گاڑیاں ساتھ ساتھ چل سکتی ہیں۔یہ منصوبہ1980کی دہائی میں کاغذپرمکمل ہوگیاتھا۔مگربعض نامعلوم وجوہات کی بناپر سردخانہ میں پڑا رہا۔جب ہندوستان نے کشن گنگاڈیم بنانا شروع کیا توہمیں ایک دم خیال آیاکہ ہمیں بھی یہاں بجلی بنانے کے ایک منصوبہ کی ضرورت ہے۔ 1986میں اس پروجیکٹ کی قیمت دس یابیس ارب تھی۔اب بڑھ کریہ200سے 250ارب تک جاچکی ہے۔ہم میں سے ہرشخص اپنے ماہانہ بجلی کے بل میں اس منصوبہ کے لیے ایک خاص رقم واپڈاکواداکرتاہے۔

ہمارے تمام ترقیاتی منصوبوں کی مانند یہ بھی اپنے مقررکردہ وقت کے ہدف سے بہت آگے نکل چکا ہے۔تساہل،بروقت فیصلوں کافقدان اورمختلف وزارتوں کے باہمی کمزوررابطہ کی بدولت یہ منصوبہ سالہاسال کی تاخیرمیں مبتلا ہے۔خیراب کام جاری ہے۔یہاں کاتمام کام چینی افرادکے ہاتھ میں ہے۔چکوٹھی وہ مقام ہے جہاں سے آزادکشمیرکی جغرافیائی حدودختم ہوجاتی ہے۔وہاں آپکوبالکل سامنے ہندوستان کے فوجی چلتے پھرتے نظرآتے ہیں۔ہماری آخری چیک پوسٹ دراصل بہت گہری کھائی کے کنارے پر ہے۔ اس کے چاروں طرف شیشہ لگاہواہے۔آپ وہاں بیٹھ کر دور دور تک لوگوں کی نقل وحمل پرنظررکھ سکتے ہیں۔

جب آپ اس جگہ پہنچتے ہیں توانتہائی تیزہواآپکااستقبال کرتی ہے۔ٹھنڈی برفیلی ہوایہاں کاخاصہ ہے۔کشمیرکے دونوں حصوں کے مابین تجارت کی سہولت گزشتہ چندبرسوں سے موجودہے۔یہ تجارتی رابطہ صرف مقامی لوگوں کے لیے ہے۔اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام کاروبار کرنسی کے بغیرہے۔یہ قدیم زمانے کےBarterنظام پرمبنی ہے۔ہمارے ٹرک اپناسامان ہندوستان لے جاتے ہیںاوراسی مالیت کاسامان انڈیاسے ہمارے مقامی تاجروصول کرلیتے ہیں۔کرنسی کے لین دین کے بغیریہ تجارت کافی حدتک محدودنوعیت کی ہے۔مقامی لوگوں کے لیے پاسپورٹ اورویزہ کی قیدختم کردی گئی ہے۔

مقامی ڈپٹی کمشنراب لوگوں کوایک سرکاری پرمٹ دیتے ہیں جسکی بنیادپریہ لوگ کشمیرکے ایک حصے سے دوسرے حصے میں سہولت کے ساتھ سفرکرسکتے ہیں۔ان لوگوں کواب واہگہ آنے کی ضرورت نہیں ہے۔میں چکوٹھی سے واپسی پر سوچ رہاتھاکہ ہمسایہ ممالک کس طرح ایک دوسرے کے شہریوں کی مشکلات کوکم کرسکتے ہیںیاانھیں بڑھاسکتے ہیں۔

ہم اس بے نظیرخطہ کوپوری دنیاکے سیاحوں کے لیے ایک جنت بناسکتے ہیں۔ہم یہاں معقول سہولیات مہیاکرکے اس علاقے کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ہم سیاحت سے بے پناہ مالی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔لگتاہے کسی کوبھی اس علاقے کی تقدیربدلنے کی لگن نہیں!یقین فرمائیے،تھوڑے سے وسائل سے یہ ایشیاء کاسوئٹزرلینڈبن سکتاہے!مگرکسی کوکیاپڑی کہ ایسی نامناسب بات سوچے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔