مسائلستان

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 21 مارچ 2015
barq@email.com

[email protected]

لیجیے اب تو نظریہ پاکستان کی سب سے بڑی مبلغ پارٹی کے سربراہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ حکمرانوں کی نااہلیوں کی وجہ سے پاکستان ایک ’’مسائلستان‘‘ بن چکا ہے، یہ بات اب تک ھما شما قسم کے لوگ تو اکثر کہتے رہتے تھے لیکن ’’خوار ملا‘‘ کی اذان پر کون کان دھرتا ہے۔ اپنی آواز کی گونج صرف اسی کے کانوں میں پڑتی ہے، اپنا ایک بہت ہی پرانا شعر یاد آیا۔

برقہ تہ چہ شاعری کڑے پہ دے بے شعورہ وخت کے
لکہ دشتہ کے سوک آوری خپل آواز پہ واپسئی کے

یعنی اے برقؔ یہ جوآپ انتہائی بے شعور وقت میں شاعری کر رہے ہو، ایسے لگتا ہے جیسے کوئی کسی دشت و بیان میں خود ہی اپنی آواز کی بازگشت سنے، چنانچہ عوامی سطح پر اور اس بے مثالی اور زبردست ’’جمہوری دور‘‘ میں پاکستان کے عوام اپنے ساتھ ہوتا سلوک دیکھ کر اکثر کہتے رہتے ہیں کہ پاکستان ایک مسائلستان بن چکا ہے اور آخر کیوں نہ بنے کہ اس کے لیڈر و حکمران باقاعدہ ایک پولٹری فارم سمجھ کر اس میں مسائل کے انڈے پیدا کرتے ہیں، پھر اپنی پارٹیوں کی مرغی تلے رکھ کر اسے سیتے ہیں اور ان انڈوں سے چوزے پھر چوزوں سے مرغیاں اور مرغیوں سے پھر انڈے چوزے پیدا کرتے رہتے ہیں اور اس کام میں اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ ہر لیڈر اور راہ نماء بجائے خود ایک مسئلہ بن چکا ہے یعنی

رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھا ہوئی

اگر آپ نے غور سے دیکھا ہو کہ تقریباً ہر پارٹی کا ہر لیڈر بالکل ایک اچھے خاصے ’’مسئلے‘‘ کی طرح لگتا ہے۔ظاہر ہے کہ جس ملک میں مسائل ہی مسائل پیدا ہوتے ہیں، پھر ان مسائل سے دوسرے مسائل کی کاشت اور آبیاری ہوتی ہو، اس کا نام مسائلستان کے سوا کیا ہو سکتا ہے، اب اگر ہندوستان کو ہندیوں کی رعایت ہے، چین کو چینیوں کی رعایت سے جاپان کو جاپانیوں کی رعایت سے اور ترکی کو ترکوں کی رعایت سے نام دیے جا سکتے ہیں تو مسائلستان کو مسائل کی رعایت سے مسائلستان کیوں نہیں کہا جا سکتا۔

کہتے ہیں جب اماں حوا نے کرگدان کا نام کرگدان رکھا تو کسی نے پوچھا کہ کرگدان نام ہی کیوں؟ تو اماں بولیں، اس کی شکل ہی کرگدان جیسی ہے تو کرگدان ہی اس کا نام ہو سکتا ہے، بھلا کرگدان کا نام قلم دان یا پاندان تو نہیں رکھا جا سکتا ہے اور پھول دان تو بالکل بھی اس پر نہیں جچے گا۔

حسب حال حسب طبع اور حسب صنعت اگرچہ پاکستان کے لیے مسائلستان کا نام موزوں ترین نام تھا لیکن چونکہ بزرگوں نے اس کا نام کچھ امیدوں، کچھ توقعات اور کچھ خوش فہمیوں کی بناء پر اس کا نام پاکستان رکھا ہوا ہے، اس بزرگوں کے پاس خاطر اور ادب کا تقاضا تھا کہ کچھ نہ کہو، کچھ بھی نہ کہو، کیونکہ بزرگوں نے کہا کہ ’’خطائے بزرگان گرفتن خطاست‘‘ لیکن اب جب مولانا سراج الحق نے بھی این او سی دے دیا ہے جو نظریہ پاکستان کے سب سے بڑے شیئر ہولڈرز یا مالکان میں سے ہیں تو کیوں نہ

تم کوئی اچھا سا رکھ دو اپنے کاشانے کا نام

ہمیں معلوم ہے یہ کوئی آسان کام نہیں کیونکہ اس میں بہت زیادہ آئینی قانونی اور نظریاتی مشکلات حاصل ہیں آئین و قانون میں تو پھر بھی ترمیم کی جا سکتی ہے لیکن ذہنوں کی ٹیڑھ کا علاج تو لقمان حکیم اور حکیم بقراط کے پاس بھی نہیں تھا اس لیے ہم نے اس کا ایک درمیانی راستہ سوچا ہے کہ سیخ بھی نہ جلے اور کباب بھی کوئلہ نہ ہو جائے یعنی ہمارے سیاسی کار زار کی طرح آدمی شہید بھی ہو جائے اور آرام سے غازی بن کر زندہ سلامت اپنے گھر لوٹ بھی آئے، نظریہ پاکستان بھی مجروح نہ ہو اور ملک کی اصل تصویر کے مطابق ’’نام کرن‘‘ بھی ہو جائے کیوں کہ؎

کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں
لیوے نہ کوئی نام ستمگر کہے بغیر

اپنی بات کو اچھی طرح واضح کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا واقعہ عرض کیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا، ایک دن ہم کچہری کسی کام سے گئے تو وہاں اپنے ہی گاؤں کے معزز آدمی نے کہا کہ میرے چند افغان مہاجر دوستوں نے آپس میں کچھ سر پٹھول کی ہے۔ چار آدمی گرفتار ہیں، ان کی ضمانت اور حوالات سے نکالنا مقصود ہے، یہاں وہاں سے کچھ گاؤں والے اور یار دوست اکٹھے کیے اور ان آٹھ حوالاتیوں کی دو نفری ضمانت کرائی۔

معمولی سی 107 کی ضمانت تھی، ضمانت دینے کے بعد پروانہ رہائی لے کر ہم حوالات پہنچے تو ان میں سے تین آدمی تو رہا کر دیے گئے لیکن چوتھے کے بارے میں حوالات والوں نے کہا کہ اس نام کا آدمی ہمارے پاس ہے ہی نہیں تو کہاں سے رہا کریں جب کہ تین ساتھیوں نے کہا کہ ہمارا چوتھا ساتھی اندر موجود ہے، دروازے کی سلاخوں میں سے انھوں نے وہ آدمی دکھا بھی دیا ‘حوالات والوں کو بتایا کہ وہ آدمی سامنے ہی تو کھڑا ہے، انھوں نے رجسٹرڈ دکھا کر کہا کہ دیکھو یہ جو سامنے کھڑا ہے۔

ہمارے پاس اقبال ولد کمال ہے اور تم ضمانت جس آدمی کی کرا لائے ہو یہ نسیم ولد سلیم کا ضمانت نامہ ہے، یہ نام ہم نے فرضی طور پر بتائے ورنہ اس شخص کا کوئی اور نام تھا، اب تم ہی بتاؤ کہ ہم نسیم ولد سلیم کے ضمانت نامے پر اقبال ولد کمال کو کیسے رہا کر سکتے ہیں ان کی بات معقول تھی بعد میں عقدہ یہ کھلا کہ جن لوگوں نے ان کے خلاف رپٹ لکھوائی تھی انھوں نے اقبال ولد کمال لکھوایا ہے جو ایک غلط فہمی تھی کیوں کہ ان کو اس کا اصل نام معلوم نہیں تھا جب کہ رشتہ داروں نے ضمانت دیتے ہوئے اس کا اصل نام درج کروایا تھا۔

ایک مرتبہ پھر کچہری کی طرف دوڑ لگائی لیکن وہاں جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا چکے تھے یعنی چھٹی ہو چکی تھی، خوش قسمتی سے ایک ریڈر ابھی نکل نہیں پایا تھا اس سے مدعا عرض کیا تو بولا کہ اب تو مجسٹریٹ صاحب جا چکے ہیں نئی ضمانت اب کل ہی ہو گی، ہم نے اصل صورت حال بتائی کہ آدمی یہی ہے صرف نام میں کنفیوژن ہے وہ بولا میں اس میں کچھ بھی نہیں کر سکتا اب جو بھی ہو گا کل ہی ہو گا، ہم سمجھ گئے کہ اب اس نیا کو پار کیسے لگانا ہے۔

جیب سے سو روپے کا ایک نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے بولے … کچھ کر تو بھائی کل کس نے دیکھا ہے اس نے مسکرا کر قلم اٹھایا اور پروانے پر اقبال کے آگے عرف نسیم لگایا اور سلیم کے آگے عرف کمال کر دیا اور بولا اب جاؤ ۔۔۔۔ یہ پرچہ حوالات میں دے جاؤ واقعی لفظ ’’عرف‘‘ نے سارے مسئلے کو سلجھا دیا، گویا ’’عرف‘‘ نہیں تھا جادو کا کوئی منتر تھا۔اگر ہم بھی صرف اسی ایک لفظ ’’عرف‘‘ کو استعمال میں لائیں تو سارا مسئلہ حل ہو سکتا ہے یعنی پاکستان عرف مسائلستان، نہ ہینگ لگی نہ پھٹکڑی صرف ایک سہ حرفی لفظ ’’عرف‘‘ نے رنگ چوکھا کر دیا۔

کیا خیال ہے اس سے پرنالہ بھی وہیں کا وہیں رہ جائے گا اور جھگڑا بھی تمام ہو جائے گا، پاکستان کا پاکستان اور مسائلستان کا مسائلستان، نظریہ پاکستان والے اپنی جگہ خوش اور مسائلستان والے اپنی جگہ رضامند ۔ کیونکہ دونوں نام از بس ضروری ہیں اس کا اپنا اصل اور جدی پشتی نام ’’پاکستان‘‘ بھی نہیں چھوڑ سکتے کیوں کہ جدی پشتی اور بزرگوں کا دیا ہوا نام کوئی چھوڑ نہیں سکتا ہاں ایک طریقہ ’’تبدیلی نام‘‘ کا ہے وہ بھی جب کسی کو اپنا نام پسند نہ ہو یا اس کے معنی کچھ ناپسندیدہ ہوں یا کاغذات میں کچھ گڑ بڑ ہو گئی ہو کہ پاکستان نام کے ساتھ ایسی بات نہیں ہے بہت اچھا نام ہے کانوں کو بھی میٹھا لگتا ہے معنی بھی کافی اچھے ہیں اس لیے یہ بہت ہی نامناسب بات ہو گی۔

اگر ہم اسے ترک کرتے ہوئے اخبارات میں اشتہار دیتے پھریں کہ آج سے میں نے اپنا نام … مطلب یہ کہ پاکستان کا نام تو ہمارے ملک کا ہے یا یوں کہیے کہ یہ نام بزرگوں نے کما کر ہمیں دیا ہے، لیکن ہمارا اپنا کمایا ہوا نام ’’مسائلستان‘‘ بھی کم اہمیت نہیں رکھتا یہ نام کمانے میں ہماری حکومتوں نے لیڈروں نے نمایندوں نے کافی ’’محنت‘‘ کی ہے اپنی زندگیاں صرف کی ہیں پسینے بہائے بلکہ اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے سے بھی دریغ نہیں کیا یہ الگ بات ہے کہ خون کا آخری قطرہ بہانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی صرف خلوص محنت اور جدوجہد ہی سے یہ رتبہ یعنی ’’مسائلستان‘‘ مل گیا ہے، گویا بزرگوں نے جدوجہد کی تو پاکستان بنا دیا اور ہم نے محنت کی تو مسائلستان بنا دیا اب کسی بھی نام کو چھوڑنا ممکن نہیں ہے تو کیوں نہ دونوں کو عرف کے ’’فیویکول‘‘ سے باہم چپکا دیں؟ آپ کا کیا خیال ہے ہماری اس مصالحانہ تجویز کے بارے میں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔