گندم کی فروخت۔۔۔کاشتکاروں کے مسائل

ایم آئی خلیل  ہفتہ 21 مارچ 2015

حکومت سندھ نے گندم کی خریداری کا عمل شروع کر دیا ہے۔ گندم کی خریداری کا ہدف 9 لاکھ ٹن مقرر کیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے کم حد مقرر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یوکرائن سے 7 لاکھ ٹن گندم درآمد کر لی گئی تھی۔

حکومت سندھ کے پاس گوداموں میں پہلے ہی 8 لاکھ ٹن گندم پڑی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مزید گودام تعمیر کیے جاتے اور ہنگامی بنیادوں پر گودام تعمیر کر کے ذخیرہ کاری کی تمام تر سہولیات حاصل کی جائیں۔ امسال سندھ میں خریداری کے 166 مراکز قائم کیے جا رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے کچھ عرصہ قبل 13 سو روپے فی من گندم کی سرکاری قیمت مقرر کی تھی اسی حساب سے گندم کی خریداری کی جائے گی۔

جب کسانوں سے کم گندم خرید کی جائے گی تو لامحالہ دیگر آڑھتی اور گندم کے بیوپاری گندم کم قیمت پر خریدیں گے۔ ہر سال پورے پاکستان میں اسی قسم کی صورتحال پیدا ہوتی ہے کہ گندم کے کاشتکار دیگر کئی مسائل کے باعث گندم مقامی تاجروں بیوپاریوں کو کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں ہر سال گندم کے پیداواری رقبے میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ مثلاً 2009-10ء میں گندم کا زیر کاشت رقبہ 91 لاکھ ہیکٹر تھا جو آیندہ سال کم ہوکر 89 لاکھ ہیکٹر رہ گیا۔

اس کے بعد کے سال اس میں مزید کمی واقع ہو کر ساڑھے 86 لاکھ ہیکٹر رہ گئی۔ پاکستان میں اس سال گندم کی بہتر فصل ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ عموماً ڈھائی کروڑ ٹن کے لگ بھگ گندم پیدا ہوتی ہے جب کہ امسال ڈھائی کروڑ ٹن سے بھی زائد گندم کی پیداوار ہو گی۔

گزشتہ کئی سالوں سے گندم کی فی ہیکٹر پیداوار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ چند سال قبل فی ہیکٹر پیداوار 25 سو کلوگرام سے زائد تھی جس میں اضافہ ہو کر 28 سو کلو گرام تک جا پہنچی ہے۔ اگرچہ فی ہیکٹر پیداوار کا حصول دیگر ممالک کی نسبت کم ہے۔ کہیں 4 ہزار کلوگرام سے بھی زائد کی پیداوار حاصل ہوتی ہے۔

ملک کا زرعی شعبہ کئی سالوں سے زبوں حالی کا شکار ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے اس شعبے کی شرح ترقی بھی 3 فیصد تک ہی رہی ہے۔ جس میں بھی کبھی اضافہ اور کبھی کمی واقع ہوتی رہتی ہے۔

جس کے باعث ملک کا کاشتکار طبقہ مفلوک الحالی کاشتکار رہتا ہے۔ دنیا بھر کے وہ ممالک جو کہ زرعی ممالک کہلاتے ہیں یا ان کی آبادی کا بیشتر حصہ زراعت سے منسلک ہے وہاں اس قسم کی پالیسی ترتیب دی جاتی ہے تا کہ شعبہ زراعت میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کو ممکن بنایا جا سکے۔ کیونکہ اگر کسی بھی شعبے کی ترقی مقصود ہو تو ضروری ہے کہ اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جائے۔

ملک میں کئی اقسام کی پیداوار ایسی ہیں جو کہ زرعی شعبے سے ہی حاصل ہوتی ہیں۔ مثلاً دودھ کی پیداوار، گوشت کی پیداوار، مچھلی کی پیداوار کا خاصہ حصہ فش فارمنگ کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔ اسی طرح جنگلات سے جلانے کی لکڑی، فرنیچر بنانے کی لکڑی وغیرہ حاصل کی جاتی ہے۔ ملک بھر میں اگرچہ شعبہ زراعت کی ترقی کے لیے زرعی قرضوں کا اجرا بھی کیا جاتا ہے لیکن ان قرضوں کا بیشتر حصہ بڑے بڑے زمیندار حاصل کر لیتے ہیں۔ جب کہ غریب کاشتکاروں کے مسائل عرصہ دراز سے جوں کے توں ہیں بلکہ روز بروز ان مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

کاشتکار محنت کرنے کے بعد جب گندم کی فصل اٹھاتا ہے تو اسے امید ہوتی ہے کہ سرکار نے جو نرخ مقرر کیے ہیں اسی کے مطابق باآسانی اس کی گندم فروخت ہو جانی چاہیے لیکن پاکستان میں کاشتکاروں کے لیے مسائل پیدا کرنے کی خاطر بہت سے گروپ فعال ہو جاتے ہیں۔

جن میں غلہ منڈی کے آڑھتی، تاجر، مڈل مین اس طرح کے مختلف کارندوں کا روپ دھار کر کسانوں سے کم سے کم قیمت پر ان کی پیداوار حاصل کر لیتے ہیں اور چونکہ گندم زندگی کی غذائی ضروریات کے لیے لازم و ملزوم ہے لہٰذا گندم کی تجارت کرتے وقت اصل نقصان گندم کے پیداکاروں کو ہو جاتا ہے۔ بعض کاشتکار اس بات کے شاکی رہتے ہیں کہ ٹرانسپورٹ کے ذرایع نہ ہونے کے سبب وہ اپنا مال اونے پونے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔

ہر سال گندم کی خریداری کے آغاز کے ساتھ ہی کاشتکاروں کے لیے مسائل کا پنڈورا باکس کھل جاتا ہے۔ لہٰذا اب جب کہ سندھ کے بہت سے علاقوں میں خریداری کا آغاز ہو چکا ہے۔

یکم اپریل سے اپر سندھ میں خریداری کا آغاز ہو گا اس کے بعد پنجاب میں خریداری کا آغاز ہو گا لہٰذا گزشتہ برسوں کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اس طرح کے انتظامات کیے جائیں تا کہ گندم کے کاشتکاروں کو پہلے کی طرح مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کیونکہ اسی طرح کاشتکاروں کو پہنچنے والے مالی نقصانات سے چھوٹے کاشتکار شدید مالی مسائل کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں اور نتیجتاً گندم کے زیر کاشت رقبے میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔