’’انارکزم‘‘ کا طلسم (آخری حصہ)

تشنہ بریلوی  ہفتہ 21 مارچ 2015
tishna.brelvi@yahoo.com

[email protected]

روسو نے انسان کو فطرت کے قریب ہونے کا مشورہ دیا اور ’’تعلیمی انقلاب‘‘ برپا کیا، جس کی بنیاد پر رابندر ناتھ ٹیگور نے شانتی نکتیں گاؤں میں اپنی وشو بھارتی یونیورسٹی قائم کی، جہاں کمرے نہیں بلکہ درختوں کے نیچے کلاسیں لگتی تھیں اور رقص سیکھنا ہر ایک کے لیے لازمی تھا۔

شروع میں انارکز م اور سوشلزم دراصل ایک ہی تحریک کا نام تھا۔ آغاز 1789ء میں انقلاب فرانس سے ہوا جب ’’فرانسو ابابف ‘‘ نامی انقلابی نے مزدور وںکی DICTATORSHIP کا تصور پیش کیا۔

1830ء کے جولائی انقلاب نے بھی آزادی کی امنگ پیدا کی۔ لیکن1848ء میں دو اہم واقعات رونما ہوئے ۔ کارل مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو شایع کیا اور یورپ کے بیشتر ممالک میں انقلابات پھوٹ پڑے۔

اس شورش کا مرکز حسب دستور فرانس تھا یہاں جمہوری انقلاب کی قیادت نپولین بونا پارٹ کے بھتیجے لوئی بونا پارٹ نے کی مگر وہ سوشلسٹوں کو کچل کر چار سال بعد بادشاہ بن بیٹھا۔ گزشتہ ایک دھائی کے دوران سارے یورپ میں ریلوں کا جال بچھ گیا اور بڑی مشینوں کا دور آ گیا ۔ چھوٹے ہنر مندوں یعنی SELF EMPLOYED MEN کا زمانہ لد گیا۔

مزدور مشینوں کے غلام بن گئے۔ کچھ مزدوروں نے جو LUDDITES کہلائے مشینوں کو توڑنا بھی شروع کر دیا مگر بے فائدہ۔ ادھر مل مالکان حد سے زیادہ لالچی اور ظالم ثابت ہوئے۔ علم اقتصادیات کے باوا آدم کہلوانے والے ایڈم اسمتھ نے LAISSEZ FAIRE کا فلسفہ پیش کیا جس نے صنعت کاروں اور تاجروں کو من مانی کرنے اور مزدوروں کا استحصال کرنے کا پورا موقع دیا۔ یہاں لفظ ’’استحصال‘‘ بہت اہم ہے اس لیے کہ سوشلزم، کمیونزم اور انارکزم بنیادی طور پر استحصال EXPLOITATION نیز استحقاق PRIVILEGE ہی کے خلاف نبرد آزما تھے۔ صرف طریقۂ کار میں فرق تھا۔

استحصال ہوتا ہے مزدوروں کا کسانوں کا عورتوں کا، PROLETARIATE (محنت کش ) کا اور LUMPEN PROLETARIATE کا یعنی وہ بیروزگار اور بھوکے جو جرائم کی طرف جا نکلتے ہیں جب کہ استحقاق حاصل ہوتا ہے سرمایہ داروں کو جاگیر داروں کو LATIFUNDIA کے مالکوں کو، مذہب کے ٹھیکے داروں کو MACROECONOMICS کے ارب پتیوں کو حتی کہ بلیک میلروں اور غاصبوں کو بھی۔

اب یہاں کارل مارکس اور فریڈریخ انگلز کا ذکر ضروری ہے۔ یہ دونوں جرمن انقلابی کئی ملکوں سے نکالے جانے کے بعد انگلینڈ میں پناہ گزین ہوئے۔ انگریز یورپ کے تمام سیاسی بھگوڑوں کو اپنے ملک میں پناہ دیتے تھے لیکن شہریت نہیں دیتے تھے۔ مارکس تقریباً 35 سال لندن میں رہا لیکن شہریت سے محروم۔ اسے 1883ء میں ایک بے وطن شخص یعنی STATELESS PERSON کے طور پر دفن کیا گیا ۔ مارکس کی روح ضرور یہ کہہ رہی ہو گی (اور بالکل صحیح):۔

کسی بھی ملک کا شہری نہیں ہوں
کہ میرا دیس تو سارا جہاں ہے
(تشنہ)

اینگلز بھی لندن میں رہا اور مارکس کا بہت وفادار دوست ثابت ہوا:
وفا کے جام سے سر شار ہے یہ بزم حیات
وفا کے نام سے یہ کائنات باقی ہے
(تشنہ)

دو اور اہم شخصیتیں سامنے آئیں۔ فرانس کا پیٹر ژوزف پغودوں (PROUDHON) اور روسی میخائل باکونن BAKUNIN انارکزم سے ان دونوں کا ایسا ہی رشتہ ہے جیسا کہ کمیونزم سے مارکس اور اینگلز کا۔ پغودوں نے امداد باہمی (MUTUALISM) کا تصور پیش کیا یعنی مزدور ایک دوسرے کی مدد کریں‘ پارلیمانی سیاست سے دور رہیں کہ یہ امیروں کا مشغلہ ہے اور اپنے حقوق کے لیے کارخانوں اور سڑکوں پرDIRECT ACTION کے ذریعے طاقت کا مظاہرہ کریں یہی انارکزم کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔

ہندوستان میں بنگال میں انارکسٹ بہت سرگرم رہے ہیں اور 1942ء میں QUIT INDIA کی تحریک پر ریل کی پٹریاں اکھاڑنا عمارتوں کو جلانا اور انگریز حکام پر حملے بھی DIRECT ACTION کا نمونہ تھے حتیٰ کہ جب 1946ء میں کانگریس کے صدر جواہر لال نہرو کے ایک سخت بیان کے جواب میں قائد اعظم نے DIRECT ACTION کا حکم دیا تو اس کی بھی بنیاد انارکزم نے ہی فراہم کی تھی۔

پغودوں کا ایک اور مشہور قول ہے ’’جائیداد اور ملکیت تو لوٹا ہوا مال ہے۔‘‘ وہ انقلاب یا بغاوت کے خلاف تھا اور کہتا تھا کہ عقل و شعور کے ذریعہ مثالی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے جو جبر سے آزاد ہو گا۔

اس کا ساتھی باکونن اپنے روسی تجربے کی وجہ سے انقلاب کو بہت اہمیت دیتا تھا ۔ مارکس کا یقین تھا کہ انقلاب انگلینڈ یا جرمنی کے صنعتی مزدوروں کے ذریعے آئے گا جو اس کام کے لیے خود کو منظم کریں گے۔ مزدوروں کی پہلی تنظیم فرسٹ انٹر نیشنل کے موقعے پر دونوں میں اختلاف ہوا جس کے نتیجے میں یہ تحریک جو محنت کشوں کی پہلی بین الاقوامی تنظیم تھی، ہوا میں تحلیل ہو گئی ۔

اب دو اہم واقعات پیش آئے۔ پہلاPARIS COMMUNE کہلاتا ہے ۔

1870ء میں فرانکو پرشیئن جنگ میں‘ فرانس کی شرمناک شکست کے نتیجے میں بادشاہت ختم ہو گئی اور تیسری ری پبلک قائم ہو گئی۔ اگلے سال چند ماہ کے لیے پیرس شہر میں انارکسٹوں نے انقلابی میونسپل نظام ( کمیون) متعارف کرایا لیکن اس کو سختی کے ساتھ کچل دیا گیا۔ باکونن نے اپنی شکست تسلیم کر لی اور وہ جلد ہی دنیا سے رخصت ہو گیا۔

دوسرا اہم واقعہ امریکا کے صنعتی شہر شکاگو میں پیش آیا۔ مئی 1886ء میں مزور آٹھ گھنٹہ کام کے لیے مظاہرہ کر رہے تھے کہ مسلح پولیس نے ان پر دھاوا بول دیا۔ کسی شخص نے (جو گمنام رہا) پولیس پارٹی پر بم پھینک دیا۔

سات پولیس والے ہلاک ہو گئے۔ زبردست پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں۔18 انارکسٹوں کو موت کی سزا دی گئی اور اُن میں سے چار11 نومبر1887ء کو پھانسی پر لٹا دیے گئے۔ یہ واقعہ سب سے بڑا سنگ میل ثابت ہوا اور مزدوروں کی یاد میں یکم مئی کو مزدوروں کا دن قرار دے دیا گیا جو اس سے پہلے ’’پھولوں کی دیوی کا دن‘‘ تھا۔

بہر حال انارکسٹوں نے محسوس کر لیا تھا کہ انفرادی ’’ کارکردگی‘‘ کے بجائے اجتماعی عمل کے ذریعہ کامیابی ممکن ہے۔ لہذا 1895ء میں فرانس میں CGT یعنی مزدوروں کی بڑی تنظیم ’’کوفید یغاں سیاں ٖنیغال‘‘ بنی اور اس طرح ٹریڈ یونین تحریک کا وہ دور شروع ہوا جس نے ’’ڈائریکٹ ایکشن‘‘ یعنی طاقت اور اتحاد کے مظاہرے کے ذریعے سرمایہ داروں اور حکومتوں کے دماغ درست کر دیے۔ یہ تھا “SYNDICALISM” چونکہ فرنچ لفظ SYNDICAT (سندی کا) ٹریڈ یونین کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ انارکسزم کا یہ طلسم اب بھی جاری ہے اور اس سے سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں نے بھی خوب فائدے اٹھایا ہے۔

انارکزم کے اسپیکٹرم کے ایک سرے پر تو آپ کو ولیم گاڈون، ساں سیماں، رابرٹ اوون، پرنس کرو پاٹکن وغیرہ جیسے امن پسند اور عدم تشدد کے پرستار نظر آئیں گے اور دوسرے سرے پر باکونن، مالاتستا، راداشول، اولیا نوف جیسے شدت پسند انقلابی ملیں گے۔ اول الذکر سے ٹالسٹائی، برنرڈ شا، آسکر وائلڈ اور گاندھی جیسی ہستیاں متاثر ہوئیں اور انسان دوستی کا کارواں آگے بڑھا۔ دوسری قسم کے جاں فروشوں نے یورپ، امریکا، جنوبی امریکا وغیرہ میں محنت کشوں کے حقوق کے لیے راہ ہموار کی۔ ’’چی گویرا‘‘ جیسے انقلابی سوشلسٹ بھی اسی تحریک سے وابستہ رہے۔

عورتوں کی آزادی بھی انارکزم کا مطالبہ رہی ہے۔ لندن میں 1884ء میں FABIAN SOCIETY قائم ہوئی جس نے لیبر پارٹی کے لیے راہ ہموار کی۔ انارکزم ہی کی جدوجہد سے دنیا بھر میں محنت کشوں کے حالاتِ زندگی بہتر ہوئے‘ سوشل سیکیورٹی، بیروزگاری الاؤنس وغیرہ ممکن ہوئے۔ انارکسٹ کہہ سکتے ہیں:

کبھی زنداں میں ہم مہماں کبھی مقتل میں ہم قرباں
ہمارے خون سے رنگیں وفا کا ہر فسانہ ہے
(تشنہ )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔