پاکستان کی عالمی کپ مہم کا منطقی انجام

فہد کیہر  ہفتہ 21 مارچ 2015

پاکستان کی عالمی کپ مہم اپنے منطقی انجام کو پہنچی، کوارٹر فائنل میں گیند بازوں نے اپنا آخری دم تک لگا لیا لیکن بلے بازوں کی ’’ایک اور‘‘ ناکامی اور فیلڈرز کی نااہلی کی بدولت معجزہ پیدا نہ کر سکے اور یوں گرین شرٹس سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو گئے۔

یعنی ایک ایسے مقابلے سے، جس تک پہنچنے کی کسی کو ان سے توقع بھی نہیں تھی۔ ویسے پہلے دو مقابلوں کے بعد تو کوارٹر فائنل میں پہنچنے کا بھی کوئی امکان نہیں دکھائی دیتا تھا، لیکن یہ پاکستان کی ’’تیسرے درجے‘‘ کی باؤلنگ کا کمال تھا کہ جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور ایڈیلیڈ تک پہنچایا۔ جہاں پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف کوارٹر فائنل میں ہر وہ غلطی کی جس سے بچنے اور نہ دہرانے کی ضرورت تھی۔

ٹاس بھی جیتا، اپنی دیرینہ خواہش یعنی پہلے بلے بازی کو بھی پورا کیا، گیند بازی بھی ایسی کہ آسٹریلیا کی باؤلنگ جس کا عشر عشیر بھی نہیں تھی لیکن دیوار کے دونوں کمزور حصوں کو مضبوط نہیں کیا۔ آسٹریلیا نے وہیں حملے کیے اور 16 اوورز پہلے ہی میدان مار لیا۔

پاکستان کی شکست کی بنیاد رکھی بلے بازوں نے کہ جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے وکٹیں گنوائیں۔ سوائے مچل اسٹارک کے آسٹریلیا کے کسی گیند باز کی باؤلنگ میں دم خم نہیں دکھائی دے رہا تھا لیکن پاکستان کے بلے بازوں نے ان کے لیے کام آسان کر دیا۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ تمام کے تمام 10 کھلاڑی کیچ دے کر آؤٹ ہوئے۔ یہاں تک کہ مصباح الحق جیسا ٹھنڈے مزاج کا بلے باز بھی باؤنڈری لائن پر ایک آسان کیچ دے کر چلتا بنا، شاہد آفریدی کے تو پھر کیا ہی کہنے، 15 گیندوں پر 23 رنز کی روایتی اننگز، ایک انتہائی نازک موقع پر بے جا بلے گھمانے کی کوشش اور بالآخر اختتام۔

پھر صرف 214 رنز کے ہدف کے دفاع کے لیے پاکستان کے باؤلرز، خاص طور پر وہاب ریاض نے جو باؤلنگ کی، وہ میچ دیکھنے والے ہر شخص کو کافی عرصے تک یاد رہے گی۔ اگر راحت علی ان کی گیند پر شین واٹسن کا اور سہیل خان گلین میکس ویل کا کیچ نہ چھوڑتے تو میچ کی کہانی ہی مختلف ہوتی۔ پاکستان کی فیلڈنگ اور بیٹنگ بہت ہی مایوس کن تھی، اتنی کہ اچھی فائٹ کے باوجود ٹیم سر اٹھانے کے قابل نہیں۔

بہرحال، عالمی کپ سے اخراج کے باوجود پاکستان کی مہم کو مکمل طور پر ناکام نہیں کہا جا سکتا۔ خاص طور پر عالمی کپ سے قبل پاکستان کی ون ڈے کارکردگی اور پھر آغاز میں بھارت اور ویسٹ انڈیز کے خلاف شکستوں کو دیکھیں تو کسی کو امید نہیں تھی کہ پاکستان یہاں تک پہنچے گا۔ جو ٹیم ورلڈ کپ سے پہلے اپنے 13 میں سے صرف 2 مقابلے جیتی ہو، وہ عالمی کپ میں کیا کر سکتی تھی؟ لیکن ناقابل یقین ہونا ہی پاکستان کرکٹ کی صفت ہے اور اس نے عالمی کپ دنیا پھر ایک مرتبہ پھر ظاہر کیا۔

اگر ویسٹ انڈیز کے خلاف مایوس کن شکست کو نکال دیا جائے تو پاکستان کی کارکردگی کو بہتر کہا جا سکتا ہے۔ ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں 150 رنز کی شکست دراصل دودھ میں پڑی وہ مینگنی ہے، جس نے سارا دودھ خراب کر دیا ہے۔

ورلڈ کپ کے دوران کھمبیوں کی طرح اگنے والے کرکٹ فینز، اور ان کے ’’نازک‘‘ جذبات کو شہہ دینے والے ٹیلی وڑن چینلوں، نے پاکستان کی عالمی کپ مہم کا وہیں پر خاتمہ کر دیا تھا لیکن پاکستان خاک تلے سے ابھرا۔ نہ صرف زمبابوے اور متحدہ عرب امارات کو شکست دی بلکہ جنوبی افریقہ کے خلاف ایک یادگار کامیابی بھی حاصل کی جس نے حوصلوں کو بہت بلند کیا اور پھر آئرلینڈ سے تمام پرانے بدلے چکانے کے بعد کوارٹر فائنل میں پہنچ گیا۔

کس نے تصور کیا تھا کہ اپنے تمام سرفہرست باؤلرز سعید اجمل، محمد حفیظ اور جنید خان کے بغیر بھی پاکستان یہاں تک پہنچے گا، وہ بھی اپنی باؤلنگ کے بل بوتے پر؟ اس کے علاوہ جتنی دلچسپ کرکٹ پاکستان نے کھیلی، شاید ہی کسی اور ٹیم نے عالمی کپ میں پیش کی ہو۔ پاک-زمبابوے مقابلہ ہو، یا جنوبی افریقہ کے خلاف معرکہ یا پھر آسٹریلیا کے خلاف کوارٹر فائنل ہی، ہمیں ایک زبردست کشاکش نظر آئی۔ دو میں تو پاکستان نے فتوحات حاصل کیں لیکن حتمی معرکے میں ایسا نہ کر سکا۔

اب وقت ہے مستقبل کے لیے کچھ سخت فیصلے کرنے کا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ اچھی رائے کو وقت سے پہلے کوئی اہمیت نہیں دیتا، بلکہ حادثے کا انتظار کیا جاتا ہے، اور اس کے بعد اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ عالمی کپ سے بہت پہلے ٹیم کی تیاری کے لیے بہت عمدہ صلاح و مشورے دیے گئے تھے لیکن کسی کی بات پر کان نہیں دھرا گیا اور انھی غلطیوں کی وجہ سے پاکستان کو بالآخر شکست ہوئی۔

تکنیکی خامیاں، جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونا اور متعدد ایسے کھلاڑیوں پر بھروسہ کرنا جن کی کرکٹ یا تو ختم ہو چکی ہے، یا پھر ابھی انھیں خود کو قومی سطح پر ثابت کرنے کے لیے کافی محنت کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کی کرکٹ جس مقام پر پہنچ چکی ہے، پاکستان اس سے کئی نوری سال پیچھے ہے یہاں تک کہ آئرلینڈ کی فیلڈنگ بھی پاکستان سے کئی گنا بہتر ہے اور یہی کمزوری پاکستان کے اخراج کا سب سے بڑا سبب بنی۔

بہرحال، اب عادت کے مطابق حادثے کے بعد ’’تحقیقات‘‘ ہوں گی، نئے اقدامات اٹھائے جائیں گے اور ’’تھوکا ہوا بھی چاٹ لیا جائے گا‘‘، دیکھتے ہیں اس عالمی کپ کی ناکام مہم سے پاکستان کرکٹ کے لیے خیر کا کون سا پہلو نکلتا ہے؟

www.cricnama.com

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔