سیاہ دھبے

فرح ناز  ہفتہ 21 مارچ 2015
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

آپ آئینے کے سامنے کھڑے ہو جائیں غور سے اپنی صورت اور اپنے آپ کا جائزہ لیجیے سر پر ہاتھ پھیر کر دیکھیے کہ کہیں سینگ تو نہیں نکل آئے، منہ کھولیے دانتوں کو چیک کیجیے کوئی لمبے لمبے دانت تو نہیں؟ اپنے احساسات کو بھی چیک کریں کوئی کچا گوشت کھانے کو دل چاہ رہا ہو یا پھر لال شربت کی جگہ سرخ خون پینے کا من تو نہیں؟

اگر ایسا کچھ نہیں ہے اور سب کچھ آپ کو ٹھیک ٹھیک لگ رہا ہے تو سمجھیے کہ آپ ابھی تک انسانوں میں شامل ہیں، مگر آپ کا شمار انسانوں کی کس قسم سے ہے یہ بھی آپ کو ہی فیصلہ کرنا ہو گا، ویسے تو اللہ نے انسانوں کو اشرف المخلوقات بنایا ہے مگر ہم اب اللہ کی دی ہوئی فضیلت کو خاطر میں نہیں لاتے بس اللہ کے قہر کا ہی انتظار ہے کہ تب ہی شاید اپنی اوقات کا علم ہو گا۔

جہاں تک انسانوں کی اقسام کی بات ہے تو جناب آپ کا شمار انسانوں کی کس قسم سے ہے، کیونکہ اب تو انسانوں میں انسانی شکل کے وحشی درندے شامل ہو گئے ہیں جو عام انسانوں کی طرح ہی نظر آتے ہیں کبھی تو بہت معصوم اور مسکین بھی لگتے ہیں لیکن ظالم اتنے کہ زندہ، ہنستے بستے انسانوں کو لمحوں میں ہڑپ کر جائیں۔ سخت دلی کی مثال دیکھیے کہ دو انسانوں کو زندہ جلا دیا جائے۔

مجمعے میں اور ان جلتے ہوئے انسانوں کی Selfies تصاویر بھی بنتی جائیں یعنی آگ لگا کر زندہ جسموں کو ان کو لمحہ بہ لمحہ جلتے ہوئے بھی دیکھا جائے اللہ کی پناہ! یہ اتنے ظالم اور سخت دل کون لوگ ہیں، مذہب اور تعلیم تو بعد کی کہانی ہے کہ سب سے پہلے تو انسانیت ہے، ہر طرف بدحواسی ہر طرف بدامنی ہر طرف خوف و ہراس، کس طرح یہ معاشرہ اور لوگ تازہ سانس لے سکیں گے، جانوروں سے بھی بدتر رویے ہمیں پوری دنیا میں تنہا کر رہے ہیں، ہم تو اس رسول پاکؐ کے ماننے والے ہیں جو اپنے اوپر کچرا پھینکنے والی خاتون کی خیریت دریافت کرنے خود جاتے ہیں۔

چلیے نہ بنیے اسلامی مگر خدا کے واسطے انسان تو بنیے لوگوں کو ان کے جینے کے حق سے محروم تو نہ کیجیے، وہ کوئی بھی ہو کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ آپ کے لیے اور معاشرے کے لیے کوئی مسئلہ نہ پیدا کرے تو آپ کا بھی حق ہے کہ اس کو عزت کے ساتھ جینے دیجیے۔

قانون موجود ہے تو پھر خود آپ جج بن کر فیصلے نہ کیجیے۔ کوئی بھی کسی کو حق نہیں دیتا کہ آپ دوسروں کے لیے قصائی بن جائیں اور اس کی تکہ بوٹی بنائیں۔ ماڈرن اتنے ہو گئے ہیں لوگ کہ اب گھروں کے ڈیزائن میں شراب کے بار کے لیے جگہ بنتی ہے، حالانکہ حرام ہے قانونی پابندی بھی ہے۔

والدین کو بچوں کا اور بچوں کو والدین کا لحاظ اتنا ہے کہ سب دوست بن گئے ہیں، باپ اپنے بیٹے کے ساتھ بیٹھ کر سگریٹ کے کش لگاتا ہے اور اماں بڑے فخر سے اپنے دوست و احباب کو بتاتی ہے کہ ان کی بیٹی بہت سیانی ہو گئی ہے۔ ایک بات بھی میری نہیں مانتی کہ میں پرانے زمانے کی جو ہوں، اپنے Boss کو انگلیوں پر نچاتی ہے۔ اور یہ کہتے ہوئے اماں کے چہرے پر چمک بھی آ جاتی ہے کہ جیسے شاباشی مانگ رہی ہو کہ دیکھا کتنی اعلیٰ تربیت کی ہے میں نے!

یہ نشے کی چیز باآسانی دستیاب ہے۔ لوگ اپنے آپ کو Slim رکھنے کے لیے چرس پینے کے مختلف طریقے بتاتے ہیں، کچھ کا خیال ہے کہ اسٹریس اور کام کی زیادتی سے بچنے کے لیے چرس کا استعمال بہت عمدہ ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ خواتین ہمیشہ کی طرح قدم بہ قدم ساتھ ساتھ کہ بھئی عورت کے بھی اتنے ہی Rights ہیں جتنے مرد کے جب وہ کام کر سکتی ہے، کما سکتی ہے تو پھر!

کراچی جیسے بڑے شہر میں جو پاکستان کا تجارتی ہب بھی ہے اور جہاں پورے پاکستان سے اور دنیا کے مختلف شہروں سے لوگ آتے ہیں اور بس جاتے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد کے خاتمے کے لیے بڑے بڑے آپریشن کا سلسلہ جاری ہے، اسٹریٹ کرائم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لوگوں کے جان و مال کی حفاظت ہو سکے ان کی تدبیریں کی جا رہی ہیں۔

پورے ملک میں تقریباً ہائی الرٹ کی سچویشن ہے لیکن اس کے باوجود اقلیتوں پر کبھی شیعہ پر کبھی کسی اور کا بہانہ بنا کر فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 16 دسمبر کے اسکول واقعے میں کئی سو معصوم طالب علموں کی زندگی چھین لی گئی، ہنگامی اقدامات کیے جا رہے ہیں مجرموں کو پھانسی دی جا رہی ہے مگر اس کے باوجود درندے صفت انسانوں کی شکلوں میں ہر مجمعے میں موجود نظر آتے ہیں۔ خواتین کو ہراساں کیا جا رہا ہے، بچوں کے دلوں میں دہشت پھیلائی جا رہی ہے۔

قانون کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، عجیب عالم ہے زندگی کا جو اب دیکھنے کو مل رہا ہے، حکومتی حلقے کے لوگ چین کی بانسری بجا رہے ہیں، کروڑوں روپے باہر بھیجے جا رہے ہیں، ملک کی بنیادیں کھوکھلی کی جا رہی ہیں، چھاپے پڑتے ہیں، خوبصورت مشہور لڑکیوں کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔

دولت کی چمک دکھا کر لوگوں سے مختلف جرائم کرائے جا رہے ہیں اور کوئی باہر سے نہیں کر رہا ہے یہ لوگ حکومت میں موجود ہیں، ثبوت کے ساتھ پکڑے جا رہے ہیں لیکن نہ جانے کون سی قوت ان کو ان کے انجام کو پہنچنے نہیں دیتی۔ ایک گناہ ہزاروں گناہوں کو پیدا کرتا ہے، مگر یہ شیطانی قوتیں اللہ، رسول کا نام لے کر ایسے ایسے کھیل کھیلتی ہوئی نظر آ رہی ہیں کہ نہ جانے یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا۔

سلام ہے ہماری آرمی پر! کہ جس طرح بردباری کے ساتھ جنرل راحیل شریف لے کر چل رہے ہیں ملک اور بیرون ملک تمام معاملات میں پیش پیش نظر آ رہے ہیں۔ تیزی سے پھیلتے ہوئے کرپشن کو اب روکنا ہو گا ان میں موجود لوگوں کو عام آدمی کے لیے عبرت بنایا جائے، اگر ہم اسلامی ملک میں رہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے قانون کو مانتے ہیں تو پھر اسی قانون کی بتائی گئی سزاؤں کو بھی نافذ کیا جائے، دلدل بنتے ہوئے کرپشن اور کرائم کو مناسب طریقوں سے روکا جائے اور باقاعدہ ایسا نظام بنایا جائے کہ عام آدمی کو انصاف مل سکے چاہے وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو عدل و انصاف ہی ایک بہتر معاشرہ وجود میں لا سکتا ہے۔

خود غرضی اور لالچ سے بھرے ہوئے ذہنوں کو ایک دفعہ تو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ عام لوگوں کی طرح سکون و امن کا معاشرہ بنانے میں اپنی حرص اور غلیظ سوچوں کو صرف اپنے تک محدود رکھیں۔

کراچی جیسے بڑے شہر میں آج کل بے تحاشا ہلچل پائی جاتی ہے ویسے تو پورے ملک میں ہی افراتفری کا عالم ہے۔ کبھی ہزارہ کے لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں چرچ پر بھی دہشت گردی کی جا رہی ہے، بڑے بڑے حادثات ہوتے ہیں اور ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں ظالم ظلم کے بعد بھی آزاد اور مظلوم مرنے کے بعد بھی دربدر، مرنے والے مر رہے ہیں مگر جن کو پیٹ بھرنے ہیں وہ زبردست طریقے سے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔

ان لوگوں کو کیوں نہیں قانون کے دائرے میں لایا جاتا، کچھ قانون میں بھی ردوبدل ہو رہا ہے کہ اب ہمارے اداروں کو ہی حکم مل رہا ہے، خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کو کہ وہ اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ بڑے بڑے سانحے ماضی کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں بے نظیر کی موت ہو یا لاہور ماڈل ٹاؤن کا واقعہ کتنے لوگ ہزاروں آنکھوں کے سامنے قتل کر دیے جاتے ہیں اور ثبوت اور مجرم دونوں ہی غائب، مگر جناب ظلم پھر ظلم ہے ایک حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ دنیا کچھ بھی کر لے بڑے سے بڑے شیطان آ جائیں مگر اللہ کا قانون ٹس سے مس نہیں ہو سکتا۔ موت اور عذاب سے کوئی نہیں بچ سکا یہی سچائی ہے۔

حد تو یہ بھی ہے کہ یوحنا آباد سانحے کے بعد ایک خاتون ڈرائیور کو ہراساں کیا گیا سنا یہی جا رہا ہے کہ بدحواسی میں خاتون نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے گاڑی دوڑا دی جس سے مزید 2 افراد گاڑی سے کچلے گئے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کسی خاتون پر دست درازی کی جائے گی تو کیا ردعمل ہو گا؟

ذہن اور سوچ اب تھکنے لگے ہیں قتل و غارت سے کسی نے کچھ حاصل نہ کیا، اختلافات ہمیشہ ہی ہوتے ہیں اور رہیں گے مگر اختلافات کا مطلب کبھی بھی قتل و غارت نہیں، خدا کے واسطے دلوں میں نرمی رکھیے اللہ کا خوف رکھیے۔

کہیں معصوم بچے غائب ہو جاتے ہیں ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کر کے مار دیا جاتا ہے اور حد تو یہ بھی کہ ان کی لاش مسجد جیسی پاک جگہ میں لٹکائی جاتی ہے۔ رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، ان سخت ظالموں کو عبرت کا نشان بنایا جائے تا کہ دوسرے لوگ ان سے عبرت حاصل کریں اور جرم کرنے سے پہلے اپنے انجام کا بھی سوچیں، تمام سول سوسائٹی آزاد ذہن کے ساتھ اپنی اپنی زندگیوں کو بنا اور سنوار سکے ہم اچھا جئیں گے تو آگے نسلوں کو کچھ اچھا گا۔

1947ء کے بعد ایک آزاد پاکستان وجود میں آیا صرف اس لیے کہ عام شہری سکون اور عزت سے زندگی گزارے۔ مگر 2015ء تک جو صورتحال رہی ہے وہ بالکل بھی تسلی بخش نہیں ہے۔

لوگ اپنی خوشی کے بغیر دوسرے ممالک میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور بڑے دکھی بڑھاپے ان کا مقدر بن رہے ہیں، بچے اتنے اس ماحول کے عادی ہو جاتے ہیں کہ والدین ان پر بوجھ بن جاتے ہیں اور جو اپنی ساری زندگی جدوجہد میں گزارتے ہیں اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے رات دن ایک کر دیتے ہیں وہ سب کچھ ایک طمانچے کی طرح ان کے چہروں پر پڑتا ہے۔ اللہ عالی شان کا حکم ہے کہ سب کا مقدر میں ہی لکھتا ہوں اپنے جان و مال سے اپنی اولاد سے اتنی محبت نہ کرو کہ میرے احکامات نہ پورے کر سکو۔

بہت ہی سادہ اور آسان زندگی کو انسان نے جنگلی جانور کی طرح بنا ڈالا، اپنے آپ کو بہت بڑا پلانر سمجھنے لگا اور کشتی ڈوبی وہاں جہاں کنارا تھا! جن لوگوں کے ہم نے عروج دیکھے ان کے زوال بھی ہمارے سامنے آ رہے ہیں، تاریخ بن رہی ہے اور اگلے سالوں میں ہم ’’تاریک کراچی‘‘ کے عنوان سے ضرور کچھ نہ کچھ پڑھ رہے ہوں گے اور ضرور سوچیں گے کہ یہ ان دیکھی قوتیں کس قدر ظلم و بربریت کا سامان پیدا کر دیتی ہیں۔ علم کی غیر موجودگی، جہالت کی تاریکی کس قدر بھیانک انجام دے دوچار کرتی ہے۔ اللہ کرے علم و شعور کے دروازے ہم سب پر کھل جائیں اور ہم انسانیت پر کالا دھبہ نہ بنیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔