شب گزیدہ جمہوریت

جاوید قاضی  ہفتہ 21 مارچ 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

سرخ انقلاب کی سلاخوں سے پار ہو کر، جمہوریت کی نوید سے ہم آشنا ہوئے تھے۔ وہ انقلاب جس سے بدن کی آگ تو بجھ جائے مگر من کی بات رہ جائے سے بہتر لگی وہ بات جو بیلٹ باکس سے بنتی ہے، اظہار کی آزادی دیتی ہے۔ دونوں طرف آنکھیں پھاڑ کر جو دیکھا تو اندھیروں کی فصلیں اگی ہوئی تھیں۔ بیلٹ باکس میں سوراخ الگ تو اظہار پر اجارہ داری تھی۔

روٹی کپڑا اور مکان کی باتیں تھیں اور بھوک کے گھر گھر پر ڈیرے تھے۔ نہ ہم سوشلسٹ ملک بن سکے نہ جمہوریت یہاں پھل پھول سکی۔ تین کروڑ کی آبادی والا 1947ء کو یہ جنم لیتا ہوا ملک آج بیس کروڑ لوگوں کو اسی زمین کے ٹکڑے پر وجود دیتا ہے۔ داغ داغ اجالا شب گزیدہ سحر اس صبح آزادی کو فیضؔ کہہ تو گئے مگر لہو ہے کہ تھمتا نہیں ہے اور نہ جانے کتنا لہو ابھی بہنے کو باقی ہے اور دور تک کوئی روشنی کا سراغ نہیں۔

نواز شریف اور آصف علی زرداری والی جمہوریت ایک طرف تو دوسری طرف ارباب رحیم، چوہدری شجاعت کے سائے میں پنپتی آمریت، کوئی مجھ کو بتلائے یہ سب شب گزیدہ جمہوریت و آمریت کے فرق کو مدھم نہیں کر دیتا، کوئی دھند ہے یا شاید اب دھند بھی نہیں ہے۔ بس یہ ہے کہ یہ جمہوریت نہیں ہے باقی جو ہے سو ہے۔ یہ زر ہے اور باقی داریاں ہے۔ دو گز کے مکیں کو دو لاکھ ایکڑ بھی زمین کم لگتی ہے۔ اتنی جائیداد تو جنرل مشرف، جنرل ضیا، جنرل ایوب یا جنرل یحییٰ کے خاندانوں نے آمریتوں سے بھی نہیں بنائیں جتنی انھوں نے جمہوریت سے بنائی ہے۔

عجیب ہیں یہ سندھی کیسے چھوڑتے بھٹوؤں کو یہ سندھی مزاروں پر جن کا بسیرا ہے۔ دلی کا دارہ شکوہ ہو یا پنڈی میں مارا گیا ابا ہو یا اس کی بیٹی بے نظیر ہو، اس کا مرتضیٰ ہو یا شاہنواز ہو۔ کیسے چھوڑتے سندھی ان مقتل سے لوٹی ہوئی لاشوں کی پاداش کو۔ اور اس کے بدلے جو خزاں اس بار آئی ہے سندھ کی تاریخ میں نیا باب رقم کرتی ہے۔ بھٹو تاریخ ہوگئے۔ بلاول سیاست کے لیے سنجیدہ نہیں۔ وہ تو محفل میں بیٹھا شہزادہ ہے اور یہاں دیر ہو چکی ہے۔ اور اس کی ماں اس طرح نہ تھی۔

رات کے سیاہ سائے میں باپ کو پھانسی پر دو میل دور چڑھتے اپنے وجود پر محسوس کیا، ماں کو سہارا دیا۔ بھائی جلاوطن و جذباتی تھے کم ذہن تھے ابا کے بدلے کے انتقام میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ جیلوں کی مسافتوں والی بے نظیر، آخر تک لوگوں کے لیے جاں اپنی ہتھیلی پر رکھ کر آنے والی بے نظیر اب تاریخ ہوئی۔ سندھیوں سے بھٹوؤں کی محبت نہیں لی جا سکتی ہاں مگر قائم علی شاہ کی یہ حکومت اس کا تسلسل تھی۔

جمہوریت یہ نہیں باقی جو ہو سو ہو، پھر بھی آمریت سے بہتر ہے۔ اب کے سندھی کوئی مزارعے یا کسی کے غلام نہیں جو جاگیرداروں کو مضبوط کر کے ان کا مستقل غلام بنا کے جو سندھ کی حکومت نے طے کیا ہوا ہے یہ سندھی وہ شکنجے توڑنے کے لیے بالکل پک کے تناور ہو چکے ہیں۔ اب ان کو کالی پراڈو کے مبہوت سایوں سے ڈرا کے سہما کے غلام نہیں رکھا جا سکتا۔ ان کو… کر کے اپنے پاؤں تلے نہیں بٹھایا جا سکتا۔

لوگوں کے اسکولوں کو تباہ و زبوں کرنا اور ان کو اس نہج تک پہنچا دینا کہ کوئی بھی غریب کا بچہ پڑھ کے ’’اے کے بروہی‘‘ جیسا قانون دان نہ بن سکے۔ ایچ ایم خواجہ کے اسکول میں تو حاکم علی زرداری تو کوئی بے یار و مددگار دہقاں کا بیٹا بھی بینچوں پر ایک ساتھ بیٹھتے تھے۔ اب کی بار ان اسکولوں میں کوئی نہیں جاتا، مائیں اپنے بچوں کو مدرسے بھیجتی ہیں کہ وہاں ان کو روٹی کپڑا اور رہنے کے لیے ایک چھت بھی مل جاتی ہے۔

کتنے سارے میرے کالم میرے سامنے پڑے ہیں، تھر میں قحط آیا، ہم سمجھے اس میں منتخب حکومت کا کیا قصور مگر قائم علی شاہ کے مفلوج بیان آتے رہے، اسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی نیلامیاں ہوتی رہیں، ہم نے کہا یہ کوئی نئی بات نہیں ٹھیک ہے جمہوری دور میں نیلامیوں کے ریٹ بڑھ گئے ہیں اور تالی کبھی بھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اس میں راشی افسر بھی شامل ہیں اور کیوں دیں دوش پٹواری کی کرپشن کا اس جمہوری دور کو بلدیہ کے پیسے وڈیروں میں بانٹے گئے ہم نے کہا کوئی بات نہیں زرداری صاحب ان وڈیروں کو خوش رکھنا چاہتے ہیں۔

مگر جب شکارپور میں امام بارگاہ پر جب اندوہناک سانحہ ہوا اور یہ حکومت بھی تھی تو پارٹی بھی تھی، ان سے بڑا طاقت ور کون ہو گا سندھ میں۔ یہ پارٹی بھٹوؤں کی پارٹی تھی، جب سیلاب 1974ء میں آیا تھا تو بھٹو نے دریاؤں کے کنارے خود پہنچ کر مزدوروں کے ساتھ کام کیا تھا، خود پہنچ جاتی تھی بے نظیر اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر۔ مگر انھوں نے ایک… شکار پور میں… کر دی پر سندھ کی 9/11 پر نہیں جلایا۔ یہ ہیں یاریاں زرداریوں کی عام لوگوں کے ساتھ۔ کہ جیسے یہ سندھی نہ ہوئے زرداری صاحب کے مزارعے ہو گئے۔ ایسا رویہ تو پیرپگارا نے کبھی اپنے حروں کے ساتھ بھی روا نہیں رکھا۔

ہاں مگر یہ پارٹی پراپرٹی کے کاروبار میں سب سے آگے رہی۔ لاکھوں ایکڑ زمین کی لین دین سندھ کی تاریخ میں اس مرتبہ ہوئی اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ وہاں پارٹی اور اس پارٹی کی قیادت بہت چست رہی اور لوگوں کے لیے تھا ایک سست و دھیرج کا احساس دلانے والا کہ جس کے نام سے لوگ جمائیاں لینا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ ہیں قائم علی شاہ صاحب۔ ادھر گرجا گھروں پر حملے ہو رہے ہیں، مگر ابھی تک پنجاب حکومت نے دہشت گردی کے خلاف کوئی واضح موقف نہیں لیا۔

بہت بڑا دل پر پتھر رکھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ اگر کسی نے موقف رکھا تو وہ جنرل راحیل تھے۔ ان نالائقیوں کے لیے کافی تھا عزیز ہم وطنوں کا ترانہ اس سے بھی کترا کے گزر گئے۔ اور پھر بھی سچائی سے کہتا ہوں اس فوجی جنتا سے یہ نالائق سول جنتا بہتر ہے۔ ہاں لیکن یہ جنرل وہ جنرل بھی نہیں جو ایوب، یحییٰ، ضیا و مشرف تھے انھوں نے شب خون نہیں مارا۔

شمالی سندھ میں زرداری صاحب کے مولانا فضل الرحمن اتحادی ہیں۔ جس پر پوری سندھ میں دو رائے نہیں کہ وہاں مذہبی انتہا پرستی میں مولانا صاحب کی پارٹی کا ہاتھ ہے۔ شکارپور کوئی میوزک شو نہیں کر سکتا کہ مولانا کے مدرسے والے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ جنوبی سندھ میں زرداری صاحب کے بڑے اتحادی ہیں۔ متحدہ والوں کی یاریاں اتنی گہری ان کے ساتھ بے نظیر کے دور میں کبھی نہیں تھیں۔ پنجاب میں زرداری صاحب کے اتحادی یہی چوہدری برادران کے جن کے نام خود بے نظیر مرنے سے پہلے میڈیا میں دے گئی تھیں۔

ہاں جو سچ ہے وہ سچ ہے زرداری صاحب نے اس ملک کو اٹھارویں ترمیم دی۔ لیکن وہ یہ ترمیم دینے میں اکیلے تو نہ تھے سب آن بورڈ تھے۔ اور جب پریشر آیا تو 21 ویں ترمیم بھی دے گئے۔

اور اب جب یہ کہا جائے گا بدعنوانیاں بھی دہشت گردی جتنا بڑا جرم ہے۔ جس طرح وزیراعظم ہاؤس پر بیٹھا وزیر اعظم طیارہ اغوا کر سکتا ہے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ تو بات یہ ہے کہ میں اپنے لہو کی FIR کس کے خلاف داخل کروں؟ وہ جو شب خون مارتے ہیں یا وہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کی طرح یہ شب خون ہونے کا سبب بنتے ہیں۔

ہمارے خان صاحب پر کرپشن کے الزامات نہیں لگائے جا سکتے وہ جنون بھی رکھتے ہیں مگر طالبان والے چیپٹر پر ان کا ماضی بھی کوئی شاندار نہیں۔

اتنے سارے کارناموں کے بعد بھی میں آج بھی جمہوریت کا شیدائی ہوں، ہاں یہ لیکن جمہوریت نہیں۔

ابھی شب میں گرانی نہیں، چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی کی طرح ہمیں اس شب گزیدہ جمہوریت کو جواز بنا کے شب خون مارنے والوں کو بے نقاب کرنا پڑے گا۔ ہمیں بہت رنگوں والا پاکستان چاہیے۔ ہر ایک کا پاکستان۔ اسکولوں والا پاکستان، اسپتالوں والا پاکستان۔

ٹھیک ہے بری حکمرانی کوئی دہشت گردی نہیں لیکن بری حکمرانی بھی بہت بڑا سبب ہے جب لوگ ہتھیار اٹھا لیتے ہیں۔ اس لیے قائم علی شاہ کے دور کی بری حکمرانی بھتہ خوروں کے لیے آماجگاہ بن گئی اور اگر اسی طرح سندھ مزید پانچ سال پورے کرے گا تو بھی ایک اور بھیانک تصویر مجھے نظر آ رہی ہے۔

بلکہ یوں کہیے کہ سندھ میں وزارت اعلیٰ کی آسامی خالی پڑی ہے۔ اب خدارا کوئی اس آسامی کو پر کرے بہت دیر ہو چکی ہے۔ پورے سندھ کی نیلامی ہو رہی ہے، باقی سب آہستہ آہستہ تھر کی طرح قحط زدہ بنتا جا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔