- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
جانور اپنا علاج کیسے کرتے ہیں؟
وہ ایک چڑیا تھی جو کانٹے دار تاروں کے جنگلے میں پھنس گئی تھی۔ اس نے آزاد ہونے کے لیے پَر پھڑپھڑائے۔
اس کوشش میں اس کی ایک طرف کی پسلی زخمی ہوگئی اور وہ جنگلے میں جھولنے لگی۔ ایک رحم دل لڑکے نے اسے مصیبت میں دیکھا تو نہایت احتیاط سے جنگلے سے باہر نکال کر گھر لے آیا اور اس کی مرہم پٹی کرکے چھوڑ دیا۔ چڑیا نچلی پرواز کرتی ہوئی ایک درخت پر جا بیٹھی۔ سب سے پہلے اس نے چونچ کی مدد سے پٹی کھولی اور پھر زخم کے اردگرد کے بال نوچ ڈالے۔ تین دن بعد چڑیا کا زخم بالکل ٹھیک ہوگیا۔ اس نے اپنا علاج سورج کی کرنوں سے کیا تھا۔ایک چڑیا ہی کیا ہر پرندہ اور چوپایہ زخمی یا بیمار ہونے کی صورت میں اپنا علاج خود کرتا ہے۔ وہ انسانوں کی طرح ڈاکٹروں اور طبیبوں کے پاس نہیں جاتا۔
آئیے دیکھتے ہیں حیوانی دنیا کے باسی اپنا علاج خود کس طرح کرتے ہیں؟
پہاڑی چوہے زخمی ہوجائیں تو اپنے زخموں کو جراثیم اور دھول سے بچانے کے لیے ان پر درخت کا گوندھ لگا لیتے ہیں۔ اسی طرح ریچھ بھی اپنے زخموں کو صاف کرنے کے بعد انہیں گوند یا صاف مٹی سے چھپالیتا ہے اور پانی سے بھی بچائے رکھتا ہے۔ماہرین کے مشاہدے کے مطابق ہُدہُد اپنی ٹوٹی ہوئی ہڈی پر گیلی مٹی یا درختوں کی باریک جڑوں کا پلستر سا باندھ لیتا ہے اور چند دن بعد بالکل ٹھیک ہوجاتا ہے۔
جب کوئی جنگلی جانور زخمی ہوجاتا ہے تو وہ وہ اپنا ٹھکانہ تبدیل کرکے کسی پرسکون جگہ پر چلا جاتا ہے اور دوا کے طور پر مختلف اقسام کی جڑی بوٹیاں کھاتا ہے۔ شیر اور بھیڑیئے جیسے گوشت خور جانور بیمار ہونے کی صورت میں گوشت کھانا چھوڑ دیتے ہیں اور سبزیوں پر گزارہ کرتے ہیں، ریچھ کی پرہیزی غذا ان دنوں میں بیر اور جڑیں ہوتی ہے اور ہرن درختوں کی چھال کھاتا ہے۔حیوانوں کی ان حفاظتی تدابیر کا مشاہدہ کرتے ہوئے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ ان پودوں اور جڑی بوٹیوں کا علم رکھتے ہیں جو مختلف بیماریوں میں فائدہ دیتی ہیں۔
یہ نکتہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پرانے زمانے میں انسان نے علم طب کی ابتدائی باتیں جانوروں ہی سے سیکھی تھیں۔ مثلاً نیولا سانپ کومارنے کے بعدایک خاص پودے کی پتیاں کھالیتا ہے جو سانپ کے زہر کو زائل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مرغی برسات کے دنوں میں اپنے بچوں کو (اس موسم کی بیماریوں سے بچانے کی خاطر) نرم نرم گھاس تلاش کرکے کھلاتی ہے۔ بندر کو ’’جلدی‘‘ بیماریوں میں نیم کی کونپلیں توڑ توڑ کر کھاتے دیکھا گیا ہے۔
جب جنگلی جانور بخار میں مبتلا ہوتے ہیں تو ایسی جگہ ڈیرہ ڈالتے ہیں جو نہ صرف سایہ دار ہوتی ہے بلکہ وہاں کی ہوا صاف اور پانی بھی قریب ہوتا ہے۔ بخار کی شدت کم ہونے یا بخار ٹوٹنے تک وہ صرف پانی پیتے ہیں اورکچھ کھاتے نہیں۔ اسی طرح جس جانور کو جوڑوں یا عضلات کی تکلیف ہوتی ہے وہ ایسی جگہ رہائش اختیار کرتے ہیں جہاں سورج کی روشنی براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔
آخری عمر میں یعنی بڑھاپے میں ریچھ اور دوسرے کئی جانور گرم چشمے تلاش کرتے ہیں اور روز باقاعدگی سے وہاں جاکر غسل کرتے ہیں۔ جن جانوروں کو جوئیں یا پسو پڑجاتے ہیں وہ مٹی میں لوٹنیاں لگاتے دیکھے گئے ہیں۔ آپ اس عمل کو ’’غسل خاکی‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ماہرین کے مشاہدے کے مطابق جانور موسمی تبدیلیوں کے ساتھ اپنی غذائیں بھی تبدیل کرتے ہیں۔ انڈے دینے والی چڑیاں کیلشیم کی کمی پوری کرنے کی غرض سے ساحل سمندر پر جاکر گھونگھے چن چن کر کھاتی ہیں اور ہرنیاں میلوں دور تک ایسے پانی کی تلاش میں جاتی ہیں جس میں کیلشیم کی مقدار زیادہ ہو۔
جب کسی زخمی عضو کے ٹھیک ہونے کا امکان صفر ہوجائے تو ڈاکٹر مجبوراً اسے کاٹ دیتے ہیں تاکہ دوسرے جسمانی حصے خطرے سے محفوظ رہیں۔ آپ کو یہ جان کر یقیناً حیرت ہوگی کہ جانور بھی اس آخری طریقہ علاج کی شُدبُد رکھتے ہیں۔ جب وہ ایسی صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں تو اپنے ناقابل علاج عضو کو مختلف طریقوں سے جسم سے علیحدہ کردیتے ہیں۔ جب کسی جانور یا پرندے کا کوئی عضو جال میں پھنس جاتا ہے تو وہ اسے دانتوں یا چونچ کی مدد سے کاٹ کر آزاد ہوجاتا ہے کیونکہ یہ بے زبان بھی جانتے ہیں کہ زندگی ایک عضو سے زیادہ قیمتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔