گورنر پنجاب، سردار عبدالرب نشتر کی نصیحت ’’نوجوان! تم انسائیکلوپیڈیا لکھو، لغت مرتب کرو‘‘

غلام فاروق  اتوار 22 مارچ 2015
وطن عزیز میں علم وادب کی شمع فروزاں کرنے والے ممتاز محقق کی داستان ِجدوجہد۔ فوٹو: فائل

وطن عزیز میں علم وادب کی شمع فروزاں کرنے والے ممتاز محقق کی داستان ِجدوجہد۔ فوٹو: فائل

’’جہالت خدا کی لعنت ہے اور علم وہ پِر جس کے سہارے ہم اڑتے ہوئے جنت پہنچتے ہیں۔‘‘(ولیم شیکسپئر)

یہ 1949ء کی بات ہے، پنجاب حکومت نے ’’مجلس زبان دفتری‘‘ کے نام سے ایک نیا سرکاری ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے ذمے یہ کام لگا کہ سرکاری محکموں میں مروج انگریزی اصطلاحوں کو اردو میں ترجمہ کیا جائے۔ یہ قومی اہمیت کا کام تھا۔ لہٰذا اسے انجام دینے کے لیے بذریعہ امتحان مترجم چننے کا فیصلہ ہوا۔ یہ امتحان صرف ایم اے پاس امیدوار دے سکتے تھے۔

اس زمانے میں ایک میٹرک پاس بیس سالہ مہاجر لڑکا، سید قاسم علی پنجاب یونیورسٹی میں بہ حیثیت کلرک ملازم تھا۔ یہ لڑکا اردو سے ازحد محبت کرتا تھا۔ اس نے قومی زبان کی ترقی و ترویج کے لیے ایک تنظیم ’’اردو لیگ‘‘ بھی بنا رکھی تھی۔ مزید برآں وہ ذاتی شوق و جذبے سے ہزارہا انگریزی اصطلاحوں کے ترجمے بھی کرچکا تھا۔

مجلس زبان دفتری کے سیکرٹری مشہور ڈرامہ نگار و ادیب، حکیم احمد شجاع تھے۔ قاسم علی کو جب اس ادارے کا پتا چلا، تو اس نے ترجمہ کردہ اصطلاحوں کا ’’تھدا‘‘ حکیم صاحب کو بھجوا دیا۔ انہیں یہ کام اتنا پسند آیا کہ انہوں نے بھی امتحانِ ملازمت کا فارم پرجوش مہاجر نوجوان کو بھیج ڈالا۔ خدا کی قدرت کہ اس امتحان میں قاسم علی اول آیا۔ چونکہ عہدے پر صرف ایم اے پاس امیدوار تعینات ہوسکتے تھے لہٰذا یہ معاملہ ’’سپیشل کیس‘‘ کی حیثیت سے گورنر پنجاب، سردار عبدالرب نشتر کو بھجوا یا گیا۔ انہوں نے اگست 1951ء کی ایک شام قاسم علی کو طلب کرلیا۔

قاسم علی نے بعدازاں بتایا ’’میں گورنر پنجاب کی خدمت میں پہنچا، تو دیکھا یہ لمبی لمبی مونچھیں ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ پتا نہیں کیوں، انہیں دیکھ کر مجھ پر ہنسی کے دورے پڑنے لگے اور میں نے بہ مشکل خود کو سنبھالا۔‘‘ ادھر سردار نشتر بھی قاسم علی کو دیکھ کر حیران ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ کوئی تجربے کار اور جہاں دیدہ میٹرک پاس بوڑھا کامیاب ہوا ہے۔

وہ کہنے لگے ’’ارے تم تو نوجوان ہو۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ پاکستان کا مستقبل تم جیسے نوجوان ہی ہیں۔ ہماری زبان میں قصّے کہانیاں تو بہت ملتی ہیں، لیکن انسائیکلوپیڈیا اور فرہنگیں (لغات) موجود نہیں۔ان پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘

انہوں نے پھر میٹرک پاس قاسم علی کو نہ صرف ملازمت دی بلکہ تین سالانہ اضافے بھی دے ڈالے۔ یوں وہ مہاجر لڑکا مجلس زبان دفتری کا معزز رکن بن گیا جس کے ارکان میں جسٹس ایس اے رحمان، پروفیسر محمود احمد خان (مولانا ظفر علی خان کے چھوٹے بھائی)، پروفیسر تاج محمد خیال اور ڈاکٹر سید عبداللہ جیسے جید اکابر شامل تھے۔ وہ صرف تین سال قبل تباہ حال اور لٹی پٹی حالت میں ہندوستان سے لاہور پہنچا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے اس پر اپنی رحمت نازل فرما دی۔سید قاسم علی شاہ المعروف سید قاسم محمود کا یہ مشن بن گیا کہ نوزائیدہ مملکت، پاکستان میں علم و ادب کا خزانہ عام کیا جائے۔ اس غرض سے انہوں نے خودکئی کتابیں لکھیں اور دو صد سے زائد کتب و رسائل شائع بھی کیے۔ بے سرو سامانی کے عالم میں جہالت اور انتہا پسندی کے خلاف جہاد کیا اور اس دوران ہر قسم کی تکالیف برداشت کیں۔ خاص طور پر انہیں مالی مسائل کا ہمیشہ سامنا رہا۔ مگر وہ اپنے محدود وسائل سے خصوصاً ایسے بھاری بھرکم انسائیکلوپیڈیا تیار کرنے میں کامیاب رہے جنہیں تشکیل دینے کی خاطر پورے ادارے درکار تھے۔

پاکستان میں علم و ادب کا نور پھیلانے کے لیے سید صاحب نے کبھی حکومتوں کی طرف نہیں دیکھا، بلکہ عوام سے مدد مانگی۔

علمی و ادبی سرگرمیوں کے شائق بھی دامے درمے سخنے ان کا ہاتھ بٹاتے رہے۔ یوں وہ اس قابل ہوئے کہ تن تنہا کئی انسائیکلوپیڈیاز پر کام کرسکیں۔

یہ یاد رہے ، قاسم محمود اس وقت جہالت کے خلاف نبرد آزما ہوئے جب انٹرنیٹ کا نام و نشان نہ تھا۔ معلومات کی فراہمی کا واحد ذریعہ صرف انگریزی کتب تھیں اور ان میں درج علمی و سائنسی اصطلاحوں کو صرف بہت پڑھے لکھے پاکستانی ہی سمجھ پاتے تھے۔ایسی صورت حال میں قاسم محمود نے طے کیا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے جدید علم کو بہ صورت کتب، رسائل اور انسائیکلوپیڈیا پاکستان میں پھیلایا جائے۔ مدعا یہی تھا کہ علم میں طاق ہوکر وطن عزیز بھی ترقی یافتہ اور جدید ملک بن سکے۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Pakistan-encyclopedia11.jpg

سید قائم علی شاہ المعروف بہ سید قاسم علی 1928ء میں دہلی کے قریب واقع قصبے میں پیدا ہوئے۔ والد جدی پشتی زمیندار تھے مگر زمینوں کی بیشتر کمائی کبوتر بازی، پتنگ بازی اور اسی قسم کی دیگر بازیوں پر اڑ جاتی۔ والد کو اپنے مشغلوں سے غرض تھی، بچوں کی تعلیم و تربیت کا کوئی خیال نہ تھا۔لیکن قاسم علی کی والدہ، فردوسی بیگم اپنے بڑے بیٹے کو جدید تعلیم دلوانا چاہتی تھیں۔ ادھر باپ کی تمنا تھی کہ قاسم صرف قرآن پاک پڑھ کر ان کے کاموں میں ہاتھ بٹائے۔

1940ء میں فردوسی بیگم نے شوہر سے چوری چھپے بیٹے کومقامی سیکنڈری سکول میں داخل کرادیا۔ جب باپ کو پتا چلا کہ بیٹا کفار کی (جدید) تعلیم پڑھ رہا ہے، تو غصّے کے مارے ان کا برا حال ہوگیا۔ انہوںنے قاسم علی کو بہت مارا۔ یہ لڑکے کی زندگی کا پہلا کٹھن مرحلہ تھا۔

لیکن والدہ نے بھی تہیہ کرلیا تھا کہ ان کا بیٹا کسی ’’بازی‘‘ کی لت میں نہیں پڑے گا۔ انہوںنے اپنے رشتے داروں کو بلوالیا اور شوہر سے خوب جنگ کی۔ خاندان کے دباؤ پر شوہر کو خاموش ہونا پڑا۔ یوں قاسم علی کے لیے سکول جانے کی راہ ہموار ہوگئی۔ماں نے پھر زیور بیچ کر تعلیمی اخراجات برداشت کیے۔ بیٹے نے بھی ماں کو مایوس نہیں کیا۔ پرائمری امتحان میں صوبہ پنجاب میں اول آئے۔ سر چھوٹو رام سے انعام پایا۔ میٹرک امتحان میں انبالہ ڈویژن میں اول آئے۔

1947ء میں پاکستان ہجرت کرتے ہوئے قاسم علی اپنے خاندان سے بچھڑگئے۔ وہ اکتوبر 1947ء میں لاہور پہنچے اور پیٹ بھرنے کی خاطر کوئی ملازمت ڈھونڈنے لگے۔ انہیں پہلی ملازمت بطور چپڑاسی روزنامہ ’’زمیندار‘‘ کے دفتر میں ملی۔ وہیں انہیں مولانا ظفر علی خان، مولانا اظہر امرتسری، حاجی لق لق اور مولانا سعید بزمی جیسے نامور ادباء و صحافیوں کی صحبت میسر آئی۔ وہ قدرتاً پہلے ہی علم و ادب سے دلچسپی رکھتے تھے۔ لہٰذا وہاں ان کا خوب دل لگا۔

1948ء میں وہ اپنے خاندان سے جاملے۔ چونکہ وہ گھر میں بڑے تھے لہٰذا بہن بھائیوں کو پالنے کی خاطر انہیں مختلف ملازمتیں کرنا پڑیں۔ ایک بار ایسا وقت آیا کہ اہل خانہ کو چند ماہ تک چنے کھا اور پانی پی کر پیٹ بھرنا پڑا۔ لیکن قاسم علی ان برے حالات میں بھی خدا کا شکر بجا لاتے۔ اسی زمانے میں وہ لکڑہارے اور محکمہ بجلی کے لائن مینوں کے سیڑھی بردار بھی رہے۔

مالی مشکلات کا دوراوائل 1950ء میں کچھ ختم ہوا جب انہیں پنجاب یونیورسٹی میں بطور کلرک ملازمت مل گئی۔ لیکن کنبہ بڑا تھا اور کھانے والے زیادہ…اس لیے وہ چھ سال تک صبح سے شام تک تین چار جزوقتی ملازمتیں کرتے۔ مکتبہ جدید میں سرکولیشن منیجر تھے تو شام کو ایک دکان پر حساب کتاب کرتے۔ آمدن بڑھانے کی خاطر کتب کے تراجم کیے۔ یوں وہ بڑے ہونے کے ناتے اپنے گھرانے کے پشتی بان بنے رہے۔

1957ء میں جب والد بھی کمانے لگے، تو قاسم محمود کو سکون کے کچھ سانس میسر آئے۔ انہوں نے اسی سال اپنا اشاعتی ادارہ ’’شیش محل کتاب گھر‘‘ کھولا اور علمی و ادبی کتب شائع کرنے لگے۔ انہوں نے ایک رسالہ ’’علم‘‘ بھی نکالا۔ لیکن علمی کتب و رسائل کے خریدار بہت کم تھے۔ ایک ہی سال میں ان کی ساری جمع پونجی ختم ہوگئی لہٰذا مجبوراً ادارہ بند کرنا پڑا۔

کوئی اور ہوتا تو پہلی بار مالی نقصان اٹھا کر علم کی ترویج سے کنارہ کش ہوجاتا۔ لیکن قاسم علی محمود نے تو زندگی کا یہ مشن بنالیا تھا کہ پاکستان میں علم و ادب کا پودا پروان چڑھایا جائے۔ وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ اور احیائے اسلام کے لیے قائم ہوا ہے۔ نوزائیدہ مملکت میں علمی و ادبی سرگرمیاں پروان چڑھانے کے لیے ہی انہوں نے حیرت انگیز اور نت نئے منصوبے تخلیق کیے اور پوری زندگی اپنے مشن پر قربان کردی۔ جو کمایا ،اسی مشن پہ خرچ کیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ انہوں نے کبھی حکومت وقت سے امداد نہیں لی۔ جب حنیف رامے وزیراعلیٰ پنجاب بنے، تو انہوں نے علامہ اقبال ٹاؤن،لاہور میں ادیبوں کی کالونی بنائی۔ حنیف رامے بہت زور دیتے رہے لیکن قاسم صاحب نے پلاٹ نہیں لیا اور تقریباً ساری عمر کرائے کے گھروں میں گزار دی۔

کراچی کے مشہور کالم نگار، نصراللہ خان نے انہیں یوں خراج تحسین پیش کیا :’’سید قاسم محمود نے کئی بڑے علمی کام جرأت اور حوصلے سے انجام دیئے۔ جبکہ ان کی مالی حالت یہ ہے کہ سوائے حسرت تعمیر گھر میں خاک نہیں۔‘‘ مشہور نقاد و دانش ور ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے لکھا :’’یقین کیجیے، وہ واحد شخص جس نے ملک میں علم کی ترویج و اشاعت کے لیے پورے عشق سے ان تھک کام کیا اور جسے پوری قوم کو نذرانہ عقیدت پیش کرنا چاہیے، سید قاسم محمود ہیں۔‘‘

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Pakistan-encyclopedia2.jpg

بھوک میں صبر کا اجر

اواخر 1948ء میں سید قاسم محمود کو اپنے بچھڑے اہل خانہ مل گئے۔یہ کنبہ پندرہ سے زائد بچوں بڑوں پہ مشتمل تھا۔والد بیمار تھے ،اس لیے خاندان والوں کے پیٹ بھرنے کی ذمے داری بڑے بیٹے کے کاندھوں پہ آن پڑی۔نوجوان قاسم نے اس مشکل کا حل یہ نکالا کہ وہ صبح سویرے دریائے راوی کے کنارے چلے جاتے۔وہاں درخت کاٹتے اور لکڑیاں بناتے۔پھر یہ لکڑیاں قریبی منڈی میں بیچ دیتے۔ یوں صبح دو تین پیسے کما لیتے۔

وہ پھر چنے فروش کے ٹھئیے پہ پہنچتے اور ایک پیسے کے چنے خریدتے۔چنا فروش دو سیر گرماگرم بھنے چنے ان کی جھولی میں ڈال دیتا۔قاسم محمود چنے لیے محلہ داتا دربار آ جاتے جہاں ایک ٹوٹے پھوٹے گھر میں رہائش تھی۔ان کی والدہ سب بچوں میں چنے تقسیم کر دیتیں۔یوں سبھی پیٹ بھر لیتے۔

ایک دن زیادہ بوہنی ہوئی،تو نوجوان قاسم نے میٹھی کھیلیں بھی چنوں میں ڈلوا لیں۔اتفاقاً اس دن انھیں شدت کی بھوک لگی ہوئی تھی۔اوپر سے بھنے چنوں کی اشتہا انگیز خوشبو نے اسے سوا کر دیا۔ان کا جی چاہنے لگا کہ کہیں بیٹھ کر چنے کھا لیں۔لیکن انھیں پھر والدین اور بہن بھائیوں کا خیال آ گیا جو گھر میں بھوکے بیٹھے کھانے کا انتظار میں تھے۔

ان کو اپنے اہل خانہ سے بہت محبت تھی۔لہذا انھوں نے گوارا نہیں کیا کہ وہ تنہا پیٹ بھر لیں اور اس روحانی مسّرت سے ہاتھ دھو بیٹھیں جو بہن بھائیوں کو کھانا کھاتا دیکھ کر ملتی تھی۔انھوں نے صبر کیا اور گھر پہنچ کر حسب ِمعمول سب کے ساتھ مل کر چنے کھائے۔

انھوں نے اہل خانہ کی خاطر صبر کیا،تو اس کا اجر بھی ملا۔اگلے دن وہ راوی کی سمت جا رہے تھے کہ ایک جگہ ایک آدمی اخبار پڑھتا نظر آیا۔ان کی نظر سیدھی ایک اشتہار پہ پڑی۔پنجاب یونیورسٹی کو شعبہ انتظامیہ میں کلرک درکار تھا۔قاسم صاحب وہیں سے یونیورسٹی چلے گئے۔انھیں وہاں 25روپے ماہوار پر ملازمت مل گئی۔سچ ہے،اللہ تعالی کسی کی نیکی رائیگاں نہیں جانے دیتے۔

جہالت کے خلاف جہاد

تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما، سردار عبدالرب نشتر کی تحریک پر قاسم محمود نے عمر بھر مختلف انسائیکلوپیڈیاز اور لغات کی تیاری، تدوین و ترتیب میں کسی نہ کسی طور حصہ لیا۔ یوں وہ وطن عزیز کے نامور انسائیکلوپیڈیا داں بن گئے۔ ان کتب میں درج ذیل شامل ہیں:

٭دائرہ معارف اسلامیہ٭ اردو انسائیکلو پیڈیا

٭ اردو جامع انسائیکلو پیڈیا٭ انسائیکلوپیڈیا معلومات

٭ شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

٭ بے بی انسائیکلوپیڈیا ٭انسائیکلوپیڈیا ایجادات

٭انسائیکلوپیڈیا فلکیات٭ شاہکار انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا

٭ سیرت النبیؐ کا انسائیکلوپیڈیا

٭ انسائیکلوپیڈیا قرانیات (نامکمل)

٭ انسائیکلوپیڈیا تاریخ انسانیت ٭انسائیکلوپیڈیا مسلم انڈیا

٭ دفتری اصلاحات کی ڈکشنری

٭ فرہنگ معاشیات۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔