آئندہ دو سے تین برسوں میں کے پی کے حکومت مثالی ثابت ہوگی,شفقت محمود

غلام محی الدین / رانا نسیم  اتوار 22 مارچ 2015
سابق وفاقی وزیر، بیوروکریٹ، دانشور اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما شفقت محمود سے مکالمہ۔ فوٹو: ایکسپریس

سابق وفاقی وزیر، بیوروکریٹ، دانشور اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما شفقت محمود سے مکالمہ۔ فوٹو: ایکسپریس

سینئر سیاست دان، کالم نگار اور سابق بیوروکریٹ شفقت محمود 19 فروری 1950ء میں گجرات میں پیدا ہوئے۔ 1970ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے سائیکالوجی، ہاروڈ یونیورسٹی کیمبرج (1981ء) اور یونیورسٹی آف جنوبی کیلیفورنیا (1987ء) سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

سابق بیوروکریٹ 1973ء سے 1990ء تک مختلف سرکاری عہدوں پر تعینات رہے۔ انہوں نے اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور جوائنٹ سیکرٹری وزیراعظم سیکرٹریٹ، کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 1990ء میں سرکاری ملازمت سے مستعفی ہو کر انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا، جس کے بعد مارچ 1994ء میں وہ پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے۔ سینئر سیاست دان 1999ء سے 2000ء تک پنجاب میں وزیراطلاعات، ثقافت، ماحولیات، ٹرانسپورٹ رہے جبکہ نومبر 1996ء سے فروری 1997ء تک نگران حکومت کے دور میں بطور وفاقی وزیر برائے ماحولیات، لوکل گورنمنٹ،خوراک و زراعت کی ذمہ داریاں ادا کر چکے ہیں۔ سینٹ کمیٹی برائے دفاع اور خارجہ امور کا ممبر رہنے کے علاوہ مختلف ادوار میں وہ پاکستان کی طرف سے مختلف ممالک کے لئے خصوصی ایلچی بھی رہ چکے ہیں۔

13 دسمبر 2011ء کو شفقت محمود نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی، جہاں انہیں مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں وہ پی ٹی آئی کے واحد امیدوار تھے، جنہوں نے مسلم لیگ ن کے گڑھ تصور کئے جانے والے شہر لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست جیتی۔ ’’ایکسپریس‘‘ نے بیوروکریسی اور سیاست کا وسیع تجربہ رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما و رکن قومی اسمبلی شفقت محمود سے ایک نشست کا اہتمام کیا، جس میں ملک کی سیاسی و انتظامی صورت حال، ماضی کی غلطیوں اور مستقبل کے چیلنجز کے بارے میں تفصیلی بات چیت ہوئی، جو نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس:آپ سول سروسز کے اعلیٰ عہدوں پر تعینات رہ چکے ہیں، تو پھر بیوروکریسی چھوڑنے کی کیا وجہ تھی؟ اگر مقصد ملکی خدمت ہے تو یہاں تو یہ تاثر عام ہے کہ ملک تو بیوروکریسی چلا رہی ہے۔

شفقت محمود: میں نے کوئی 17، 18 سال نوکری کی، لیکن میں نے محسوس کیا کہ جتنا اثر انداز آپ سیاست میں ہو سکتے ہیں وہ بیورو کریسی میں نہیں ہو سکتا۔ اِس میں آپ چھوٹے چھوٹے حصوں میں بٹے رہتے ہیں، یعنی اگر آپ ایک ضلع میں تعینات ہیں تو آپ صرف ایک ضلع کی حد تک کچھ کر سکتے ہیں، اسی طرح آپ اگر کسی وزارت میں ہیں تو وہاں بھی صرف ایک خاص حصہ میں آپ کام کر سکتے ہیں، تو میرا خیال تھا کہ سیاست میں یہ ممکن ہے کہ آپ زیادہImpact پیدا کر سکتے ہیں، ایسا ہو نہ ہو وہ اور بات ہے، لیکن یہ ممکن ہے۔ دوسرا مجھے شوق بھی تھا۔ اچھا جو ملک چلانے والی آپ نے بات کی تو میرا خیال ہے کہ بیورو کریسی کو اگر حقیقی پولیٹیکل لیڈر شپ ملے تو بیورو کریسی وہی کرتی ہے، جو اسے کہا جاتا ہے، لیکن اگر نہ ملے تو پھر ان کی مرضی ہے، اس لئے اصل ایشو لیڈر شپ کا ہے، بیورو کریسی کا نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کئی سیاستدانوں کو حکومتی معاملات کا تجربہ نہیں ہوتا، جس وجہ سے وہ اس قسم کی لیڈرشپ نہیں دے سکتے، جس کی ضرورت ہوتی ہے، تو میرا خیال ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ بیوروکریسی ہر چیز میں اپنی من مانی کرتی ہے تو یہ درست نہیں۔ آپ انہیں (بیوروکریسی) درست ڈائریکشن دیں تو پھر وہی ہو گا جو آپ چاہیں گے۔

ایکسپریس: پاکستان میں، اس کے قیام سے لے کر آج تک سول ملٹری تعلقات مثالی نہیں رہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ اور سول ملٹری تعلقات کو کیسے متوازن بنایا جا سکتا ہے؟

شفقت محمود:دیکھیں! جو Clonial States (نوآبادیاتی ریاستیں) ہوتی ہیں، ان میں ریاستی ادارے مضبوط ہوتے ہیں، جن میں فوج، سول سروسز وغیرہ شامل ہیں کیوں کہ Clonial States میں عوام کی رائے کا احترام نہیں ہوتا بلکہ ملک پر جبراً قبضہ کیا جاتا ہے اور جبراً قبضے کو قائم رکھنے کے لئے آپ کو بالخصوص فوج اور بیوروکریسی جیسے اداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو جناب جب پاکستان بنا تو اس میں جو سب سے طاقتور ادارہ تھا وہ سول سروسز ہی تھا اور یہ فوج سے بھی زیادہ طاقتور ادارہ تھا، اس وقت سیاست کمزور تھی، مسلم لیگ بھی بحیثیت پارٹی اتنی مضبوط نہیں تھی،جتنی کانگریس تھی، پھر قائد اعظمؒ فوت ہوگئے، تو یوں جو سول ملٹری توازن تھا وہ قائم نہ ہو سکا۔ پھر 9 سال تک الیکشن نہیں کروائے جا سکے، جس سے سیاستدانوں کی Legitimacy کم ہو گئی، حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں، جس سے سیاستدانوں کی ساکھ خراب ہوئی اور فوج کو آگے آنے کا موقع ملا اور اس نے 30،35 سال حکومت کی۔ ہمارے ملکی تناظر میں یہ ضروری ہے کہ سیاستدان کرپشن فری اور بہترین حکومت کریں کیوں کہ اگر سیاست دان اچھی حکومت نہیں کریں گے، عوام تنگ ہوں گے، تو پھر لوگ فوج کی طرف دیکھنے لگ جاتے ہیں، تو اس میں سیاستدانوں کے اوپر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ غیرمعمولی اچھی حکومت کریں، تبھی سول ملٹری طاقت میں توازن پیدا ہو گا۔ ترکی کی مثال آپ کے سامنے ہے، اردوان نے 10،12سال میں سول ملٹری تعلقات کو بدل کر رکھ دیا، جس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایسی حکومت دی، جس میں معیشت کو بحال کیا اور مسلسل الیکشن جیتے، تو پھر وہ اس مقام پر پہنچے۔

ایکسپریس: اپنے کالموں میں آپ تحریک انصاف پر کڑی تنقید کرتے رہے، خاص طور پر عمران خان کا جو طالبان کے بارے میں موقف تھا۔ پھر اچانک اسی جماعت میں شامل بھی ہو گئے۔ وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے اس فیصلے پر آمادہ کیا؟

شفقت محمود: دیکھیں! بات یہ ہے کہ میں تو عمران خان سے اب بھی بہت ساری چیزوں میں اختلاف کرتا ہوں، کیوں کہ کئی چیزوں کے بارے میں میرا اپنا نقطہ نظر ہے، لہذا یہ نہیں ہے کہ جب میں نے تحریک انصاف میں شمولیت کی تو میں عمران خان کے ہر معاملہ میں ان کا حامی بن گیا۔ اور دوسرا یہ کہ ہماری جماعت میں اتنی جمہوریت ہے کہ میں یہ سب باتیں میڈیا میں بیٹھ کر، کر رہا ہوں۔ لیکن میں آپ کو یہ بتا دوں کہ عمران خان ایک سچا اور کھرا آدمی ہے، جس میں کوئی ذاتی لالچ نہیں، اور اگر اس ملک کو کوئی اچھی حکومت دے سکتا ہے تو وہ صرف عمران خان ہے، باقیوں کے بارے میں آپ خود دیکھ لیں کیوں کہ ہم سے تو کسی کی حقیقت پوشیدہ نہیں ہے۔ 1980ء میں آپ نواز شریف کے اثاثے دیکھ لیں اور آج کے دیکھ لیں۔ زرداری کی پہلے کیا حالت تھی اور آج وہ کیا بنے بیٹھے ہیں، لہذا عمران خان کی بہت بڑی خوبی تھی، اور ہے کہ اس میں کوئی لالچ نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ عمران خان بھی انسان ہے اور انسان سے غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں، ان کے کچھ خیالات ایسے ہیں، جن سے میں اتفاق نہیں کرتا لیکن عمران خان اس وقت ملک اور قوم کے لئے بہترین اُمید ہے، وہ اس ملک کو ایک صاف ستھری حکومت دے گا، جس کے اہداف بڑے واضح ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے اس پارٹی کو جوائن کیا۔ پیپلزپارٹی میں اس قدر کرپشن ہو گئی تھی کہ میں نے دلبرداشتہ ہو کر اسے چھوڑا۔

ایکسپریس: ہمارے ہاں یہ تاثر اب تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی پارٹی پالیسیوں میں تسلسل کا فقدان اور تضادات ہیں، مثال کے طور پر ایک طرف آپ ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو دوسری طرف اسی الیکشن میں کسی آزاد امیدوار کو بھرپور سپورٹ کرکے جتوا بھی دیتے ہیں، پھر وہی امیدوار آپ کی جماعت میں آجاتا ہے، جیسے ملتان میں عبدالغفار ڈوگر نے کیا اور اب ننکانہ سے بریگیڈیر اعجاز شاہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں، جہاں انہیں پی ٹی آئی کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

شفقت محمود:ہم سیاسی جگہ خالی نہیں چھوڑ سکتے، جہاں الیکشن ہوتا ہے، ہم وہاں کسی کو سپورٹ کرتے ہیں۔ ڈوگر صاحب نے formally ابھی تک پی ٹی آئی جوائن نہیں کی لیکن یہ ہے کہ جب تک جوڈیشل کمیشن نہیں بنتا تو ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم نے اس اسمبلی میں نہیں بیٹھنا، کمیشن بن جائے تو ہم اسمبلیوں میں چلے جائیں گے اور یوں ضمنی الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے کا معاملہ بھی حل ہو جائے گا۔

ایکسپریس:تحریک انصاف نے موروثی اور روایتی سیاست کو دفن کرنے کا نعرہ لگایا لیکن ہم آپ سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی دیگر سیاسی جماعتوں سے کیسے مختلف ہے؟ دیگر جماعتوں کی طرح اس میں بھی لوٹا ازم کو فروغ دینے والے، کرپشن الزامات میں ملوث سیاستدان ہیں۔ ن لیگ کی تشکیل پر فوج کی چھاپ لگائی جاتی ہے تو یہی تاثر اب پی ٹی آئی کے بارے میں بھی ہے، جس کو تقویت دھرنے کے دوران اور مخدوم جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنسز سے ملی۔

شفقت محمود:پہلی بات یہ ہے کہ فوج والی بات بالکل غلط ہے، اس بارے میں اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ پیش کرے۔ مجھے بتائیں کہ اگر فوج ہمارے ساتھ ہوتی تو گزشتہ الیکشن میں ہمارے ساتھ دھاندلی ہوتی، تقریباً 60 نشستیں ہیں جہاں ہمیں دھاندلی سے ہرایا گیا ہے تو بتائیں کہ اگر فوج ہمارے ساتھ ہوتی تو ایسا ممکن تھا۔ حالات اور واقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ تحریک انصاف کو فوج سے جوڑنے والی بات درست نہیں۔ ہمارا تو فوج کے ساتھ کئی چیزوں میں اختلاف ہیں، جیسے War On Terrorismوغیرہ، لہذا یہ فوج والا تاثر تو غلط ہے، دوسرا جو آپ نے روایتی سیاست کی بات کی تو اگر آپ پچھلے الیکشن کو دیکھیں تو ہم نے 35 سے36 فیصد ٹکٹ نوجوانوں کو دیئے، بلکہ بعد میں ہمیں لوگوں نے کہا کہ یہ کیا آپ نے ’’بونگی‘‘ ماری، اس اقدام کی وجہ سے بہت سارا الیکشن ہم ہار گئے، کیوں کہ انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ الیکشن کیسے لڑا جاتا ہے، وہ ناتجربہ کار تھے، اس کے علاوہ ہمارے 70 فیصد لوگ ایسے تھے، جنہوں نے پہلی بار الیکشن لڑا، باقی 30 فیصد میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان میں پرانے لوگ تھے۔ خیبرپختونخوا میں جو ہمارے لوگ منتخب ہو کر آئے ہیں، ان میں، میں ایم این ایز کا سوچ رہا ہوں کیوں کہ یہ میرے ساتھ ہیں، تو یہ تقریباً سارے کے سارے نئے ہیں۔ پنجاب سے آپ کہہ سکتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی جیسے ہمارے چند امیدوار تھے، جو پہلے بھی الیکشن لڑتے آ رہے ہیں۔ اب کوئی پرانے سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والا شخص تحریک انصاف جوائن کرنا چاہتا ہے اور اس پر کرپشن کی کوئی شکایت نہیں ہے تو ہم اس کو کیوں ناں لیں؟ ہم اسی پارلیمانی نظام حکومت کے تحت کام کر رہے ہیں ناں کوئی کمیونسٹ انقلاب تو نہیں لا رہے کہ سارے نظام کو اڑا دیں، ہم نے اسی پارلیمانی نظام کے اندر رہ کر اسے بہتر بنانا ہے، اس میں میرے خیال ہے کہ لوگ ایسے آئیں گے جو پرانی فیملیز سے تعلق رکھتے ہوں لیکن مجموعی طور پر ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔

ایکسپریس: اسی ضمن میں ایک اور سوال ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ جنرل پاشا کا بہت نام لیا جاتا ہے، اس کی آخر وجہ کیا ہے؟ کیوں کہ کوئی ایک بات ہوتی ہے تو اس سے سو باتیں بنتی ہیں۔ دوسرا کیا واقعی دھرنے سے قبل جنرل پاشا آپ کے ہاں ٹھہرے تھے؟

شفقت محمود:یہ صرف ن لیگ کی مہربانیاں ہیں، جنرل پاشا کو بطور ڈی جی آئی ایس آئی ریٹائر ہوئے اڑھائی تین سال ہوچکے ہیں، آپ کو پتہ ہے کہ جو ابھی ریٹائر ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی، ان کا نام کیا ہے؟( راقم کی طرف سے نام یاد کرنے میں تھوڑا وقت لینے پر) دیکھا، بس یہی میرا پوائنٹ تھا کہ جو صاحب آج سے چار ماہ قبل ریٹائر ہوئے ان کا نام یاد کرتے ہوئے بھی آپ نے وقت لیا۔ تو بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کو عوام کی طرف سے پذیرائی ملنے پر یہ سب کچھ ن لیگ کر رہی ہے۔ اچھا اب میں ایک اور مثال دوں کہ ابھی لاہور میں جو ہمارا جلسہ ہوا، شائد ستمبر میں تھا، یہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا اور جب پرویز مشرف پاور میں تھا تو انہوں نے اسلام آباد ڈی چوک میں ایک جلسہ کروانے کی کوشش کی تھی لیکن پھر کیا ہوا، یہ سب کو معلوم ہے۔ تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سیاست میں بیان بازی اور الزامات لگتے رہتے ہیں، لیکن ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ آپ نے جنرل پاشا کی بات کی تو میں ان کو اس وقت سے جانتا ہوں، جب وہ ڈی جی ایم آئی تھے، لیکن جنرل پاشا کا دھرنا سے کوئی تعلق نہیں، میں جنرل کیانی کو بھی جانتا ہوں، جنرل راحیل سے میں کاکول میں ملا تھا، دیکھیں! مجھے 25 سال سیاست میں ہو چکے ہیں اور اس سے قبل 18 سال بیورو کریسی میں بھی رہا تو ہمارے جاننے والے تو ہوتے ہیں، لیکن ان کا دھرنے یا کسی اور پارٹی معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔

ایکسپریس:کیا حکومت نے پی ٹی آئی کو دھرنا ختم کرتے وقت جوڈیشل کمیشن کے قیام کی کوئی ٹھوس یقین دہائی کروائی؟ اگر جوڈیشل کمیشن نہیں بنتا تو پارٹی کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہو سکتا ہے؟

شفقت محمود:ہم توقع یہ کر رہے تھے کہ جب ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت میں دھرنا ختم کر دیا تو حکومت کو بھی تھوڑا احساس ہوگا، ہم نے اے پی سی میں بھی شمولیت کی، تو ہمارا خیال تھا کہ وہ بھی تھوڑی گڈ ول دکھائیں گے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اب بھی ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ اس معاملہ کو حل کرنے کے لئے جوڈیشل کمیشن بنائیں، جو عام انتخابات کی چھان بین کرے اور اگر اس میں یہ ثابت ہوجائے کہ دھاندلی نہیں ہوئی تو بات ختم ہو گئی اور اگر دھاندلی ہوئی ہے تو پھر نیا الیکشن ہونا چاہیے۔ جوڈیشل کمیشن کا قیام ایک معاملے پر اٹکا ہوا ہے، ہم یہ کہتے ہیں کہ آئین کا آرٹیکل 218/3 جو یہ کہتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شفاف انتخابات کرائے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ ٹی او آر بنا لیا جائے کہ یہ الیکشن اس پر پورا اترتا ہے کہ نہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ آپ یہ ثابت کریں گے کہ یہ سازش پی ایم ایل این نے کی، ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم سازش ثابت کر سکتے ہیں لیکن عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ الیکشن فیئر تھا یا نہیں۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Shafqat-Mehmood1.jpg

ایکسپریس:کچھ حلقے کھلنے سے یہ بات سامنے آئی کہ کتنے ووٹ غیر مصدقہ ہیں تو کیا یہ بات پتہ نہیں چل سکتی کہ مشکوک ووٹ کس کو کس تناسب سے پڑے؟

شفقت محمود:یہ پتہ نہیں چل سکتا، اس لئے کہ جو بیلٹ پیپر ہے اس پر ایک سٹیمپ اور دستخط ہونی چاہیے اور کاؤنٹر فائل پر بھی سٹیمپ اور دستخط ہونی چاہیے، تو سٹیمپ اور دستخط تو چیک ہو سکتے ہیں، لیکن کاؤنٹر فائل سے یہ چیک نہیں ہو سکتا کہ یہ ووٹ کس کو گیا کیوں کہ ووٹ کے اوپر کوئی سیریل نمبر نہیں ہوتا۔ اب آپ دیکھیں ناں پی ایم ایل این نے 2008ء کے الیکشن میں 68 لاکھ ووٹ لئے اور 2013ء میں یہ تعداد ڈیڑھ کروڑ ہو گئی، آپ دنیا کی تاریخ دیکھ لیں کہ کسی پارٹی کے ووٹ بنک میں 10 سے 15 فیصد اضافہ تو ہوا لیکن ایسا نہیں ہوا کہ ووٹ دوگنا ہو جائیں۔ دوسری بات میں آپ کو اپنے حلقے کی بتاؤں کہ وہاں کئی ایسے کیمپ تھے کہ جہاں ان کا کوئی بندہ نظر تک نہیں آتا تھا، لیکن پھر بھی وہاں سے ان کے 4 سے5 ہزار ووٹ نکل آیا۔ لہذا میں یہ کہہ رہا ہوں کہ میرے الزام لگانے سے معاملہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے ایک جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے، کیوں کہ ہر جماعت نے کسی نہ کسی سطح پر دھاندلی کی شکایت کی ہے۔ عوام کو پتہ چلنا چاہیے کہ الیکشن میں کیا ہوا، دوسری بات یہ ہے کہ جب تک پچھلے الیکشن کا درست آڈٹ نہیں ہوتا ہم آئندہ بہتری نہیں لا سکتے۔

ایکسپریس:آپ الیکشن ریفارمز کی بات کرتے ہیں، لیکن حالیہ سینٹ الیکشن میں بدنظمی صرف آپ کے زیرانتظام صوبے کے پی کے میں دیکھی گئی، پیسہ چلنے کے الزامات بھی لگے۔ کیا کہیں گے؟

شفقت محمود:پہلی توبات یہ ہے کہ آپ تاریخ کو دیکھیں کہ سینٹ الیکشن میں جتنا چھوٹا انتخابی حلقہ ہوتا ہے، وہاں اتنا ہی زیادہ پیسے کا الزام لگتا ہے، ماضی میں کے پی کے میں ایک ہی گھرانے کے چار چار افراد بھی منتخب ہو چکے ہیں، جن پر پیسے دے کر منتخب ہونے کا الزام لگا۔ اس دفعہ بھی میرے خیال میں لوگوں کو بہت زیادہ پیسوں کی پیشکش کی گئی، بلوچستان میں چوں کہ اس سے بھی کم ووٹ ہوتے ہیں تو وہاں بھی پیسوں کے الزامات لگے اور فاٹا میں یہ صورت حال مزید گھمبیر ہو جاتی ہے، کیوں کہ وہاں انتخابی حلقہ بہت ہی چھوٹا ہو جاتا ہے، تو اس لئے صرف کے پی کے میں پیسہ چلنے کی بات کرنا میرے خیال میں غلط ہے۔ اگر آپ پنجاب کی بات کرتے ہیں تو یہاں ایک سینیٹر کو 54 ووٹ چاہیں تو اس میں خرید و فروخت والی بات کم ہو جاتی ہے، یہ بات وہاں ہوتی ہے، جہاں حکومت اور اپوزیشن کا فرق تھوڑا ہو۔ جہاں تک بات ہے کے پی کے اور تحریک انصاف کی تو ہم نے جتنے امیدوار نامزد کئے وہ سارے کے سارے کامیاب ہوئے بلکہ ہمارے حلیف جماعت اسلامی کے امیر بھی ہماری سپورٹ سے سینیٹر منتخب ہو گئے۔ اس لئے یہ کہنا درست نہیں کہ وہاں سب سے زیادہ گڑ بڑ ہوئی ہے، درحقیقت وہاں فضل الرحمن ایک سیٹ ہار گئیے تو اس کا مطلب گڑبڑ تو ان کے لوگوں میں ہوئی، اسی طرح ن لیگ بلوچستان میں ایک سیٹ ہار گئی۔

ایکسپریس:ایک تاثر یہ ہے کہ پی ٹی آئی جب بڑی سیاسی جماعت بنی تو اس کے بانی رہنماؤں اور ورکرز کو نظر انداز کر دیا گیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، جس کی واضح مثالیں شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی، جہانگیر ترین، علیم خان، پرویز خٹک اور اب چودھری سرور وغیرہ ہیں، پارٹی میں دھڑے بندی کی خبریں بھی زبان زد عام ہیں، کیا کہیں گے؟

شفقت محمود:جب پارٹی چھوٹی تھی تو اس میں کم لوگ تھے اور بڑی ہونے پر زیادہ لوگ آ گئے، جب زیادہ لوگ آئے تو ان میں ایسے بھی آئے جن کا سیاسی قد کاٹھ بڑا تھا اور پارٹی نے ان کو عزت دی اور انہیں عہدے دیئے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں باقی لوگوں کو نظرانداز کر دیا گیا۔ جیسے میں نے پہلے کہا کہ ہمارے جو ایم این اے منتخب ہوئے ہیں، ان میں دو یا تین کے علاوہ باقی سب نئے چہرے تھے۔ اگر آپ پنجاب اسمبلی میں دیکھیں تو وہاں بھی صرف دو تین بندے پرانے ہیں۔ دوسرا میرا خیال ہے کہ نئے اور پرانے کی بات بھی ن لیگ کی طرف سے کی جاتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم تو بُرے ہیں ہی ، یہ بھی بُرے ہو جائیں‘‘۔ میرے خیال ہے ایسی بات نہیں ہے، ہمارے پاس جو پرانے لوگ آئے ہیں، ان میں سے بیشتر لوگ ایسے ہیں، جن کی شہرت بہت اچھی ہے۔ جہاں تک دھڑے بندی کی بات ہے تو کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہوتی جس میں یہ نہ ہو۔ ایک گھر میں رہنے والے بھائی الگ ہو جاتے ہیں، جب معاملہ انسانی فطرت کا ہے تو ایسا تو ہوگا۔ اور یہاں میں اگر کہوں کہ دھڑے بندی نہیں ہے تو یہ غلط ہو گا لیکن یہ اتنی نہیں جتنی دوسری جماعتوں میں ہے۔ پھر ہم نے پارٹی الیکشن کروائے، جو بالکل شفاف ہوئے، جس میں ایسا ہوا کہ لوگ تھوڑا ایک دوسرے سے دور ہوئے، لیکن یہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گا۔

ایکسپریس:سیاسی جماعتیں کارکردگی سے ترقی کرتی ہیں۔ پی ٹی آئی کو ایک صوبہ میں عوامی خدمت کا موقع ملا لیکن آپ کے اپنے اراکین اسمبلی بھی حکومتی ناکامی کا رونا رو رہے ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کے پی کے میں صحت، تعلیم دیگرشعبوں میں کوئی واضح بہتری سامنے آ رہی ہے؟

شفقت محمود:دیکھیں! پہلی بات یہ ہے کہ شریف برادران 23 سال سے پنجاب میں حکومت کر رہے ہیں اور ہمیں وہاں پر ڈیڑھ سال ہوئے، جس میں سے 6 ماہ دھرنے میں گزر گئے، لیکن اس کے باوجود ہم نے کام کیا، پولیس آزاد ہے، کرپشن بہت حد تک کم ہو چکی ہے، ایجوکیشن کے لئے جتنا پیسہ ہم نے رکھا کسی نے نہیں رکھا، ہسپتالوں کی حالت بہت بہتر ہو چکی ہے۔ اور ان کاموں کا ثبوت یہ ہے کہ سوائے ایک کے جتنے ضمنی الیکشن ہوئے ہم نے وہ سب جیتے، ہم نے تو فضل الرحمن کی جیتی ہوئی دو سیٹیں بھی ضمنی الیکشن میں جیت لیں، تو اس کا مطلب ہے کہ لوگ ہم پر اعتماد کر رہے ہیں اور محسوس کر رہے کہ تبدیلی آئی ہے۔ پھر ابھی صرف ڈیڑھ سال گزرا ہے، میں آپ کو لکھ کر دے سکتا ہوں کہ آئندہ دو تین سال میں آپ دیکھیں گے کہ وہاں ایک مثالی حکومت ہوگی۔ یہاں کی حالت دیکھ لیں کہ پولیس کا جو عوام کے ساتھ رویہ ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ میرے حلقے میں بے شمار ایسے مقامات ہیں، جہاں سیوریج کا پانی صاف پانی کے پائپوں میں مکس ہو رہا ہے، لیکن انہیں اپنے رنگ روڈز اور ابھی جو نیا تماشا شروع کیا گیا شہر کو برباد کرنے کا، کہ ہم سگنل فری کوری ڈور بنانا چاہتے ہیں، کی پڑی ہے۔ میں تو کہوں گا کہ یہ سوچنے کی بات ہے کہ یہ بڑے پراجیکٹ کیوں لگائے جا رہے ہیں، کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ اس میں کک بیکس زیادہ ہیں، ان کی ترجیحات آپ دیکھ لیں کہ لاہور کے شہریوں کو پینے کے لئے صاف پانی نہیں مل رہا، ان کی زندگی اجیرن ہے، کرائم ریٹ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور یہ صرف نمائشی کاموں میں مصروف ہیں۔ میرے حلقے کے لئے حکومت نے آج تک مجھے ایک روپیہ نہیں دیا اور آپ دیکھ لیں جو مجھ سے الیکشن ہارے ہیں، خواجہ احمد حسان ان کو انہوں نے ایل ٹی اے کا چیئرمین لگا دیا اور ان کو پیسے دے کر ترقیاتی کام کروائے جا رہے ہیں۔ پھر آپ دیکھیں یہ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات نہیں کروا رہے کیوں کہ انہیں پتہ ہے کہ پھر ان لوگوں کو فنڈز بھی دینے پڑیں گے، لہذا ان کی بدنیتی ہر جگہ نظر آتی ہے، تاہم ذاتی تعلقات کی بناء پر بیورورکسی کو کہہ کر جہاں تک ممکن ہوتا ہے میں لوگوں کے مسائل حل کرواتا ہوں۔

ایکسپریس:پی ٹی آئی کے مطابق جنرل الیکشن میں تاریخی دھاندلی ہوئی لیکن جو پی ٹی آئی کے جماعتی الیکشن میں دھاندلی ہوئی، اس کا کیا ہوا؟ جسٹس وجہیہ الدین نے جو سفارشات پیش کیں ان پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوا، اگر ہوا تو کہاں تک؟

شفقت محمود:دیکھیں! ہم نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جماعتی الیکشن کروائے، جس میں کمزوریاں، کوتاہیاں رہ گئیں، دھاندلی میں نہیں کہتا، انشاء اللہ تعالیٰ سال کے اندر اندر پارٹی کا دوبارہ الیکشن ہوگا، جس میں چیزیں بہتر ہو جائیں گی۔

ایکسپریس:سیاست میں آپ ایک سنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں، آپ ایک جمہوریت پسند سیاست دان بھی ہیں، ماضی اور حال میں آپ کا جمہوری پارٹیوں سے تعلق بھی رہا لیکن مشرف دور میں ایک آمر کے ساتھ اتنی قربت کیوں۔ ؟

شفقت محمود:99ء میں مجھے سیاست میں آئے 10سال ہوئے تھے اور صاف بات کہوں تو میں بہت مایوس تھا اور پی پی کو میں نے چھوڑا ہی اس لئے تھا کہ ان میں بہت کرپشن تھی، اور مجھے محسوس ہوا کہ ن لیگ والوں کے بس میں بھی نہیں کہ وہ ملک کے لئے کچھ کر سکیں، جب مشرف آئے تو مجھے امید ہوئی کہ یہ ایک کڑوا گھونٹ تو ہے، لیکن شائد اس سے کوئی تبدیلی آ جائے، تو میں ان کے ساتھ اس لئے ہو لیا کہ ملکی بہتری میں میرا بھی حصہ پڑ جائے، لیکن آپ دیکھیں کہ مشرف 8 سال تک رہے مگر میں نے ایک سال کے اندر اندر استعفی دیدیا اور اس کے بعد آپ میری تحریری پڑھ لیں میں نے پرویز مشرف کی ڈٹ کر مخالفت کی، اس لئے کہ مجھے شروع میں نظر آگیا تھا کہ انہوں نے وہی پرانے گندے سیاستدانوں کو ساتھ لانا شروع کر دیا اور ہمیں بھی خانہ پُری کے لئے رکھا ہوا ہے۔ مشرف کے ساتھ، کو میں غلطی نہیں مانتا، مجھے ایک امید بندھی تھی لیکن جب وہ ٹوٹی تو میں نے استعفی دیدیا۔ یہ تو نہیں ہوا کہ میں 99ء میں مشرف کو جوائن کرکے 2007ء چھوڑتا اور پھر گالیاں دیتا، ایسا لوگوں نے کیا بھی ہے۔ مشرف تو مجھ سے سخت نالاں تھے کیوں کہ میں نے ہر کالم میں ان کے خلاف لکھا، اچھا۔۔۔ پھر اس سے مجھے ایک سبق بھی ملا کہ پاکستان کے مسائل کا حل فوجی حکومت نہیں ہے، اس کا حل جمہوریت میں ہی ہے، چاہے وہ جیسی بھی ہو۔

ایکسپریس:آپ کے خیال میں جنرل مشرف کے مقدمات کا کیا بنے گا؟

شفقت محمود:میرا خیال ہے کچھ نہیں بنے گا، سوائے ایک مقدمے کے، جو اکبر بگٹی کا ہے کہ اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے۔ دیکھیں! 99ء میں وہ آئے، سپریم کورٹ نے انہیں تسلیم کر لیا، بے شمار لوگ ان کے ساتھ آ گئے، اداروں نے انہیں سپورٹ کیا۔ اس کے بعد اب گڑھے مردے اکھاڑنے والی بات ہے، میرا خیال ہے کہ اگر پرویزمشرف پر کوئی ایسا کیس ہے، جس کی تحقیقات ہونی چاہیئیں تو وہ بگٹی کا کیس ہے، کیوں کہ اس کا قوم کو بہت نقصان ہوا، بلوچستان میں نقصان ہوا۔ تحقیقات ہونی چاہیے کہ پرویز مشرف نے کوئی حکم دیا یا سرزد ہو گیا۔

ایکسپریس:ایک تاثر ہے اور درست بھی ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ غیر ضروری طور پر امریکہ پر انحصار کیا، اور جس حالت کو ہم پہنچ چکے ہیں، اس میں امریکہ کا بڑا عمل دخل ہے تو مستقبل میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو منظم کرنے کے بارے میں تحریک انصاف کی کیا سوچ ہے اور ہمارے پاس کیا بہتر آپشنز ہیں؟

شفقت محمود:دیکھیں! بہترین آپشن تو یہ ہے کہ آپ کسی کے غلام نہ بنیں اور آپ کی آزادانہ پالیسی ہونی چاہیے لیکن ماضی میں ہم نے اپنی اندرونی کمزوریوں کو امریکہ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان جب بنا تو ہم ہندوستان کے مقابلے میں خود کو کمزور محسوس کرتے تھے تو ہم نے امریکہ کے ساتھ سیٹو، سینٹو معاہدے کئے، اس امید کے ساتھ کے وہ ہماری سپورٹ کرے گا، ایسا ہوا بھی لیکن ہر چیز کی ایک قیمت بھی ہوتی ہے، لہٰذا بڑی دیر تک ہماری پالیسی آزاد نہیں رہی، جس میں ہمارا اپنا قصور زیادہ ہے، ’’شہر کے لوگ تو ظالم ہوتے ہی ہیں‘‘ ہمیں اپنا خیال خود کرنا چاہیے۔ پھر افغان وارشروع ہوئی، میں سمجھتا ہوں کہ جو آج کل ہماری مشکلات ہیں، اس میں بہت بڑا ہاتھ ضیاء الحق کا ہے، جنہوں نے امریکہ کو سپورٹ کیا، ہر سوسائٹی میں چھوٹا سا طبقہ جنونیوں کا بھی ہوتا ہے، اور انہیں جب آپ تیار کرکے ہاتھ میں بندوق پکڑا دیتے ہیں تو پھر یہ جنونی پوری سوسائٹی پر چھا جاتے ہیں کیوں کہ پھر یہ بندوق واپس نہیں کرتے۔ ایک بار پرویز مشرف نے کہا تھا، جس سے ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ’’بس جب ہمارا مقصد پورا ہو جائے گا تو ہم ان کو کہیں گے کہ جاؤ بچو اپنی دکانوں پر بیٹھو‘‘ لیکن پھر کوئی واپس دکان پر نہیں گیا۔ بہرحال اب جو آگے وقت آ رہا ہے تو ہمیں کسی کی سائیڈ نہیں لینی چاہیے، چائنا ہمارا دوست ہے، قریبی تعلقات ہیں، وہ ہمیں سپورٹ بھی کرتا ہے اور چائنا طاقت کے توازن میں بھی مدد کرتا ہے، تو ہمیں امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات رکھنے چاہئیں اور چائنا کے ساتھ بھی۔ ہمیں اپنی معاشی حالت کو بہتر کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے، خارجہ پالیسی کا اصل ہدف اپنے عوام کی حالت بہتر کرنا ہونا چاہیے، یہ گلوبل ڈومی نیشن کی بات ہمارے لئے نہیں، ہم ایک چھوٹا ملک ہیں، ہمیں عالمی طاقت بننے کا ذہن نہیں رکھنا چاہیے۔

ایکسپریس:مسئلہ کشمیر کی بات کریں تو بھارت اپنے تئیں یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ انہوں نے اس معاملہ پر کوئی بات کرنی ہی نہیں، تو کیا آپ بھی سوچتے ہیں کہ اس معاملے پر اپنا موقف بدل لینا چاہیے، جیسے پوری دنیا میں ایک لابی اس پر کام کر رہی ہے کہ ہم اسے بھول جائیں۔

شفقت محمود:دیکھیں! بات یہ ہے کہ ہندوستان کی جو موجودہ حکومت ہے، اس کا بہت ہی منفی رویہ ہے، جس وجہ سے وہاں عوامی سطح پر بھی پاکستان مخالف جذبات بہت زیادہ ہو رہے ہیں اور مودی کی وجہ سے مایوسی ہوئی جس طرح سے انہوں نے پاک بھارت تعلقات پر رویہ اختیار کیا، انہوں نے خاص طور پر ایسے وقت میں جب ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں، مشرقی سرحد پر حالات خراب کرکے ہمارے لئے مشکلات پیدا کیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ انہیں اپنی اس غلط پالیسی کا تھوڑا احساس ہوا ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے سیکرٹری خارجہ کو پاکستان بھیجھا تو اس وقت تک تو میں پرامید نہیں ہوں، اگر آپ مجھ سے آج پوچھیں تو مجھے اگلے چار پانچ سال میں کوئی بہتری کی اُمید نظر نہیں آتی، اس لئے کہ بھارت کا رویہ ٹھیک نہیں ہے، وہ بلوچستان میں بھی گڑ بڑ کر رہا ہے اور کچھ شواہد کے مطابق وہ طالبان کو بھی شہہ دے رہا ہے، افغانستان کے اندر بھی وہ ہمارے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے ۔

ایکسپریس:چین کے صدر نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا لیکن اب یہ اطلاعات ہیں کہ وہ نہیں آ رہے ہے اور اب روس کے صدر یہاں آ رہے ہیں، آپ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، کیا یہ تینوں ممالک (پاکستان، چین اورروس) مل کر کوئی نئی سیاسی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں؟

شفقت محمود:جہاں تک چین کے صدر کی آمد کا تعلق ہے تو سکیورٹی وجوہات کی بناء پر پہلے ہی دورہ کا اعلان کرنا مناسب نہیں ہوتا لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ چین ہمارے ساتھ کھڑا ہے، بلکہ اب وہ یہاں زیادہ سرمایہ کاری کرنے کے موڈ میں ہے، اب وہ ہمارے انفراسٹرکچر میں بھی انویسٹمنٹ کر رہے ہیں، لیکن ایک چیز ہمیشہ یاد رکھیں کہ ملکوں کے درمیان دوستی نہیں بلکہ مفادات ہوتے ہیں تو چین کے مفادات پاکستان کے مفادات سے ملتے ہیں، اس لئے وہ یہاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ روس کے ساتھ ہمارے تعلقات تاریخی اعتبار سے اچھے نہیں رہے لیکن اب چوں کہ دنیا کے اندر سرد جنگ کی طرح کی ایک کشمکش شروع ہو چکی ہے، جس کا ثبوت یوکرائن اور مڈل ایسٹ میں روس اور امریکہ کے درمیان تناؤ ہے اور وہ بڑھا رہا ہے۔ تو اس میں پہلی بار روس نے ہماری طرف قدم بڑھایا ہے اور ہمارے لئے یہ اچھا ہے کیوں کہ یونی پولر دنیا ہمارے لئے مسئلہ ہے، اگر بائی پولر یا ٹرائے پولر ہو تو میرے خیال میں یہ ہمارے لئے بہتر ہے لیکن میں پھر یہی کہوں گا کہ خارجہ پالیسی کا ہمارا اصل ہدف معاشی ترقی ہونا چاہیے۔

کتاب سے کبھی جدا نہیں ہوتا، نیم کلاسیکی موسیقی، عابدہ پروین اور کرکٹ پسندیدہ

میں کتاب سے جُدا نہیں ہوتا، کوئی نہ کوئی کتاب زیر مطالعہ رہتی ہے۔ آج کل میں بھارتی صحافی راجدیپ کی کتاب “The Election That Changed India” پڑھ رہا ہوں جو بھارت کے گزشتہ الیکشن کے اوپر لکھی گئی ہے، اس کتاب میں بڑی تفصیل سے الیکشن اور شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اب فکشن کم جبکہ تاریخ اور بائیوگرافی میں زیادہ دلچسپی ہے۔ کئی کتب نے مجھے متاثر کیا، جن میں سے ایک پاؤلو کوہلیو کی کتاب الکیمسٹ ہے، جس کے اندر آپ کو زندگی کے متعلق کئی سبق ملتے ہیں۔ مجھے بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا اور آج اللہ تعالی کی طرف سے مجھ پر جتنا کرم ہے، میں سمجھتا ہوں یہ اسی کا نتیجہ ہے۔ جب میں سیاست سے باہر ہوا تو میں نے لکھنا شروع کر دیا اور آپ اس وقت تک لکھ نہیں سکتے جب تک آپ پڑھیں ناں۔ بہترین لکھاری بننے کے لئے پڑھنا بہت ضروری ہے کیونکہ جب آپ اچھے لوگوں کو پڑھتے ہیں تو آپ کی اپنی زبان اور اسلوب میں بہت زیادہ نکھار آتا ہے۔ پڑھنے لکھنے کے علاوہ میوزک سننے کا بھی شوق رکھتا ہوں، آج کل میں نیم کلاسیکی اور صوفی میوزک سنتا ہوں اور یہاں میں یہ کہتا چلوں کہ کوک سٹوڈیو میوزک انڈسٹری کی بڑی جدت ہے، ہر سیزن کے اندر وہ کمال کرتے ہیں۔ عابدہ پروین کی گائیگی مجھے بے حد پسند ہے۔ انگلش میوزک تو کم سنتا ہوں لیکن مجموعی طور پر بھارت اور پاکستان کا میوزک سننا پسند کرتا ہوں۔ سپورٹس کی بات کریں تو کالج میں کرکٹ اور سکواش کھیلی، بعد میں ٹینس کھیلتا رہا، سیاست میں آنے سے قبل گالف کھیلتا تھا لیکن اب کھیل کے لئے کوئی وقت نہیں ہے۔ کھیلوں میں کرکٹ مجھے بے حد پسند ہے اور آج کل بھی میں کرکٹ کے متعلق ایک کتاب پڑھ رہا ہوں، یہ عثمان سمیع الدین کی کتاب ہے، جس کا نام ہے “The Unquiet Ones”جس میں پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ کے متعلق بیان کیا گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔