دستاویزات جو اسامہ بن لادن کے گھر سے ملیں

سید عاصم محمود  اتوار 22 مارچ 2015
امریکی حکومت نے پچھلے دنوں لاکھوں میں سے دو درجن کلاسیفائڈ دستاویز عوام کے سامنے پیش کر دیں۔ فوٹو: فائل

امریکی حکومت نے پچھلے دنوں لاکھوں میں سے دو درجن کلاسیفائڈ دستاویز عوام کے سامنے پیش کر دیں۔ فوٹو: فائل

2 مئی 2011ء کی صبح امریکی فوجیوں اور انٹیلی جنس افسروں پر مشتمل ایک ٹیم القاعدہ کے سربراہ،اسامہ بن لادن کے پراسرار گھر واقع ایبٹ آباد اتری۔ اس ٹیم کو دو ذمے داریاں سونپی گئی تھیں۔

اول اسامہ کو زندہ یا مردہ حالت میں گرفتار کرو۔ دوم گھر سے ایسی اشیا اکٹھی کرنا جو اسامہ اور القاعدہ کی بابت زیادہ سے زیادہ معلومات دے سکیں۔ فوجیوں نے اسامہ کو گولیاں مار دیں جبکہ انٹیلی جنس افسروں نے دوسرا کام انجام دیا۔امریکیوں کو اسامہ کے گھر سے کافی ’’مال‘‘ ملا…100 یو ایس بی ڈرائیوز، ایک درجن موبائل فون، ڈی و ڈی، آڈیو اور ویڈیو ٹیپس، ڈیٹا کارڈ، ہاتھ سے لکھے کاغذات، اخبارات اور رسائل۔بعدازاں ایک سینئر امریکی فوجی افسر نے اسے ’’کسی بھی جنگجو تنظیم کا ہاتھ آنے والا سب سے بڑا دستاویزی ذخیرہ قرار دیا۔‘‘ان دستاویزات کی کل تعداد ’’دس لاکھ ‘‘بتائی جاتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس دستاویزی ذخیرے کی بدولت القاعدہ کے دل و دماغ امریکی حکومت کے قبضے میں آگئے۔ انہی دستاویزات کے باعث امریکی اس کی تاریخ، جاری منصوبوں اور مستقبل کے عزائم سے آگاہ ہوئے۔ سب سے پہلے خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے تجربے کار افسروں نے القاعدہ دستاویزات کامطالعہ کیا۔ مدعا یہ تھا کہ ایسے امریکا مخالف منصوبے سامنے لائے جائیں جو فوری کارروائی کے متقاضی ہوں۔ افسروں کے ان دستاویزات کی معلومات کی بنیاد پر 500 خفیہ رپورٹیں مرتب کیں۔

ایک اچانک حکم

لیکن پھر اوباما حکومت کے اچانک حکم پر القاعدہ چیف کے گھر سے برآمد ہونے والی دستاویز کی پڑتال روک دی گئی۔ حتیٰ کہ دس ماہ تک کسی نے انہیں نہیں چھوا۔ اس طویل تعطل پر امریکی افواج پریشان ہوگئیں۔ وہ جاننا چاہتی تھیں کہ ان دستاویز سے کس قسم کے انکشاف ہوئے ۔ مگر اوباما حکومت نے اپنے جرنیلوں کو ان دستاویزات کی ہوا تک لگنے نہ دی۔

اسی دوران صدارتی ایکشن سے چھ ماہ قبل 2012ء کے موسم بہار میں اوباما حکومت یہ میڈیا مہم چلانے لگی کہ القاعدہ دم توڑ رہی ہے۔ اسامہ پر حملے کا پہلا سال مکمل ہونے پر امریکی حکومت کے مشیر قومی سلامتی (بعدازاں ڈائرکٹر سی آئی اے)، جان برینن نے پیشن گوئی کی کہ القاعدہ کا زوال شروع ہوچکا ۔ صدر اوباما نے بھی اپنی تقریر میں کہا ’’ہم القاعدہ کو شکست دینے کے قریب پہنچ چکے۔‘‘

دوسری طرف امریکی افواج نے وائٹ ہاؤس پر دباؤ ڈالا کہ انہیں بھی ’’اسامہ کی دستاویزات‘‘ دیکھنے کا موقع دیا جائے۔ آخر اوباما حکومت نے 17 دستاویز ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی میں واقع کمباٹنگ ٹیرر سینٹر کو بھجوا دیں۔ وہاں عسکری ماہرین نے ان کا جائزہ لے کر حکومت سے اتفاق کیا کہ القاعدہ روبہ زوال ہے۔یہ دستاویز بعد ازاں مئی 2012ء میں عوام کے سامنے پیش کر دی گئیں۔لیکن وسط 2012ء ہی سے یمن، عراق، مشرقی افریقہ، افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ یا اس سے وابستہ تنظیمیں دوبارہ سرگرم ہوکر سرکاری تنصیبات پر حملے کرنے لگیں۔ اس ڈرامائی تبدیلی نے امریکی جرنیلوںکو چکرا کر رکھ دیا۔

امریکی جرنیلوں نے دوبارہ اومابا انتظامیہ پر دباؤ ڈالا کہ انہیں اسامہ کی دستاویزات تک رسائی دی جائے۔ اس پر حکومت کے دونوں ستونوں کے مابین چھوٹی سی جنگ بھی ہوئی۔ آخر اوباما انتظامیہ نے ’’صرف دیکھنے‘‘ کے لیے مٹھی بھر عسکری ماہرین کو دستاویزات تک رسائی دے ڈالی۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Osama-doc3.jpg

عسکری ماہرین کا تعلق امریکی افواج کے خفیہ ادارے، ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی اور سینٹ کام (United States Central Command) سے تھا۔ ان کی جانچ پڑتال سے پہلا بڑا انکشاف یہ ہوا کہ مرتے وقت بھی اسامہ بن لادن اپنی تنظیم پہ پورا کنٹرول رکھتے تھے۔ دوسرا انکشاف یہ ہوا کہ اسامہ نے القاعدہ کو وسعت دینے کے منصوبے بنا رکھے تھے۔

امریکی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق سربراہ، لیفٹیننٹ جنرل مائک فلائنن کا کہنا ہے: ’’دستاویزات سے افشا ہوا کہ القاعدہ چیف انڈونیشیا اور پاکستان سے لے کر افریقا تک پھیلے اپنے کارکنوں کو ہدایت دیتے تھے۔ حتیٰ کہ روزمرہ کاموں کے سلسلے میں میں بھی احکام دیئے جاتے۔‘‘

اوائل مارچ 2015ء تک بھی اسامہ بن لادن کی دستاویزات عوام الناس کے سامنے نہیں آئی تھیں۔ مگر نیویارک کے بروکلین کورٹ میں جاری ایک مقدمے نے صورت حال بدل ڈالی۔اس کورٹ میں ایک پاکستانی نژاد برطانوی، عابد نصیر پر مقدمہ چل رہا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ وہ القاعدہ کا رکن ہونے کے ناتے امریکا اور برطانیہ میںشہریوں پر بم حملے کرنا چاہتا تھا۔ دوران سماعت استغاثہ نے کیس مضبوط بنانے کے لیے اسامہ کی دستاویزات میں سے دو درجن دستاویزی ثبوت پیش کیے۔ یوں مذید کچھ دستاویزات عوام کے سامنے آ گئیں۔

چشم کشا خطوط

ان میں القاعدہ کے آپریشنل چیف، عطیہ عبدالرحمن کا خط بھی شامل ہے جو انہوں نے جولائی 2010ء میں اسامہ بن لادن کو لکھا تھا۔ یہ خط منکشف کرتا ہے کہ القاعدہ اور پاکستانی طالبان کے مابین قریبی روابط تھے اور یہ کہ پاک فوج پر زور ڈالنے اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے دونوں گروہ دہشت گردی کے حملوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتے تھے۔

اسی خط سے انکشاف ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان اسامہ بن لادن کی جائے پناہ سے بے خبر تھی۔ یہ انکشاف اس کی نااہلی کا ثبوت ہے۔ مگر اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی حکومت اسامہ بن لادن کی پشت پناہ نہیں تھی… جیسا کہ بعض انتہا پسند امریکی نیٹ ورکس کا دعویٰ ہے۔

عطیہ عبدالرحمن کا خط عیاں کرتا ہے کہ القاعدہ اور پاکستانی طالبان نے پاکستان میں ’’زمین ہلا دینے والے‘‘ حملے کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ لیکن پاکستانی سکیورٹی فورسز کو پیغام دیا گیا کہ اگر وہ شمالی علاقوں میں ’’جہادیوں‘‘ کے خلاف آپریشن روک دیں، تو دہشت گردانہ حملے نہیں کیے جائیں گے۔

امریکا میں اب کئی سیاست داں اور دانشور یہ مہم چلا رہے ہیں کہ اسامہ بن لادن کی زیادہ سے زیادہ دستاویزات عوام کے سامنے پیش کی جائیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ القاعدہ کیونکر امریکا کے خلاف سرگرم عمل رہی اور کس قسم کے مخالفانہ عزائم رکھتی تھی۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Osama-doc11.jpg

مرتے ہوئے بھی القاعدہ چیف سرگرم عمل تھے

جب امریکیوں نے اسامہ بن لادن کے ٹوٹے پھوٹے کمپلیکس میں چھاپہ مارا تو انکشاف ہوا کہ وہ اہل خانہ کے ہمراہ بہت سادگی سے رہ رہے تھے۔ ہر کمرے میں معمولی سامان موجود تھا اور کسی پہلو سے یہ پتا نہ چلتاکہ یہ ایک ارب پتی کا گھر ہے۔ شاید اسی لیے فرض کرلیا گیا کہ اسامہ بن لادن سبھی ساتھیوں سے کٹ کر نجی زندگی گزارتے اور اب وہ القاعدہ کے ’’روحانی پیر‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

لیکن حال ہی میں عیاں ہونے والی درجن بھر دستاویز مختلف منظر نامہ پیش کرتی ہیں۔ یہ اسامہ اور ان کے ساتھیوں کے خطوط پر مشتمل ہیں۔ ان سے عیاں ہوتا ہے کہ اسامہ اپنی وفات تک القاعدہ کی سرگرم قیادت کررہے تھے۔ حتیٰ کہ ہر کارکن کو بھرتی کرنے سے قبل اسامہ کی رضا مندی ضروری سمجھی جاتی۔ تمام آپریشنل سرگرمیاں پیغام بروں کی وساطت سے انجام پاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سی آئی اے انہی کے ذریعے اسامہ تک پہنچنے میں کامیاب رہی۔

افشا کردہ دستاویز میں اگست 2010ء میں اسامہ کا لکھا خط شامل ہے جو صومالیہ میں القاعدہ سے منسلک تنظیم، الشہاب کے نام ہے۔ خط میں اسامہ قائدین تنظیم کو پیغام دیتے ہیں:’’ آپ اپنے علاقوں میں چھوٹے ڈیم بنا کر اناج کی پیداوار بڑھائیں۔ انڈونیشیا سے پالم کے درخت منگوا کر لگائیں۔ علاقے میں درخت نہ کاٹیں کیونکہ یوں ماحول کو نقصان پہنچتا ہے۔‘‘

جون 2010ء میں عطیہ عبدالرحمن نے اسامہ کو خط لکھ کر پوچھا ’’کیا پاکستان میں ابو عثمان الشہری کو القاعدہ چیف بنا دیا جائے؟‘‘ خط میں عبدالرحمن نے ابو عثمان کی خامیاں و خوبیاں بیان کیں۔ اسامہ بن لادن نے جوابی خط میں ابو عثمان کی تقرری کو مسترد کردیا۔ جواز یہ بتایا کہ وہ افغان رہنما ،گلبدین حکمت یار کے بہت قریب ہے اور ملا عمر کو ’’امیر المومنین‘‘ تسلیم نہیں کرتا۔ یہ مراسلت افشا کرتی ہے کہ تب القاعدہ اور طالبان کے مابین قریبی روابط موجود تھے۔پاکستان میں القاعدہ چیف کی ذمے داری انتہائی خطرناک تھی۔ کیونکہ جو راہنما یہ عہدہ سنبھالتا، اسے افغانستان اور پاکستانی شمالی علاقہ جات میں سرگرم عمل ہونا پڑتا۔ دوسری طرف امریکی ڈرون سے لے کر افغان و پاکستانی سکیورٹی فورسز تک، ہر کوئی اس کی جان کا دشمن ہوجاتا۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Osama-doc21.jpg

خطوط کے ذریعے اسامہ ’’مائکرومنیجر‘‘ کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ ایک خط میں انہوں نے القاعدہ آپریشنل چیف کو پیغام بھجوایا ’’میں ان سبھی بھائیوں کا بائیوڈیٹا دیکھنا چاہتا ہوں جو مستقبل میں القاعدہ میں ذمے داریاں سنبھالیں گے۔‘‘ ایک خط میں انہوں نے حکم دیا :’’امریکی فوجی، بریڈلے میننگ نے وکی لیکس کے ذریعے جو ہزارہا دستاویزات افشا کی ہیں، ان کا عربی میں ترجمہ کیا جائے۔‘‘ مدعا یہ تھا کہ دشمن کی پالیسیوں کو سمجھا جاسکے۔ایک خط میں عطیہ عبدالرحمن نے اپنے قائد کو مطلع کیا کہ یونس الموریطانی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایران جارہے ہیں۔ یونس ایران کے راستے یورپ پہنچ کر وہاں ممبئی حملوں کے طرز پر حملے کرنا چاہتے تھے۔ عطیہ عبدالرحمن نے لکھا:

’’یونس الموریطانی عنقریب ایران جانے والے ہیں۔ ان کے ساتھ سات آٹھ بھائی ہیں۔ ہمیں آپ کی قطعی اجازت کا انتظار ہے۔ وہ ایران میں تین ماہ رک کر بھائیوں کو عسکری تربیت دیں گے۔ بعدازاں بھائی اپنی منازل پر پہنچ کر حملے کریں گے۔‘‘لیکن یونس الموریطانی کا منصوبہ سرمائے کی کمی کے باعث انجام نہ پاسکا۔ ستمبر 2011ء میں کوئٹہ سے پاکستانی آئی ایس آئی نے یونس کو گرفتار کرلیا۔ اس وقت وہ موریطانیہ کی جیل میں قید ہیں۔امریکی حکومت کی افشا کردہ دستاویزات یہ بھی بتاتی ہیں کہ ڈرون پروگرام نے افغانستان اور پاکستانی شمالی علاقہ جات میں القاعدہ کی سرگرمیوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ اسی لیے وسط 2010ء میں اسامہ غورو فکر کرنے لگے کہ تنظیم کے سبھی راہنما ایران، یمن یا کسی اور اسلامی ملک میں منتقل ہوجائیں۔

جون 2010ء کے ایک خط میں عطیہ عبدالرحمن نے اسامہ بن لادن کو مطلع کیا: ’’اب آپ ہم سے پیغام رسانی کم سے کم کردیں۔ دشمن ہماری تاک میں ہے، آپ بہت ہوشیاری سے کام لیں۔ خصوصاً اس سال۔‘‘

یہ تاکید دانش مندی پر مبنی تھی کیونکہ جلد ہی سی آئی اے اسامہ کے بااعتماد پیغام بر تک پہنچ گئی اور پھر اس کا پیچھا کرتے کرتے ان کی پناہ گاہ تک جاپہنچی… وہ غیر اہم سا کمپلیکس جہاں کسی کے وہم و گمان میں نہیں ہوسکتا تھا کہ اسامہ بن لادن جیسی نہایت اہم شخصیت وہاں رہ رہی ہے۔

دو سال قبل امریکہ کے مشہور ماہر سکیورٹی، پیٹر برگن نے اسامہ بن لادن کی تلاش کا قصہ ایک کتاب’’Manhunt: The Ten-Year Search for Bin Laden From 9/11 to Abbottabad ‘‘ میں بیان کیا۔ اس میں پیٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ جس رات ایبٹ آباد حملہ ہوا، تو امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی خفیہ طور پر جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی چیف، جنرل شجاع پاشا کے مابین گفتگو ریکارڈ کرتی رہی۔ اس گفتگو میں دونوں اعلیٰ ترین جرنیلوں نے اس امر پر حیرانی کا اظہار کیا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں مقیم تھے۔

اسامہ بن لادن کو آج بھی عالم اسلام میں لاکھوں لوگ عظیم شخصیت سمجھتے ہیں۔ انہوں نے امریکی استعمار کے خلاف آواز بلند کرکے یقینا عمدہ قدم اٹھایا۔ لیکن جب شدت پسند القاعدہ راہنما اپنے سے غیر متفق مسلمانوں کو ’’کافر‘‘ اور ’’واجب القتل‘‘ قرار دینے لگے، تو مسئلہ پیدا ہوگیا۔واقعہ 9/11 کے وقت بیشتر القاعدہ راہنما اور کارکن افغانستان میں مقیم تھے۔ جب امریکا نے وہاں حملہ کیا تو وہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات چلے آئے۔ پاک سکیورٹی فورسز ان کی تلاش میں وہاں پہنچی، تو القاعدہ اور پاکستانی حکومت کے مابین ٹکراؤ شروع ہوگیا۔ یہ تصادم پھر رفتہ رفتہ اتنا بڑھا کہ امریکی ثانوی دشمن بن گئے جبکہ القاعدہ اور اس سے وابستہ مقامی تنظیمیں پاکستانی حکومت کی تنصیبات سے لے کر اقلیتوں اور شہریوں کو نشانہ بنانے لگیں۔ اس خانہ جنگی سے پاکستان کا ازحد جانی و مالی نقصان ہوا جو کسی حد تک اب بھی جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔