میں بابا کا بیٹا بنوں گا!

قیصر اعوان  ہفتہ 21 مارچ 2015
اللہ ہر کسی کو اولاد دے، مگرصحت مند، ورنہ بیشک نہ دے۔ فوٹو کے ڈی ایس پی فیس بک پیج

اللہ ہر کسی کو اولاد دے، مگرصحت مند، ورنہ بیشک نہ دے۔ فوٹو کے ڈی ایس پی فیس بک پیج

’’آپ کا بیٹا Down’s Syndrome کے ساتھ پیدا ہوا ہے، اسے عام بچوں کی نسبت زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوگی۔‘‘ ڈاکٹر کی آواز کاشف کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ وہ جوکچھ لمحے پہلے تک بیٹے کی پیدائش کا سُن کر خوشی سے پھولے نہیں سمارہا تھا، اب غم سے نڈھال بیٹھا تھا۔

’’یااللہ کیوں؟ میرے ساتھ ہی کیوں؟‘‘ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔

’’پریشان نہ ہو بیٹا، جو اللہ کو منظور، تیرے پاس آصف بھی تو ہے، یہ بنے گا تیرا بازو‘‘ دادی نے آصف کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا جو ابھی صرف تین برس کا تھا۔ کاشف کی بہنوں کا تو رو رو کر بُرا حال تھا۔

ننھے مہمان کی آمد پر گھر میں سوگ کا سماں تھا، عزیز رشتے دار رواج کے مطابق بچے کو دیکھنے تو آرہے تھے مگر مبارکباد دینے کے بجائے صبر کی تلقین کی جارہی تھی جیسے خدانخواستہ کوئی مَر گیا ہو۔

’’ہائے بیچارہ، اتنی مہنگائی میں کیسے اُٹھائے گا ایک معذور بچے کا بوجھ؟ اس طرح کے بچے تو سنا ہے رہتے بھی ہروقت بیمار ہیں‘‘ کوئی افسوس کا اظہار کررہا تھا۔

’’اللہ ہر کسی کو اولاد دے، مگرصحت مند، ورنہ بیشک نہ دے۔‘‘ـ جس کے منہ میں جو آیا بولے جارہا تھا۔

اپنے لختِ جگر کو سینے سے لگائے بیٹھی عارفہ کے لیے یہ سب انتہائی تکلیف دہ تھا، لوگوں کی تسلیاں اور دلاسے بجائے اُسے حوصلہ دینے کے اذیت میں مبتلا کر رہے تھے۔

’’کاشف بھائی! مُنّے کا نام کیا سوچا ہے آپ نے؟‘‘ کسی نے پوچھا۔

’’نام کا کیا ہے، کچھ بھی رکھ لیں گے، ابھی تو بہت چھوٹا ہے۔‘‘ کاشف اتنا مایوس ہوچکا تھا کہ شاید اُس کے لیے اب نام کی کوئی اہمیت نہیں رہی تھی۔ ورنہ آصف کی پیدائش پر تو گھر میدانِ جنگ کا منظر پیش کررہا تھا، گھر کا ہر فرد اپنی پسند کا نام رکھنا چاہتا تھا اور پیچھے ہٹنے کوتیار نہ تھا، بڑی مشکل سے عقیقہ تک سب گھر والے ایک نام پر متفق ہوئے تھے مگر اس مرتبہ تو عقیقہ کا بھی کوئی پلان بنتا نظر نہیں آرہا تھا۔

’’عاقب! عاقب نام رکھا ہے ہم نے، اس کے بابا نے یہی نام پسند کیا تھا اس کے لیے۔‘‘ عارفہ نے ننھے عاقب کا منہ چومتے ہوئے کہا۔

عاقب Down’s Syndrome کا شکار تھا، یہ کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ ایک جنیاتی نقص ہے۔ اس نقص کا شکار بچے سوچنے، سمجھنے اور سیکھنے میں دوسرے بچوں سے مختلف ضرور ہوتے ہیں مگر ذہنی طور پر معذور ہرگز نہیں ہوتے۔ تھوڑی سی اضافی توجہ سے یہ معاشرے میں اپنے لیے بہتر مقام حاصل کرسکتے ہیں مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے اُنہیں اکثر بوجھ سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے، انہیں وہ حقوق نہیں دیے جاتے جو دوسروں کو حاصل ہوتے ہیں، بلکہ انہیں دوسروں سے الگ تھلگ رکھ کر تنہائیوں کے اندھیرے میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ عاقب کے ساتھ بھی یہی سب کچھ ہونے جارہا تھا۔

’’عاقب چھ سال کا ہوگیا ہے، اب اسے اسکول میں داخل کرادینا چاہیے۔‘‘ عارفہ نے کاشف سے کہا۔

’’پڑھ کر بھلا کیا کرنا ہے اس نے۔‘‘ کاشف کے لہجے میں درد تھا۔

’’وہ جب آصف کو روز اسکول جاتا دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ میں نے بھی اسکول جانا ہے، اورآصف تو ابھی تین برس کا بھی نہیں ہوا تھا جب آپ اُسے اسکول چھوڑ آئے تھے۔‘‘ وہ کاشف سے ہرگز متفق نظر نہیں آرہی تھی۔

کاشف نے اُس کی طرف ایسے دیکھا جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ ’’یہ آصف کی طرح نارمل نہیں ہے۔‘‘ مگر وہ ماں کی مامتا کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ کاشف کو عاقب کی کوئی پرواہ نہیں تھی، اُس نے اُس کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی تھی مگر وہ عاقب کو وہ پیار نہ دے سکا جو وہ آصف کو دیتا تھا۔ البتہ عارفہ کی بات اور تھی، وہ ماں تھی اور اُس کی نظر میں آصف اور عاقب میں کوئی فرق نہیں تھا، بلکہ عاقب زیادہ توجہ کا مستحق تھا اور وہ عاقب کو اُس کا یہ حق بخوبی دے رہی تھی۔

’’یہ بیچارہ بھلا کیا بن جائے گا پڑھ کر۔‘‘ کاشف اپنی بات پر ڈٹا ہوا تھا۔

’’ب۔۔۔بابا۔۔۔۔۔م۔۔میںنے۔۔۔ڈ۔۔۔ڈڈ۔۔۔ڈاکٹر ۔۔۔بننا۔۔۔ہے۔‘‘ عاقب اپنی وکالت کرنے خود آ گیا تھا اور اُس نے وہ بات بول دی تھی جس کی گردان آصف ہر وقت کرتا رہتا تھا۔

عارفہ نے بھاگ کر بیٹے کو سینے سے لگا لیا، کاشف کے پاس بولنے کو کچھ نہیں تھا مگر عاقب کی بات اُس کا دل ریزہ ریزہ کر گئی تھی۔ وہ نظریں چُرا کر کمرے سے باہر نکل آیا ، اُس کا دل پھوٹ پھوٹ کر رونے کو چاہ رہا تھا۔

اب کاشف کو عاقب کے اسکول جانے پر کوئی اعتراض نہیں تھا مگر اب ایک دوسرا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا، علاقے کا کوئی اسکول عارفہ کی لاکھ منت سماجت کے باوجود عاقب کو داخلہ دینے کو تیار نہ تھا ۔

’’ایسے بچوں کے لیے اسپیشل اسکول ہوتے ہیں آپ اسے وہاں کیوں نہیں لے جاتے۔‘‘

’’ہم ایک ابنارمل بچے کو اپنے اسکول میں داخلہ دے کر نارمل بچوں کی شخصیت پر بُرا اثر نہیں ڈال سکتے۔‘‘ ہر جگہ سے اُنہیں اسی قسم کے جوابات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ عارفہ کا دل چاہتا تھا کہ چینخ چینخ کر کہے کہ ’’میرا بیٹا ابنارمل نہیں ہے‘‘ مگر وہ بے بس تھی۔

اسپیشل بچوں کے لیے مختص اسکول گھر سے بہت دور تھا جہاں عاقب کو پڑھنے کے لیے بھیجنا ممکن نہیں تھا۔ جب عاقب کے اسکول میں پڑھنے کی سب اُمیدیں دم توڑ گئیں تو عارفہ نے اُسے گھر پر ہی پڑھانے کا فیصلہ کیا، بظاہر یہ ناممکن تھا مگرعارفہ ہار ماننے کو تیار نہیں تھی۔ وقت گزرتا گیا مگر عارفہ کا عزم متزلزل نہیں ہوا، عارفہ کی انتھک محنت آہستہ آہستہ رنگ لارہی تھی، سہما سہماعاقب جو ہر وقت اپنی ماں سے لپٹا رہتا تھا، اب باقی گھر والوں کے ساتھ گھلنے ملنے لگا تھا، آصف کے دوست جو اکثر عاقب سے کتراتے تھے اب اُس کے بھی دوست بن گئے تھے۔ اب وہ خود سے لکھنے پڑھنے لگا تھا، کہانیاں پڑھنے اور سننے کا تو اُسے جنون کی حد تک شوق تھا، اُسے تو کہانیاں سنانے کا بھی بہت شوق تھا مگرعارفہ کے علاوہ کوئی سننے والا نہیں تھا۔ ہاں کبھی کبھار دادی بھی اُس کے گھیرے میں آ جاتیں تھیں، جو خود کہانی سنانے سے بچنے کے لیے عاقب سے کہانی سننے بیٹھ جاتیں۔

آصف کا میڈیکل کالج میں داخلہ ہوگیا لیکن عاقب کی اسکول جانے کی خواہش پوری نہ ہوسکی، مگر اب اس خواہش نے ضد کی صورت اختیار کرلی تھی۔ عارفہ اُس کی یہ خواہش ہر صورت پورا کرنا چاہتی تھی مگر کاشف کی نظر میں یہ بے مقصد تھا۔

’’لوگ اپنے بچوں کو اسپیشل اسکولوں میں صرف اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ تھورا بہت پڑھ جائیں، اُن میں تھوڑا بات کرنے کا سلیقہ، اُٹھنے بیٹھنے کا شعور آجائے اور عاقب اِن چیزوں میں اُن سب سے بہت بہتر ہے، ورنہ ان اسکولوں میں پڑھ کر ڈاکٹر یا پروفیسر کوئی نہیں بنتا۔ اور تم اُس اسکول کا خرچہ بھی جانتی ہو، کیسے Manage کریں گے ہم؟‘‘

’’جیسے آصٖف کا کر رہے ہیں۔‘‘ عارفہ آج بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھی۔

’’تم ہر بات میں عاقب کا مقابلہ آصف سے کیوں کرتی ہو، تم جانتی ہو کہ یہ آصف سے مختلف ہے، آصف نے کل ہمارا سہارا بننا ہے، اور اس بیچارے نے اپنی ساری زندگی کسی کے سہارے پر گزارنی‘‘ ابھی کاشف کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ عاقب بھی کمرے میں آگیا، اُس کی آنکھوں میں ٹمٹماتے آنسو یہ بتارہے تھے کہ اُس نے ساری باتیں سُن لی ہیں مگر اس مرتبہ وہ اپنی وکالت میں کچھ نہیں بولا، ویسے بھی اب یہ معصوم سا گول مٹول سا بچہ بڑا ہوگیا تھا اور سمجھدار تو وہ پہلے ہی تھا۔

کاشف بڑی دیر سے بستر پر لیٹا کروٹیں بدل رہا تھا مگرنیند کی جگہ اُس کی آنکھوں میں عاقب کی آنسوؤں سے بھری آنکھوں کا عکس تھا۔ ’’پتہ نہیں میری باتوں سے بیچارے کے دل پر کیا گزری ہو گی۔‘‘ اُسے اپنی اس حرکت پر ندامت ہورہی تھی۔ وہ اُٹھا اورعاقب کے کمرے کی طرف چل دیا۔

عاقب ٹیبل پر ہی سر رکھے سورہا تھا، شاید کوئی کہانی پڑھتے پڑھتے سوگیا تھا، کاشف نے اُسے سہارا دے کر بستر پر لٹا دیا، قلم ابھی تک اُس کے ہاتھ میں تھا، یقیناً وہ سونے سے قبل کچھ لکھ رہا تھا۔ کاشف نے بڑی نرمی سے قلم اُس کے ہاتھ سے لیا اور ٹیبل پر رکھ دیا۔ عاقب کی کھلی ہوئی ڈائری اب کاشف کے سامنے تھی،

بابا سمجھتے ہیں کہ میں کچھ نہیں کرسکتا
میں اُن کے بڑھاپے کا سہارا کبھی نہیں بن سکتا
امّی کہتی ہیں میرا بیٹا پڑھے گا
بابا کہتے ہیں یہ پڑھ کر بھلا کیا کرے گا
میں پڑھنا چاہتا ہوں
میں بھی بھائی کی طرح
بابا کا بیٹا بننا چاہتا ہوں

وہ عاقب جوبولنے میں تھوڑی دشواری محسوس کرتا تھا، شاید لکھنے کا فن جان چکا تھا، پوری ڈائری عاقب کی لکھی ہوئی۔ چھوٹی چھوٹی معصوم کہانیوں اورٹوٹے پھوٹے اشعارسے بھری پڑی تھی مگر کاشف کی آنکھیں کھول دینے کے لیے عاقب کی لکھی ہوئی یہ چند سطریں ہی کافی تھیں۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا، اُسے اب اپنی اُن زیادتیوں کا احساس ہورہا تھا جو وہ آج تک انجانے میں اس معصوم کے ساتھ کرتا آیا تھا۔

’’ب۔۔۔بابا؟‘‘ بابا کے رونے کی آواز نے شاید اُسے نیند سے بیدار کردیا تھا۔ کاشف نے آگے بڑھ کر اُسے سینے سے لگا لیا۔

’’کون کہتا ہے تم میرے بیٹے نہیں ہو؟ تم میرے بیٹے ہو، تم میرے بیٹے ہو، تم پڑھنا چاہتے ہو ناں، میں تمہیں پڑھاؤں گا، میں پڑھاؤں گا اپنے بیٹے کو، جتنا کہو گے اُتنا پڑھاؤں گا۔‘‘ وہ زاروقطار رو رہا تھا۔ عارفہ جو شور سن کرکمرے میں آئی تھی دروازے سے ٹیک لگائے کھڑی رو رہی تھی، مگر اب کی بار آنسو خوشی کے تھے۔

آصف ڈاکٹر بن چکا ہے، اور عاقب ۔۔۔ عاقب ملک کی ایک نامور یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر کا اسٹوڈنٹ ہے۔ عارفہ کو اُس کی محنت کا صلہ مل گیا ہے، اُسے تو اپنے بیٹے کی قابلیت پر شروع سے ہی بھروسہ تھا۔ وہ عزیز رشتے دار جو عاقب کی پیدائش پر افسوس کا اظہار کر رہے تھے اب اُسے رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔