بنیادی تعلیم ٹھیکے پر

عبدالقادر حسن  اتوار 22 مارچ 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

اگرچہ ہم پاکستانی اسے تسلیم نہیں کرتے مگر پوری دنیا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کوئی قوم اور ملک جب تک تعلیم یافتہ نہ ہو وہ ترقی نہیں کر سکتا۔ پاکستان اپنے تعلیمی اعتبار سے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔

شرح تعلیم شرمناک حد تک کم ہے، اتنی کم کہ تعلیم و تعلم کے اس زمانے میں اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے اور بڑی بات ہے کہ شرم آتی ہے کیونکہ جس بات سے شرم آئے اسے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور امید ہے پاکستان کے حکمران اس شرم کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ یہ اس طبقے سے نہیں ہیں ۔

جس کے ہاں تعلیم بغاوت کا سبب بنتی ہے اور وہ اپنے اپنے علاقے کو اس باغیانہ تعلیم سے محروم رکھتے ہیں یعنی سرے سے تعلیم سے ہی محروم رکھتے ہیں۔ اس کے کئی دلچسپ واقعات ہیں جن کو نامور ادیب افسروں مثلاً قدرت اللہ شہاب وغیرہ نے نقل کیا ہے اور بتایا ہے کہ ان کی افسری کے زمانے میں سفارش یہ نہیں آتی تھی کہ کسی کے ہاں اسکول وغیرہ بنوایا جائے بلکہ سفارش یہ کی جاتی تھی کہ کسی پڑوسی جاگیردار اور زمیندار کے علاقے میں اسکول بنا دیا جائے۔

میرے آبائی علاقے میں نئے اسکول بن رہے تھے اور پرانے اسکولوں کا درجہ بڑھایا جا رہا تھا۔ گاؤں کے کچھ لوگ میرے عزیز بزرگ جو ذیلدار بھی تھے، کے پاس آئے کہ ہمارا اسکول بھی پرائمری سے مڈل اسکول بن سکتا ہے اگر آپ سفارش کر دیں اس کے جواب میں میرے اس عزیز نے کہا کہ میں تو اس پرائمری اسکول کو بھی ’’پٹوانے‘‘ یعنی اکھیڑنے کی خواہش رکھتا ہوں اسے ترقی کیسے دلواؤں۔ یہ جواب سن کر گاؤں کے لوگ چپ چاپ لوٹ گئے۔ وہ احتجاج کی جرأت بھی نہیں کر سکتے تھے۔

مطلب یہ ہے کہ ہماری تعلیمی زندگی کو ایسے حالات درپیش رہے ہیں۔ اب جب حالات بدل چکے ہیں اور زبانیں کھل چکی ہیں تو تعلیم دینے والے اداروں کی دیکھ بھال بھی کی جا رہی ہے۔ منشی صاحب (استاد) کی عزت بھی کی جاتی ہے اور بعض اوقات اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے سفارش بھی تلاش کی جاتی ہے۔

سیاست کے ہنگاموں کے اس عروج اور افراتفری میں تعلیم کا خیال ایک خبر سے آیا ہے جس میں ہماری پنجاب کی حکومت پرائمری اسکولوں کو ٹھیکے پر دے رہی ہے۔ کالجوں اور باغوں کے مشہور شہر لاہور کا محکمہ تعلیم 147 پرائمری مڈل اور ہائی اسکول ایک این جی او کے حوالے کر رہا ہے بلکہ کر چکا ہے کہ یہ ناگوار کام ہم سے نہیں ہو سکتا۔ آپ ہی ہماری خدمت کریں اور ہمارے یہ تعلیمی ادارے چلا دیں۔

اس سلسلے میں لاہور کے ٹاؤن ہال میں ایک تقریب ہوئی۔ اس شرمناک تقریب میں لاہور کے سب سے بڑے افسر ڈی سی او کیپٹن محمد عثمان شریک تھے۔ دوسری طرف این جی او مسمات کثیر فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن مس سیما عزیز بھی موجود تھیں۔ علاوہ ازیں کئی افسر وغیرہ بھی تشریف فرما تھے۔ اس تقریب میں ایم او یو پر دستخط کیے گئے۔ کثیر فاؤنڈیشن آیندہ پندرہ برس تک اسکول چلائے گی۔ اس موقع پر ڈی سی او صاحب نے کہا کہ لاہور شہر کا تعلیمی معیار بہتر بنانے کے لیے تمام اقدامات کریں گے۔

اس تقریب سے معلوم ہوا کہ کالجوں کے شہر لاہور کو اب ایسے حکمران میسر آ گئے ہیں جو تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کسی موٹروے کی طرح اسے بھی تعمیر کے لیے ٹھیکہ پر دے رہے ہیں یعنی جو حکومت لاہور جیسے شہر میں بھی چند نچلی سطح کے تعلیمی ادارے بھی نہیں چلا سکتی وہ اعلان کر رہی ہے کہ اس شہر کی تعلیمی حالت اور تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی کوشش کرنے کی اہل بھی نہیں ہے اور اور اسے کسی این جی او کو ٹھیکے پر دے رہی ہے۔

آج کی دنیا تعلیم کے اسلحہ سے اپنی طاقت حاصل کرتی ہے اور ایک تعلیم یافتہ قوم ہونے پر فخر کرتی ہے اور ایک بڑی قوم بنتی ہے۔ آج کی سپرپاور امریکا میں دنیا کی بہترین تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے سامنے برطانیہ کی تعلیمی شہرت اب ماند پڑ چکی ہے۔ اس کی شہرہ آفاق یونیورسٹیوں کے نام بہرحال چلے آ رہے ہیں لیکن اعلیٰ تعلیم کے متلاشی طلبہ پہلے امریکا میں داخلے کی کوشش کرتے ہیں جو بڑی ہی مشکل سے ملتا ہے اس کے بعد کسی دوسری یونیورسٹی کا رخ کرتے ہیں۔

معلوم ہوتا ہے کہ یہی تعلیم ہے جس نے امریکا کو بالآخر ایک سپرپاور بنا دیا ہے۔ آج دنیا کا بہترین جنگی اسلحہ امریکا میں تیار ہوتا ہے اور بہترین علمی اسلحہ بردار بھی امریکا میں تیار کیا جاتا ہے۔ امریکا کے تعلیمی ادارے جب کسی کو داخلہ دے دیتے ہیں اور اس طالب علم کو اپنے معیار کے مطابق سمجھتے ہیں تو پھر اسے مایوس نہیں کرتے۔ امریکا میں تعلیم بہت مہنگی ہے لیکن وہ ضرورت مند طلبہ کو ان کی ضرورت کے مطابق قرض دیتے ہیں۔

جو وہ تعلیم کے بعد اپنی ملازمت وغیرہ کی آمدنی سے ادا کرتے رہتے ہیں۔ یہاں ایک بات بتا دوں کہ امریکا میں پاکستانی طلبہ کو کسی خصوصی اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ عموماً نہیں دیا جاتا۔ ہم پاکستانی اپنی اس حیثیت اور شہرت سے باخبر رہیں تو بہتر ہے تا کہ ایسی امیدیں اور خواب نہ دیکھیں جو پورے کرنے مشکل ہوں۔ ہمارے ایک طالب علم عبدالقدیر خان کو یورپ کے تعلیمی اداروں نے تعلیم دی۔ یہ ادارے آج کے امریکی اداروں کے مقابلے میں بڑے ادار ے نہیں تھے لیکن پاکستانی طالب علم بڑا تھا۔ ایک پُردماغ طالب علم جس نے جتنا کچھ ممکن تھا وہ حاصل کر لیا اور پھر پاکستان آ کر ایٹم بم بنا لیا جس نے امریکا سمیت مغربی دنیا میں آگ لگا دی کہ ایک مسلمان نے ایٹم بم بنا کر ان کے زمینی علاقوں یعنی مسلمانوں کی دنیا ہی بدل دی۔

آج امریکا تو کیا دنیا کا کوئی ملک بھی پاکستان کے خلاف اس کی تباہی کی خواہش پوری نہیں کر سکتا اور بھارت جو پاکستان کا صحیح دشمن ہے اب جنگ بھول چکا ہے اور احمقانہ انداز میں اسلحہ خریدتا جا رہا ہے مگر اس کا کوئی نشانہ موجود نہیں ہے۔ ایک پاکستان تھا جو اب اس کے نشانے سے نکل چکا ہے اور چین تھا جو صرف خوابوں میں اس کا نشانہ تھا۔ اس سب کی وجہ صرف اور صرف ایک پاکستانی کی سائنسی تعلیم ہے ۔

جس کا نام ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان۔ لیکن اب ہم ابتدائی تعلیمی ادارے جن میں کسی طالب علم کی تعلیم کی بنیاد رکھی اور استوار کی جاتی ہے انھیں بھی کسی این جی او کو ٹھیکے پر دے رہے ہیں۔ ہمیں تو دینی طور پر بھی تعلیم لازم ہے اور ہماری دینی بنیاد ایک کتاب ہے جس پر ہم اپنی شخصیت اور زندگی استوار کرتے ہیں مگر جب ہم یہ سب ٹھیکے پر دے رہے ہیں اگر کوئی گستاخ پاکستانی جل کر کہے کہ ملک بھی ٹھیکے پر دے دیں تو کون اس کو ٹوکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔