’’نیا راگ ہے‘ ساز بدلے گئے‘‘

رئیس فاطمہ  اتوار 22 مارچ 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

بدلاؤ ایک فطری عمل ہے۔ کبھی بھی سب کچھ ایک جیسا نہیں رہتا، موسم بدلتے ہیں، فیشن بدلتے ہیں، مزاج بدلتے ہیں، سیاست بدلتی ہے، لیڈر بدلتے ہیں، انسان بدلتے ہیں۔ غرض یہ کہ ثبات صرف تغیر کو ہے، لیکن جس تیزی سے ہماری سوسائٹی اور اس کی ترجیحات بدل رہی ہیں۔ انھیں دیکھ کر خوف آتا ہے۔ پہلے جو باعث ندامت تھا۔

آج باعث فخر ہے اور یہ بہت پرانی بات نہیں ہے، بس یہی کوئی بیس سال کے آس پاس کا قصہ ہے۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ جیسے ان ترجیحات کو، اس تہذیب کو، ان اعلیٰ و ارفع روایات کو، کہ جو ہماری پہچان تھیں اور جو مشرقی تمدن کی آئینہ دار تھیں یکدم گرد و غبار کی کوئی آندھی انھیں اڑا کر کہیں لے گئی ہو۔ اس تہذیب، روایات اور اقدار کے نمایندے قبروں میں جا سوئے۔

ان کی اولادیں جو بچی ہیں ان کے سامنے بھی آخرت کے تابوت رکھے ہیں۔ ان کے بعد؟ اللہ اللہ غیر صلّا۔ اب تو پھر بھی تہذیب کا نوحہ کتابوں میں مل جاتا ہے لیکن جس تیزی سے کتابوں کی جگہ برگر، پیزا اور چائنیز کھانوں کے ریستوران کھل رہے ہیں۔ انھیں دیکھ کر یقین ہو گیا ہے کہ کتابیں صرف نصاب کی باقی رہ جائیں گی۔ وہ بھی ڈگری نہ ملنے تک۔

تہذیب کے اس نوحے میں سب سے پہلے نمبر آتا ہے۔ فرض شناسی، ایمان داری اور دیانت کا۔ لیکن زندگی کا کون سا شعبہ ہے جہاں یہ موجود ہوں۔ ایجوکیشن ہی کو لے لیجیے۔ کبھی یہ شعبہ بڑا نیک نام تھا، استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا جاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ بچے کو تعلیم و تربیت کے لیے استاد کے حوالے کرتے ہوئے کہا جاتا تھا کہ ’’ہڈیاں ہماری کھال آپ کی‘‘ اس کا یہ مطلب ہوتا تھا کہ بچے کی تربیت کے لیے اساتذہ جو بھی طریقہ اختیار کریں گے۔ والدین کو اس پر رتی بھر اعتراض نہ ہو گا۔

طالب علم بھی جانتا تھا کہ زندگی کی تعمیر و ترقی میں استاد کا کیا مقام ہے۔ یہی قابل استاد اسے زمین سے آسمان پر لے جائے گا۔ اسی طرح استاد کو بھی اپنی ذمے داریوں اور اہمیت کا اندازہ تھا، وہ جوہر قابل کو تراش خراش کر انمول ہیرا بنا دیتا تھا۔ استاد اور شاگرد کا مقدس رشتہ ہمیشہ قائم رہتا تھا۔ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد اور اعلیٰ مقام حاصل ہونے کے باوجود کہیں بھی استاد نظر آئیں مہذب شاگرد کھڑے ہو کر انھیں تعظیم دیتے تھے۔ ان کے لیے کرسی چھوڑ دیتے تھے۔

اسی طرح اساتذہ بھی اپنے شاگردوں کو اعلیٰ عہدوں اور امتیازی مقام پر فائز دیکھ کر خوش ہوتے۔ انھیں سراہتے تھے۔ انھیں ان کے ناموں سے یاد رکھتے تھے۔ لیکن آج؟ استاد کی حیثیت صرف ملازم کی ہے۔ اب شاگرد تعلیمی ادارے کے مالک کے ’’کلائنٹ‘‘ ہیں، جن کے والدین کی گالیاں بھی استاد کو سننی پڑتی ہیں کہ وہ ادارے کا ذاتی ملازم ہے۔

رہ گئے سرکاری کالجوں کے اساتذہ ان کا رعب اور وقار اب بھی قائم ہے لیکن صرف اس حد تک کہ ان کی ملازمت پکی ہے، اس لیے وہ اپنا حق استعمال کرتے ہوئے طالب علموں کو غلط باتوں پہ روکتے بھی ہیں اور سرزنش بھی کرتے ہیں۔ لیکن کس حد تک وہ آزاد ہیں؟ یہ بھی سن لیجیے۔ کسی سیاست دان یا فوج یا پولیس کے کسی افسر کے سپوت کو ڈانٹ دیا تو اگلے ہی دن پرنسپل کے ذریعے اندرون سندھ ٹرانسفر کی دھمکی۔ خود پرنسپل حضرات بھی دباؤ میں کہ کہیں مذکورہ شخص کی پہنچ سیکریٹریٹ تک نہ ہو۔

آخر کو ان کی سالانہ خفیہ رپورٹ بھی تو ڈائریکٹر کالجز ہی کو لکھنی ہے۔ گویا اب استاد کی قابلیت ایک جرم اور دیانت داری ایک عذاب۔ آرام سے صرف وہ اساتذہ ہیں جو سفارشوں اور جعلی ڈگریوں کی بدولت بام عروج پہ جھنڈے لہراتے پھرتے ہیں۔ پڑھانا خاک نہیں، ساری توجہ کوچنگ سینٹروں پہ یا ہڑتالیں کروا کر انتظامیہ اور اساتذہ کے درمیان ’’بیچ کا آدمی‘‘ بن کر خود اپنے اور اپنے ٹولے کے لیے حکومت سے مراعات حاصل کرنا اور اساتذہ کو جبراً کلاسوں کے بائیکاٹ کی طرف دھکیلنا۔

اب دیکھیے اس تکلیف دہ صورتحال کو جس پر آج ہم سب نوحہ کناں ہیں اور وہ ہے بزرگوں اور برابر والوں کے ساتھ نئی نسل کا تکلیف دہ اور توہین آمیز رویہ۔ اب وہ تہذیب کہیں کھو گئی جب راہ چلتے بچے اور نوجوان محلے کے کسی بھی بزرگ کو دیکھ کر سلام کے لیے ہاتھ اٹھاتے تھے، انھیں راستہ دیتے تھے، انھیں سڑک بھی پار کروا دیتے تھے۔

اور ان سے ڈرتے بھی تھے کہ کوئی غلط بات کی تو اطلاع گھر تک ضرور پہنچے گی اور گوشمالی بھی ہو گی۔ لیکن اب یہ سب قصہ پارینہ ہوا، بزرگوں کو سلام کرنا اور راستہ دینا تو دورکی بات، اگر کوئی شتر بے مہار نسل سے دکان یا اپارٹمنٹ کے داخلی راستوں سے موٹر سائیکل یا گاڑی ہٹانے کو کہے۔

تو وہ ایک ادا سے پیشانی کے بال جھٹک کر کہتے ہیں ’’بڑے میاں سائیڈ سے نکل جاؤ، بھیجہ مت کھاؤ۔‘‘ والدین کا یہ حال کہ ان کے بچوں کے کرتوت اگر کوئی ہمت کر کے انھیں بتائے تو وہ انھی کے گلے پڑ جاتے ہیں۔ نتیجہ تب سامنے آتا ہے جب یا تو صاحبزادی کسی سائبر کرائم میں پھنس کر عزت گنوا بیٹھتی ہیں یا صاحبزادے کالج کے بجائے لڑکیوں کے ساتھ کسی پیزا یا برگر پوائنٹ پہ پائے جاتے ہیں۔ نوجوان نسل کی یہ بے راہ روی اور ان میں سے بڑوں کے احترام کا ختم ہو جانا اس تباہی کی دلیل ہے جو آیندہ آنے والی ’’مادر پدر آزاد‘‘ نسلیں بھگتیں گی۔

اب ذرا ادھر بھی توجہ دیجیے کہ رشوت لینے پر؟ ناجائز ذرایع سے دولت جمع کرنے پر؟ حج تک میں کرپشن کے ذریعے مال بنانے پر؟ اسلحہ، اور ہیروئن کی اسمگلنگ پر، فیشن ماڈلنگ اور شوبز کی دنیا میں فحاشی، عریانی اور بے حیائی کے ساتھ ’’بڑے‘‘ لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر اور ان افعال کو احساس فخر کے ساتھ کیا پہلے بھی بیان کیا جاتا تھا؟ یقینا نہیں۔ اگر کسی سرکاری ملازم کا مکان اور رہن سہن اس کی تنخواہ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ نظر آتا تو وہ محلے والوں سے نظریں چراتا تھا۔

کچھ جیالے گھر کے باہر جب ’’ہٰذا من فضل ربی‘‘ جلی حروف میں لکھواتے تھے تو کردار اور بھی مشکوک ہو جاتا تھا۔ ’’فضل ربی‘‘ کا استعارہ آج بھی مستعمل ہے۔ لیکن اب گھروں کے باہر کچھ لکھوانے کی ضرورت نہیں۔ سب کچھ سیاہ و سفید کی طرح واضح ہے۔ اب کرپشن قابل فخر ہے۔ ایماندار اور دیانت دار لوگ احمق اور بے وقوف کہلاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی اولاد خود انھیں ایمانداری کے طعنے دیتی ہے۔ یہ لوگ اب ’’آؤٹ آف ڈیٹ‘‘ ہیں۔ سفارش اور کسی بھی قیمت پر عہدہ ، مراعات، ہوائی سفر، ایوارڈ، انعامات، صدارت اور ’’بہت کچھ‘‘۔ یہ سب حاصل کرنے کے لیے خواتین و حضرات دونوں پیش پیش ہیں۔

افسوس کہ ’’ادب‘‘ میں ان معاملات میں خواتین کا پلڑا بھاری ہے۔ کس طرح شہرت ملنی ہے؟ کس کے چرن چھو کر عہدہ ملنا ہے، کن کن کو خوش کر کے ایوارڈ اور کتابیں اپنے نام کرنی ہیں؟ بدنامی کی دھول کو کس طرح اور کس کی سرپرستی سے ماتھے کا جھومر بنانا ہے؟ یہی سب ہر طرف نظر آتا ہے۔ اور یہی سکہ رائج الوقت ہے۔

دریائے ادب کے مگرمچھوں سے بیر رکھنا حماقت ہے۔ چکا چوند روشنیوں میں جو چہرے نظر آتے ہیں، ان کے پیچھے کتنی تاریک راتیں چھپی ہیں، جانتے تو سب ہیں لیکن بولتا کوئی نہیں، کیونکہ جو بھی اپنے قلب سے ان سچائیوں کو سامنے لائے گا، اس کے خلاف اندھیروں سے اجالوں کے اسٹیج تک کے مسافر ان کے خلاف محاذ بنالیں گے۔ اور جیتے جی اسے مار دیں گے۔

کیا سماجی رویوں اور ادب کے سربستہ راستوں میں یہ ہولناک تبدیلی سوسائٹی کے ڈھانچے کو تباہ نہیں کر رہی؟ آج باعث افتخار یہ ہے کہ فیشن کی دنیا سے وابستہ حسینائیں برملا اہل اقتدار اور اہل ہوس سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتی ہیں۔ جن ماؤں کے ننگے سر کسی نے نہیں دیکھے تھے۔ آج ان کی بیٹیاں سرعام اپنی قیمت خود لگاتی ہیں۔

اور مائیں فخریہ اپنی بیٹیوں کو سجا بنا کر تعلقات استوار کرنے کی راہ بتاتی ہیں کہ زمانہ انھی کا ہے۔ فحاشی، دولت، کرپشن اور تعلقات یہی کامیابی کے وہ قفل ہیں جن کو کھول کر سب کچھ حاصل ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔