خرابی کی جڑ

شکیل صدیقی  اتوار 22 مارچ 2015

ذرایع ابلاغ میں چاہے اخبارات ہوں یا الیکٹرونک میڈیا، حالات کا صحیح تجزیہ کرنے کا فقدان پایا جاتا ہے۔ وہ حکمرانوں کو کیمرے کے فوکس میں لیے رہتے ہیں اور ان کے ہی بخیے ادھیڑتے رہتے ہیں۔ پس منظر میں کیا ہے جو مخفی ہے اور پیش منظر میں کون کہاں کھڑا۔ تاریخ کے اوراق میں کیا کچھ لکھا ہے، جس کی سیاہی تک مٹ چکی ہے اور ہم ہیں کہ ایک گم گشتہ جنت کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔

حکمران چاہے آمر ہو چاہے سول سیکٹر سے، ہر دور میںایک ہی طبقہ حکمرانی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ وہی کھاتا پیتا طبقہ جو ان پڑھ، مفاد پرست اور صرف اپنی سرزمین سے نہیں بلکہ اپنی زمین سے محبت کرنیوالا ہے۔

یہ ہر دور میں ہر حکمراں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک حکمراں پارٹی میں اور دوسرا اپوزیشن میں (تاکہ جب اپوزیشن آیندہ حکمراں ہو تو خاندان کا کوئی نہ کوئی اقتدار میں ہو)، اور چچا ماموں قانون نافذ کرنے والے ادارے میں بھی ہوتے ہیں۔ نہ بھی ہو تو پولیس اس کے انگوٹھے کے نیچے ہوتی ہے۔ گویا اسے ہر طرف سے تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ آپ اسے کہیں سے انگلی بھی نہیں لگا سکتے۔

زرعی اصلاحات مسلم لیگ حکومت نے 1950 میں نافذ کردی تھیں، مگر حقیقی تجزیہ کیا جائے تو لیگ اس معاملے میں سنجیدہ اور مخلص نہ تھی۔ لیکن مشرقی پاکستان میں 1950 کی ان اصلاحات پر ایک برس بعد ہی عملدرآمد شروع ہوگیا۔ جس کے نتیجے میں وہاں کی سیاست میں ترقی پسند اور انقلابی طبقے کے عمل دخل میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔

یہ صورت حال مغربی پاکستان کے حکمرانوں کے لیے پریشان کن تھی۔ بنگالی، مغربی پاکستان کے ان جاگیرداروں کے مفاد کے لیے خطرہ بن چکے تھے جو یہاں کی سیاست پر چھائے ہوئے تھے۔

1951 اور 1955 کے انتخابات میں 80 اور 90 فیصد نشستیں سندھ اور پنجاب کے زمینداروں کے پاس تھیں۔جب ایوب خان نے 1958 میں اقتدار پر قبضہ کیا تو انھوں نے فرض کرلیا کہ بغیر اصلاحات کے یہ ملک ترقی نہیں کرسکتا، اس لیے کہ ملک کا ہر شعبہ بری طرح سے بگڑ چکا ہے اور اس کی اصلاح کرنا ان کا فرض ہے۔ وہ خود کو ایک انقلابی ریفارمر سمجھتے تھے، لیکن حقیقت یہ کہ ان کی طبیعت انقلاب انگیز نہ تھی۔

ان کے کردار میں میانہ روی، مصلحت اندیشی اور اعتدال پسندی کے عناصر غالب تھے۔ کسی شعبے میں انقلاب لانا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب کے نام پر وہ معمولی سی چھان پھٹک اور جھاڑ پونچھ کے علاوہ کوئی دوررس کارنامہ انجام نہ دے سکے۔

گرد و پیش پر نظر ڈالنے سے انھیں احساس ہوگیا کہ انڈیا اور ایران میں زرعی اصلاحات نافذ ہوچکی ہیں اور وہاں کسانوں کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہورہا ہے، زراعت اپنے عروج پر ہے۔ انھیں ایک دانشور نے سمجھایا تھا: ’’اگر آپ جانبدار ہوکر سوچیں گے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ زمینداری نظام کسی بھی ملک کے لیے سب سے بڑی لعنت ہے۔

پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ زمین کی ملکیت کے نظام میں حقیقت پسندی سے کام لیا جائے اور سماجی انصاف حاصل کرنے کے لیے بنیادی اقدامات کیے جائیں۔‘‘ چنانچہ انھوں نے مغربی پاکستان میں بھی زرعی اصلاحات نافذ کردیں، جس کی رو سے ایک شخص پانچ سو ایکڑ غیر بارانی اور ایک ہزار ایکڑ بارانی زمین رکھ سکتا ہے۔

اس کے علاوہ یہ رعایت بھی دی کہ وہ ڈھائی سو ایکڑ زمین اپنے عزیز و اقارب کو منتقل کرسکتا ہے۔ باغ کے فارم کے لیے ڈیڑھ سو ایکڑ زمین اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ اس طرح سے زمینداروں نے کافی زمین زرعی اصلاحات سے بچا لی۔ ایوب خان کی زرعی اصلاحات کو اس حد تک بہتر سمجھا جاسکتا ہے کہ اس کے ذریعے پہلی بار سرکاری طور پر زرعی اراضی کی حد ملکیت مقرر کی گئی۔ لیکن جاگیرداروں کے طاقتور ہونے کے سبب ان اصلاحات پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔

30 نومبر 1967 میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو اس سے پیشتر تذبذب کا شکار تھے، وہ مسلم لیگ میں بھی شامل ہونا چاہتے تھے اور انھوں نے نیشنل عوامی پارٹی کا جنرل سیکریٹری بننے کا عندیہ بھی ظاہر کیا تھا۔ ترقی پسند طبقے نے انھیں استعمال کرنے کے لیے اپنا وزن ان کے پلڑے میں ڈال دیا، جس میں پاکستان سوشلسٹ پارٹی بھی شامل تھی۔ پیپلز پارٹی کا مینی فیسٹو تیار ہوا اور اس میں جاگیردار طبقے کے خلاف جتنی بھی باتیں ہوسکتی تھیں وہ سمو دی گئیں۔

پارٹی کا نعرہ تھا: روٹی، کپڑا اور مکان۔ پارٹی کے پروگرام میں یہ بھی شامل تھا کہ جاگیرداری کا خاتمہ کردیا جائے گا اور زمین کسانوں میں تقسیم کردی جائے گی۔31 مارچ 1970 کو لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت آیندہ انتخابات اور انتقال اقتدار کا اعلان ہوتے ہی بھٹو نے ملک کے گوشے گوشے کا دورہ کیا اور پارٹی ٹکٹ وڈیروں اور جاگیر داروں میں تقسیم کردیے۔

اس لیے کہ ہاری کا ووٹ بھی تو لینا تھا، جو زمیندار کے توسط سے ہی ملتا۔ پیپلز پارٹی کے جھنڈے شہروں میں تو لہرا رہے تھے اب دیہی علاقوں میں بھی لہرانے لگے۔ دو اور دو چار کی طرح نتیجہ یہ نکلا کہ ان پڑھ، گنوار اور مفاد پرست طبقہ اسمبلیوں میں آکر بیٹھ گیا، جو سوشلزم کے اصول تو درکنار اس کے معنی اور مفہوم تک نہیں جانتا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو بہرحال ایک ہوشیار، بیدار دماغ اور زیرک لیڈر تھے، انھوں نے زرعی اصلاحات نافذ کیں۔ بھٹو کی اصلاحات کا فائدہ یہ ہوا تھا کہ مالیہ، آبیانہ اور بیج زمیندار کے ذمے لگایا گیا۔ بھٹو کے بعد ضیاء الحق نے عنان حکومت سنبھال لی۔

ظلم تو یہ ہے انھوں نے جاگیردار طبقے کے دباؤ میں آکر بھٹو کی اصلاحات پر پانی پھیر دیا۔ انھوں نے ایوب خان اور بھٹو کے زمانے میں ہونے والی زرعی اصلاحات کے دوران زمینداروں سے حاصل ہونے والی زمینیں انھیں واپس کردیں۔شفع کا قانون بنا کہ اگر زمیندار اپنی زمین فروخت کرے گا تو پہلا حق کسان کا ہوگا۔ ان اصلاحات کو لاحاصل اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے ذریعے پہلی بار لامحدود کو محدود کیا گیا۔ البتہ ضیاء الحق کے دور میں یہ قانون ختم کردیا گیا۔

کسانوں سے یہ حق واپس لے لیا گیا۔ انھوں نے تو یہاں تک سختی کردی کہ اب کسان اپنے پیسوں سے زمین بھی نہیں خرید سکتا۔اس طرح سے ضیاء الحق حکومت جنرلوں اور جاگیرداروں کے ذریعے چلتی رہی۔

سب حکمران ایک ہی قطار میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ تقسیم سے لے کر اب تک صورت حال جوں کی توں ہے۔ اسمبلیوں میں یہی ان پڑھ طبقہ آکر بیٹھ جاتا ہے اور ہماری قسمتوں کا فیصلہ کرتا ہے۔ شہروں میں روشنی ہے۔

بلند عمارات ہیں، کشادہ سڑکیں ہیں اور علاج معالجے کی فوری سہولیات۔ مگر کیا کسی نے دیہی علاقوں کی طرف آنکھ اٹھا کر  دیکھا، جہاں کسی کسان کے پالتو جانور کسی وڈیرے کی زمین سے گزر جائیں تو وہ انھیں اٹھا لیتا ہے، اسلام اسے سکھاتا ہے کہ خدا عظیم ہے، لیکن کسان کے دماغ سے اس وقت اسلام نکل جاتا ہے جب کھیتوں میں ساری زمین کا مالک زمیندار ہوتا ہے اور جو اسے بھوکا مار سکتا ہے۔ بھوک سب کچھ کروا دیتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔