کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

شیریں حیدر  اتوار 22 مارچ 2015
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ایک مسیحی بھائی کی ای میل آئی کہ پاکستان اور بیرون ممالک کے سیکڑوں اخبارات نے سانحہ یوحنا آباد کی مذمت کی ہے اور کالم نگاروں نے کالم لکھے ہیں ماسوائے چند کے… جن میں سے ایک میں بھی ہوں ، جب کہ میں نے اس سے قبل کسی قومی سانحے سے یوں چشم پوشی نہیں کی۔ معذرت چاہتی ہوں اگر آپ کو یوں محسوس ہوا کہ میرا اس بابت کالم نہ لکھنا کسی مذہبی اختلاف کے باعث ہے مگر میں نے اس لیے نہیں کچھ لکھا کہ کیا لکھیں بھائی؟ ہمارے لکھنے سے کسی کے کانوں پر کوئی جوں رینگتی ہے کیا؟

ایک گھر میں چند افراد کے رہنے سے بھی اختلاف رائے اور اپنی اپنی طبیعت کے مطابق ہر کسی کا رویہ ہوتا ہے مگرگھر کے بڑے ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے گھر کی بات کو گھر میں ہی نمٹا لیا جائے نہ کہ اندرونی معاملات میں دوسرے مداخلت کریں ۔

پاکستان میں بھی ہم مختلف مذاہب کے لوگ، مختلف ذات برادریاں رکھنے والے، مختلف زبانیں بولنے والے، مختلف سوچ اور رویے رکھنے والے، مگر ایک پہچان یعنی پاکستانی!!

سانحہ یوحنا آباد، بلا شبہ ہمارے منہ پر ایک اور طمانچہ ہے، سانحہ پشاور کے بعد حکومت نے حفاظتی اقدامات کیے اور اسکولوں کے مالکان کو حکم دیا کہ وہ اپنے اداروں کے حفاظتی اقدامات کو بہتر بنائیں، کیونکہ حکومت نااہل اور ناقابل ہے اور اس کے بس کی بات ہی نہیں کہ عوام کو جان اور مال کا تحفظ فراہم کر سکے۔

اگلا نشانہ امام بارگاہ پھر عید میلاد النبی کی محفل بنے تو حکومت کو سمجھ میں نہ آیا کہ اب کسے کہیں کہ اپنے حفاظتی اقدامات بہتر کریں!!! حال ہی میںیوحنا آباد میں چرچ عین اس وقت دہشت گردی کا نشانہ بنے جب اندر دعا جاری تھی اور لوگوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ ہر سانحہ ہمیں نا قابل تلافی نقصان سے دو چار کر کے جاتا ہے اور ہم سانپ کے گزر جانے کے بعد لکیر پیٹتے رہ جاتے ہیں، ہمیں قبل از وقت علم بھی ہو جاتا ہے کہ فلاں شہر میں، تعلیمی اداروں میں، عبادت گاہوں میں یا کہیں نہ کہیں دہشت گردی کا خدشہ ہے، حکومتی ذمے دار اداروں کی طرف سے تنبیہ کی جاتی ہے۔ اگر یہ مخبری ہو جاتی ہے کہ دہشت گردی کا کوئی منصوبہ تیار ہے، دہشت گرد فلاں شہر میں، فلاں حلیے میں داخل ہو چکے ہیں تو پھر ان حملوں کو روک نہ سکنا ہماری حکومت کے ماتحت سکیورٹی اداروں کی ناکامی کے سوا اور کیا ہے؟

آئے دن ہم خبریں پڑھتے ہیں کہ کسی جیب کترے کو ، کسی چور اچکے کو، کسی ڈاکو یا مجرم کو پکڑ کر، عوام بپھر کر سر عام ’’ عدالت ‘‘ لگا لیتے ہیں، خود ہی مجرم قرار دیتے ہیں، خود ہی سزا مقرر کر لیتے ہیں اور خود ہی اس پر عمل درآمد کرنا شروع کر دیتے ہیں، تماشہ دیکھنے والے بھی تماشے کو صرف دیکھ کر محظوظ نہیں ہوتے بلکہ خود بھی ’’ کار خیر ‘‘ میں شامل ہو کر مجرم کو انجام تک پہنچاتے ہیں۔ اس سارے منظر کی ٹیلی فونوں پر ویڈیو بنتی ہیں۔

چینلز کو دی جاتی ہیں، انھیں بھی چٹ پٹی خبریں ملتی ہیں، یو ٹیوب پر upload کرتے ہیں تو دنیا ہماری سر عام درندگی کے تماشوں کر دیکھ کر ہمیں برا بھلا کہتی ہے، جن ممالک میں کتے بلیوں کے بھی حقوق ہیں وہ جب انسانوں کا ’’ حشر‘‘ ہوتے ، سڑکوں پر عدالتیں اور پھانسی گھاٹ لگتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کرنے والے، دیکھنے والے، تماشے سے محظوظ ہونے والے، چینلز اور یو ٹیوب پر لگانے والے سب اس کام میں شریک ہیں، کوئی غلط کام کو ہونے سے روکنے کی کوشش نہیں کرتا ( انھیں کیا معلوم کہ بپھرے ہوئے ہجوم کو روکنے کی کاوش کرنے والے ملزمان کے ساتھی سمجھے جاتے ہیں)نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں ظالم، وحشی اور بے رحم کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔

ہمارے ملک کا نام لیتے ہی ان کے اذہان میں ایک ایسا ملک آ جاتا ہے جہاں بربریت عروج پرہے۔جہاں زندہ انسان مرنے والوں کی میتیں سڑکوں پر رکھ کر ملک بھر کا نظام ساکت کر سکتے ہوں مگر کسی حکمران کا ضمیر پھر بھی نہ جاگتا ہو نہ کسی کے کان پر جوں رینگتی ہو… جہاں ووٹ اہلیت نہیں بلکہ اپنی جان اور عزت بچانے کی خاطر انھیں دیے جائیں جن کے پاس آپ کے خاندان اور اگلی کئی نسلیں گروی رکھی ہوئے ہوں ۔

جہاں تعلیم کی ضرورت سمجھی جائے نہ اہمیت ،جہاں لوگ جائے حادثہ کے قرب و جوار میں موجود ہر شخص کو مجرم سمجھ کر اسے ’’ کیفر کردار ‘‘ تک پہنچانے کے لیے کسی قانونی طریقے پر اعتبار نہیں کرتے، نہ ہی انتظار… بے گناہوں کو عبرت ناک موت سے ہمکنار کرتے ہیں اور مجرم آزاد، مگر پھر بھی حکومت کچھ نہیں کر سکتی۔ 2010ء میں سیالکوٹ میں ہونے والا اس نوعیت کا پہلا واقعہ جسے وہاں موجود لوگوں نے یو ٹیوب پر upload کیا اور دنیا بھر میں ہماری خوب رسوائی ہوئی۔

اگر بربریت کے اس مظاہرے کے ذمے داروں کو عبرت ناک سزا دی گئی ہوتی تو اس کے بعد اس ملک میں اس نوعیت کا کوئی اور واقعہ رونما نہ ہوتا مگر بدقسمتی سے ہم اس ملک میں رہتے ہیں جہاںسگ آزاد اورسنگ و خشت قید میں ہیں۔کیا کبھی کسی نے سوچا کہ ہمارے لوگ اچانک اس قدر مشتعل کیوں ہو جاتے ہیں اور اس اشتعال میں ان کی زد میں آجانے والا، بے قصور ہونے کے با وصف، ایک برے انجام سے کیوں دوچار ہوتا ہے کہ اس کا انجام موت پر کیوں منتج ہوتا ہے۔

کیونکہ لوگوں کا اعتماد حکومت اور حکومتی اداروں پر سے اٹھ چکا ہے، انھیں معلوم ہے کہ پکڑا جانے والا مجرم جیل میں بھی ہر طرح کی مراعات حاصل کر لے گا، سالوں مقدمہ چلتا رہے گا، کسی نہ کسی وکیل کو خرید کر وہ اپنے حق میں فیصلہ کروا لے گا !! آج نہیں تو کل، ہمارے ناقص قانونی نظام کے باعث بچ کر نکل جائے گا اور اسی طرح دندناتا پھرے گا۔

ملک میں عرصہ دراز سے معطل پھانسی کی سزا کو، سولہ دسمبر کے سانحہ پشاور کے بعد بحال کیا گیا ہے مگر ساڑھے تین ماہ کے عرصہ میں کسی نہ کسی عذر کے باعث اب تک کس قدر کم سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا ہے، کچھ تو ایسا ہے کہ انصاف فراہم کرنے والے اپنے ہاتھوں کو بندھا ہوا پاتے ہیں۔

یوحنا آباد میں ہونے والا حالیہ سانحہ بلاشبہ اسلام دشمنوں ہی کی سازش ہے کہ مسلمانوں کے خلاف مسیحی برادری کے دلوں میں نفرت پیدا کی جائے اور انھیں یہ احساس دلایا جائے کہ اس ملک میں ان کا استحصال ہو رہا ہے۔ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں، وہ بربریت کے علمبردار درندے ہیں۔

ہمارے مذہب میں بھی دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے آزادی ہے اور ملکی منشور میں بھی ہمارے جھنڈے میں اقلیتوں کی نمایندگی کرتا سفید رنگ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اس ملک میں ہر مذہب کے لوگوں کے لیے پوری آزادی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔