عورت کی جائز آزادی

نسیم انجم  اتوار 22 مارچ 2015
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

پچھلے دنوں ای میلز عورت کی بے جا آزادی کے حوالے سے آئیں اور اس بات پر زور دیا گیا کہ آزادی نسواں کی اہمیت اور نقصان کے بارے میں ضرورخامہ فرسائی کروں۔8 مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منایا گیا اور ہمیشہ کی طرح عورت کے حقوق کی ادائیگی کی بات بھی کی گئی۔

ان ہی حالات کے تناظر میں ایک سچا واقعہ یاد آگیا ہے، بدنصیب خاتون کا نام ہم سلمیٰ تصور کرلیتے ہیں، سلمیٰ نے اپنی کہانی اس طرح بیان کی کہ میرا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جہاں بے جا پابندیاں مجھ جیسی لڑکیوں کو بغاوت کرنے یا خودکشی کرنے پر مجبور کرتی ہیں اگر دونوں خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے مواقعے میسر نہیں آتے ہیں تب ارمانوں کی چتا من کے اندر ہی اندر خوب سلگتی ہے اور جب موقع ملتا تو آگ، دھواں اور شعلے باہر آجاتے ہیں۔

پھر تن، من جل کر خاکستر ہوجاتا ہے ایسا ہی میرے ساتھ ہوا، اسکول و کالج میں خوب خوب ڈراموں اور محفل موسیقی میں حصہ لیا، دھمال کیا، گیت گائے، رقص کیا، بڑے فنکاروں کی نقالی کی اور اپنی صلاحیتوں کی بدولت اول انعام حاصل کیا۔ ابا کو تو پتہ ہی نہ چلا کہ میں ان کی مرضی کے خلاف اسٹیج پر پرفارمنس کر رہی ہوں، ہاں البتہ ابا، اماں کو میرے فیشن اور جدید لباس کی تراش خراش پر اعتراض تھا، میرے ہیئرکٹ پر بھی وہ سخت ناراض تھے۔

میں نے اپنے ماں باپ سے بارہا کہا کہ آج ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی مغرب کی آزادی کو جسے آپ بے حیائی کہہ رہے ہیں، ہم اسے فیشن اور ماڈرنزم کہتے ہیں۔ اگر ہم یہ سب کچھ نہ کریں تو کالج کی لڑکیاں ہمیں پینڈو کہتی ہیں اور ہمارے تعلیمی ادارے بھی تو ہمیں فنکار بنانے کے لیے پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔گویا یہ پہلی سیڑھی ہے جس پر چڑھتے ہوئے سر سے دوپٹہ اتارنا ہی پڑتا ہے، لیکن ابا کی ڈانٹ ڈپٹ میں میری تقریر دھری کی دھری رہ جاتی، کہ وہ ٹھیک ہی کہتے تھے کہ باپردہ لڑکیاں بھی تو ان ہی اداروں میں پڑھتی ہیں، لیکن میں ان کی دلیل کو نظرانداز کرکے وہی کچھ کرتی جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔

میں دور جدید کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہواؤں میں اڑ رہی تھی،ان ہی دنوں مجھ پر انکشاف ہوا کہ اماں ابا نے میری شادی طے کردی ہے، میرے لاکھ انکار پر میری شادی ایک بے حد شریف النفس شخص اعجاز سے ہوگئی، وقت پر لگا کر اڑتا رہا، اسی دوران میں دو بچوں کی ماں بن گئی، لیکن ماں کا حق اور کردار میرے شوہر اعجاز نے ادا کیا، مجھے تو ٹی وی و فلم کی اداکارہ بننے کا شوق تھا اعجاز جب دفتر چلے جاتے تب میں بچوں کو کبھی کمرے میں بند کرکے، تو کبھی کھلا چھوڑ کر اپنے شوق کی تکمیل کے لیے ٹی وی اسٹیشن اور فلم پروڈیوسروں کے دفاتر کے چکر لگاتی، وہ مجھ سے جھوٹے وعدے کرتے اور میں ان کے وعدوں کے وفا ہونے کا انتظار کرتی۔

ان ہی دنوں ایک ایسا حادثہ پیش آیا کہ میرے بڑے بیٹے ارسلان کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور وہ سڑک پر پڑا تڑپتا رہا جب تک اسے لے کر اسپتال پہنچے تو وہ دم توڑ چکا تھا، وقتی طور پر تو مجھے بھی دھچکا لگا، میری مامتا تڑپی لیکن وقت نے میرے زخموں پر مرہم لگا دیا اور ایک بار پھر میں اندھیروں میں بھٹکنے لگی، کبھی دل کرتا یہ سب کچھ چھوڑ کر توبہ کرلوں، لیکن شیطان مجھے اچھی طرح جکڑ چکا تھا۔ اور میں اسی طرح اسٹیج شو کے منتظمین سے ملتی، کبھی ہیروئن بننے کے لیے ہدایتکاروں کی خوشامدیں کرتی، منت سماجت کرتے کرتے یہ بھی بھول جاتی کہ میری بھی عزت ہے۔

میں ماں ہوں، بیٹی ہوں، بیوی ہوں، اتنے مقدس رشتوں سے اللہ نے مجھے نوازا پھر میں کیوں بھٹک رہی ہوں، لیکن ٹی وی میں کام کرنے کا جنون میرے سر پر سوار تھا۔ جس دن میرا چھوٹا بیٹا نعمان سخت بیمار تھا، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا، نمونیہ خطرناک صورت اختیار چکا تھا، ہم دونوں اللہ سے دعا کر رہے تھے کہ یہ دعا ہی کا وقت تھا اسی دوران ہدایتکار ناصر کی کال آگئی، انھوں نے میری منت سماج کے بعد مجھے ایک ڈرامے میں ہیروئن کی بہن کا رول دے ہی دیا تھا اور آج شوٹنگ تھی۔

رات کے 12 بج رہے تھے۔ ایک ماں کا عجیب امتحان تھا، گاڑی آنے ہی والی تھی، ایک طرف ننھا نعمان آخری ہچکی لینے کی تیاری کر رہا تھا اور میرے میاں اللہ کے سربسجود اس کی زندگی کی دعائیں مانگ رہے تھے اسی دوران ہارن بجا، انسانیت مرگئی، فنکار جاگ گیا، شہرت کی طلب عروج پر پہنچ گئی، میں نے اپنی آغوش سے نعمان کو علیحدہ کیا اپنی جگہ سے اٹھی، بھڑکیلا لباس پہنا، ہونٹوں پر لپ اسٹک لگا کر باہر کی طرف دوڑی، اعجاز کی آواز میرے کانوں میں گونجی ارے بدنصیب عورت کیوں جہنم کی طرف جا رہی ہے، بچہ بیمار ہے چند ساعتوں کا مہمان۔ میں نے مڑ کر کہا بس ایک سین کی شوٹنگ ہے۔

دس منٹ بعد لوٹ آؤں گی۔ اور پھر جب میں واپس آئی تو سب کچھ ختم ہوچکا تھا، میں تو برباد ہو ہی گئی تھی۔ میرا گھر بھی تباہ ہوگیا تھا، نعمان مرچکا تھا، اعجاز نے مجھے دھکے دے کر باہر نکال دیا تھا اور جس وقت میں خودکشی کرنے سمندر پر پہنچی تو میری بدنصیبی نے ایک بار پھر مجھے گلے لگا لیا۔ پولیس نے مجھے بچالیا تھا، میں دارالامان میں ہوں۔

نہ مرتی ہوں اور نہ جیتی ہوں، ہاں ایک سبق بن گئی ہوں ان لڑکیوں کے لیے جو دولت اور شہرت کی چکاچوند سے متاثر ہوکر اپنی زندگی کو داؤ پر لگا دیتی ہیں۔

یہ تو ایک کہانی تھی جو بذریعہ میل مجھے موصول ہوئی، لیکن ہمارے معاشرے میں ایسی ہزاروں کہانیاں بکھری پڑی ہیں اور اپنی داستان الم باآواز بلند بیان کر رہی ہوں، حال ہی میں طوبیٰ اور ایک دوسری لڑکی کی کہانی بھی منظرعام پر آئی جس کی نیٹ کے ذریعے طوبیٰ سے ملاقات ہوئی، طوبیٰ اور اس کے دوستوں نے اس معصوم لڑکی کو قتل کردیا اور لاش کے ٹکڑے ایک سوٹ کیس میں بند کر کے لاش کو پھینک دیا گیا۔

ہمارے معاشرے میں آئے دن خواتین کو کبھی کاری کہہ کر تو کبھی اپنے عیب چھپانے اور جائیداد حاصل کرنے کے لیے قتل کردیا جاتا ہے، کوئی پرسان حال نہیں، قاتلوں کو پکڑنے اور سزا دینے والا نہیں، ہر سال 8 مارچ کو اس بات کا عہد پوری دنیا میں کیا جاتا ہے کہ عورت کے حقوق اسے منتقل کیے جائیں گے لیکن تمام باتیں جھوٹی ثابت ہوتی ہیں، پوری دنیا میں عورت اور معصوم بچیوں کے ساتھ تشدد اور زیادتی کے قصے عام ہوگئے ہیں، بھارت میں سب سے زیادہ ایسے سانحات جنم لیتے ہیں ہمارا ملک بھی کسی سے پیچھے نہیں ۔

جہاں بے جا آزادی کی راہ کو ہموار کیا گیا، وہاں عورت کو جہیز کی شکل میں کمائی کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے، جہلا میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اگر غریب والدین لڑکی کو زیادہ جہیز نہ دے سکیں تو اس صورت میں لڑکی کو زندہ جلا دیا جاتا ہے، جہیز لینے دینے کے لیے پابندی قانونی شکل میں ناگزیر ہونی ضروری ہے، ورنہ عورت کا استحصال ہوتا ہی رہے گا، کم عمری اور بے جوڑ شادیاں بھی عورت کی زندگی میں زہر بھر دیتی ہیں۔ یہ سب برائیاں تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے بہت تیزی سے پھیلی ہیں۔ تمام مذاہب سے کہیں زیادہ دین اسلام نے عورت کو عزت و تحفظ دونوں عطا فرمایا ہے۔

ورنہ طلوع اسلام سے قبل عورت کو دیوی دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا تھا دنیا کے دوسرے ممالک اور مذاہب میں بھی عورت کو کمتر درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے، مرد کو عورت پر فوقیت حاصل تھی رومی و یونانی معاشرت میں شوہر بیوی کو قتل کرنے کا اختیار بھی رکھتا تھا، شام، فلسطین، لبنان وغیرہ میں بھی عورت کی اپنی کوئی اہمیت و وقعت نہیں تھی۔

سپارٹا کا حال تو عورت کے معاملے میں اس قدر سفاکانہ تھا کہ ناکارہ عورتوں اور بچیوں کو مار دیا جاتا تھا، عورت کسی دوسرے شخص کو مستعار بھی دی جاتی تھی، خاص طور پر اچھی نسل کے لیے۔ حیا ایمان کی شاخ ہے لہٰذا اس کی حفاظت بھی حکومت کا ہی کام ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔