30ہزار بے گھر بچے جرائم پیشہ عناصر کے آلہ کار بن گئے، سروے رپورٹ

ثنا سیف / اسٹاف رپورٹر  اتوار 22 مارچ 2015
مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث بیشتر گھرانوں کے بچے شہر کی سڑکوں پر باعزت طریقے سے روزگار بھی کماتے ہیں اور رات میں گھر لوٹ جاتے ہیں۔ فوٹو : فائل

مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث بیشتر گھرانوں کے بچے شہر کی سڑکوں پر باعزت طریقے سے روزگار بھی کماتے ہیں اور رات میں گھر لوٹ جاتے ہیں۔ فوٹو : فائل

 کراچی: کراچی کی سڑکوں پر 30 ہزار بے گھر بچے بے یارومددگار رہتے ہیں۔

بیشتر بچوں کو جرائم پیشہ عناصر منفی سرگرمیوں میں آلہ کار کے طور پر استعمال کررہے ہیں، ایکسپریس سروے کے مطابق اسٹریٹ چلڈرن کی 2 اقسام ہیں ایک وہ جو والدین کی مرضی سے روزی کمانے دوسرے ملکوں اور شہروں سے اسمگل ہوکر آتے ہیں جس میں زیادہ تر بنگالی،برمی اور افغانی بچے ہیں دوسرے وہ پاکستانی بچے جو والدین کی سختی، تشدد اور گھریلو مالی حالات سے تنگ آکر گھر چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔

ان بچوں میں مزدوری کے دوران مالکان کے تشدد سے فرار ہونے والے بچے بھی شامل ہیں اس کے علاوہ اکثر بچے گلیمر کی دنیا کی چمک دمک ،مہنگے موبائل فون اور سامان آسائش کی وجہ سے چوری کی طرف راغب ہوتے ہیں، جن کو جرائم پیشہ عناصر گاڑیوں کے شیشے نکالنے،موٹر سائیکل،موبائل فون چھیننے کی وارداتیں اورمسافر بسوں میں جیبیں کاٹنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کے پیچھے بڑے منظم گروہ سرگرم ہوتے ہیں، بیشتر اسٹریٹ چلڈرن کو گداگر مافیا بھیک بھی منگواتی ہے جو مخصوص ٹریفک سگنلز پر بھکاری کا کام کرتے ہیں۔

سگنلز پر کھڑی گاڑیوں کے شیشے زبردستی صاف کرتے ہیں اور پیسے مانگتے ہیں یا پھر مختلف چھوٹی چیزیں فروخت کرتے ہیں اگر نہ خریدیں تو بھی بھیک میں پیسے مانگتے ہیں، برمی اور بنگالی بچے جون اور جولائی میں مچھر کالونی اور ابراہیم حیدری میں مچھلی اور جھینگوں کی صفائی کا کام بند ہونے پر کراچی کی سڑکوں پر نظر آتے ہیں، اسٹریٹ چلڈرن کی کثیر تعداد ٹھیکیداروں کے ساتھ رہتی ہے ،ایک ٹھیکدار کے ساتھ 20 ، 20 بچے رہتے ہیں جو کمائی کا کچھ حصہ ٹھیکیدار کو دے کر کھانا ہوٹلوں کے باہر سے یا مانگ کر کھاتے ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن جنوبی ایشیا کی2011 کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں30ہزار سے زائد بچے غریب و مفلس پائے گئے جن میں سے1700 بچے پارکوں،کھلے میدانوں،ریلوے اسٹیشنوں اور فٹ پاتھوں پر رہ رہے تھے،سروے کے اعداد وشمار کے مطابق کراچی میں2800 بچے ہم جنس پرستی کے استحصال کا شکار پائے گئے ان میں سے بعض نے باقاعدہ جسم فروشی کو دھندہ بنالیا سروے میں مزید انکشاف کیا گیا کہ 9860 بچے کورنگی،سائٹ اور لانڈھی کے صنعتی علاقوں میں کام کررہے ہیں۔

کثیر تعداد میں بچوں سے جبری مشقت لی جارہی ہے، 11530نادار اور غریب بچے ہوٹلوں،1685ورکشاپوں، 4700 بچے شہر کے چوراہوں اور ٹریفک سگنلز پر پھول فروخت کرتے اور 12000بچے کراچی میں پیشہ ورگداگر پائے گئے، 4840 بچے کراچی کی مختلف عدالتوں میں قتل، چوری اور فوجداری مقدمات میں الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔

سڑکوں پر نظر آنے والے ان بے گھر معصوم بچوں کی عمر طویل نہیں ہوتی ان کی روزمرہ خوراک بھی اچھی نہیں ہوتی جس سے ان کی نشوونما بہتر نہیں ہوپاتی اور ان سے ہونے والے جنسی زیادتی یا کاروبار کے باعث یہ بچے مہلک انفیکشن کا شکار ہوجاتے ہیں جن میں ہیپاٹائیٹس سی،ایچ آئی وی ایڈز،گنوریہ،سفلس جیسی موذی بیماریاں شامل ہیں ان موذی بیماریوں کے لاحق ہونے سے ان معصوم بچوں کی عمر طویل نہیں ہوپاتی اور یہ بچے جان لیوا موذی بیماریوں میں مبتلا ہوکر 10سے15سال کی عمر میں ہی مرجاتے ہیں، بے گھر بچوں کی کثیر تعداد غیر معیاری ہیروئن کی زیادہ مقدار کے نشے اور لگاتار صمد بونڈ سونگھنے سے بھی مرجاتے ہیں۔

مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث بیشتر گھرانوں کے بچے شہر کی سڑکوں پر باعزت طریقے سے روزگار بھی کماتے ہیں اور رات میں گھر لوٹ جاتے ہیں ایسے بچے دکانوں اور ہوٹلوں پر کام کرتے ہیں اور واپسی پرکھانے پینے کی چیزیں اور بچوں کے کھلونے بیچتے ہیں، ساحل سمندر پر پھول فروخت کرتے ہیں،مختلف ورکشاپوں میں پنکچر لگاتے ہیں، بیشتر بچے قالین سازی،چمڑے سازی کی صنعتوں میں مزدوری اور چنگچی رکشوں میں کنڈکٹری کرتے ہیں شہر کے یہ معصوم بچے اپنے اہل خانہ کی کفالت کرتے ہیں۔

شہر میں اسٹریٹ چلڈرن کی آسائش اور تفریح کی بہترین جگہ ہر علاقے میں کھلے ہوئے منی سینما گھر ہیں جن کی تعداد 150ہے جہاں 15روپے کی چائے کے ساتھ بھارتی یا انگلش فلم مفت دکھائی جاتی ہے،ذرائع کے مطابق عیسیٰ نگری اور ناظم آباد نمبر2 میں دکانیں کرائے پر لی گئی ہیں جہاں پیسوں کا لالچ دے کر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے اور وہیں بچوں کو شراب اور نشے کا عادی بنادیا جاتا ہے،شہر میں ایک مافیا اسٹریٹ چلڈرن کو کراچی سے کوئٹہ جنسی بنیادوں پر استعمال کے لیے بھیجتی ہے، جہاں ان کو جنسی طور پر استعمال کرکے ماہانہ15سے 20 ہزارروپے ادا کیے جاتے ہیں،اسٹریٹ چلڈرن کے ساتھ جنسی زیادتی میں پولیس کے علاوہ جنسی بے راہ روی کے شکار افراد بھی شامل ہیں جو معصوم بچوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاکر ان سے جنسی تسکین حاصل کرتے ہیں۔

محکمہ سماجی بہبود نے بے سہارا بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلیے چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی پر عملدرآمد کے لیے حال ہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے اس کے علاوہ پہلے ہی سے سندھ میں حکومتی دعوئوں کے مطابق12کے قریب چائلڈ پروٹیکشن یونٹس فعال ہیں لیکن اس کے باوجود بے گھر بچے گلی کوچوں میں بے یارو مددگار نظر آرہے ہیں، یہ این جی اوز کی طرح ہی کام کررہے ہیں، واضح رہے کہ2011 میں عدالتی حکم کے مطابق حکومت سندھ اور اس کے متعلقہ ادارے بے گھر اور غریب بچوں کو پناہ،تحفظ اور تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے ذمے دار ہیں۔

ماہر سماجیات رانا آصف حبیب کے مطابق حکومت نے اسٹریٹ چلڈرن کی بحالی کیلیے خاطر خواہ کوئی اقدامات نہیں اٹھائے تویہ بچے شر پسند عناصر اور چور لٹیروں کے آلہ کار بنتے ہوئے بے راہ روی کا شکار ہوجائیں گے، جو ملک و قوم کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے کم عمری بے گھر بچے ایک موم بتی کی مانند ہیں انھیں جس شکل کے سانچے میں ڈالا جائے گا یہ ویسے ہی صورت اختیار کرلیں گے انھوں نے کہا کہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ بچوں کے اغوا اور بیرون ملک اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے خاطر خواہ اقدامات کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔