اور بستی نہیں یہ دلی ہے

انتظار حسین  پير 23 مارچ 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

ریختہ والوں کا زیادہ زور شاعری پر ہے۔ لگتا ہے کہ اردو شاعری کو از اول تا آخر سمیٹ کر کمپیوٹر کے حوالے کر دیں گے۔ پھر ریختی ان کی دستبرد سے کیسے بچ جاتی۔ ہم یہ جان کر محظوظ ہوئے کہ انھوں نے اردو شاعری کی اس صنف کو بھی جسے ثقہ لوگوں نے اپنے جوش ثقافت میں فراموش کر دیا تھا اپنے مطالعہ میں شامل کیا ہے۔ بجا کیا۔ شاعری کا ہر رنگ ثقہ ہو یا غیر ثقہ سنجیدہ مطالعہ کا تقاضا کرتا ہے۔

خیر ابھی اس کے متعلق بات کرنا قبل از وقت ہے۔ ہم کہہ یہ رہے تھے کہ یہ جو یہاں اردو میلہ بپا ہے یہاں ہجوم بہت ہے۔ سچ مچ کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔ ایک ہی وقت میں کئی کئی نشستیں پہلو بہ پہلو منعقد ہو رہی ہیں۔ جس نشست میں شریک ہونے کے لیے قدم بڑھاؤ دوسری نشست اپنے موضوع اور موضوع پر بحث کرنے والوں کا نام پکار کر کہتی ہے کہ اس نشست کو نظر انداز کرو گے تو بعد میں پچھتاؤ گے۔ جیسے ہم پچھتا رہے ہیں کہ ارے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے جو بھی سماں اپنی گفتگو میں باندھا وہاں تک ہماری رسائی نہیں ہو پائی۔ اور کرشن چندر والی نشست میں ہم ایسے وقت میں پہنچے کر کان لگائے بیٹھے ہیں اور دور کی آواز ہے کچھ سنائی نہیں دے رہا۔

تو پھر ذرا اس ہجوم سے نکلیں اور ارد گرد نظر ڈالیں۔ ارے اور بستی نہیں یہ دلی ہے۔ یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا۔ لیکن اس کی رونق تو پھر بحال ہو گئی۔ اور پھر سے بڑھ کر۔ عجب نگر ہے۔ جدھر کا رخ کرو۔ تاریخ تمہارا رستہ روکے گی کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر۔ اسی عمارت کے بغلی پھاٹک سے نکل کر ذرا سیدھے ہاتھ کی طرف مڑ کر چلو تو دور سے ایک بلند و بالا خستہ حال گنبد تمہیں پکارے گا کہ دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔ یہاں لودھیوں کے بچے کھچے آثار ہیں۔ دور دور تک سبزہ بچھا ہوا ہے۔ درخت قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔ اور لودھیوں کے مقابر۔ کونسا مقبرہ کس کا ہے نیم تاریک ایوانوں میں یا تو نام پڑھے نہیں جا رہے یا مٹ چکے ہیں۔

مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

اب یہ زمین کا ٹکڑا سیر گاہ ہے۔ جب کبھی یہاں قیام کی صورت پیدا ہوتی ہے تو ہم بھی چل پھر کر ان مقبروں پر نظر دوڑاتے ہیں۔ ارے اب تو یہ اتنے ویران ہیں کہ جو گِدھ ان گنبدوں پر بیٹھا کرتے تھے وہ بھی نظر نہیں آتے۔ ان گِدھوں کو ایسی بیماری لگی کہ یہاں سے ان کا نام و نشان مٹ گیا۔ اور چیلوں کو دیکھو کہ وہ ارد گرد منڈلاتی رہتی ہیں۔ مگر ان سے کسی گنبد پر اُتر کر کوئی چیل قیام نہیں کرتی۔

یہاں سے نکل کر ذرا چار قدم چلو اور ارد گرد نظر ڈالو تو ایک قلعہ نظر آئے گا۔ قلعہ کہاں۔ اب تو وہاں ایک کھنڈر ہے۔ لال قعہ کی عمر ہی کیا ہے۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن۔ شاہ جہاں سے یاد گار ہے۔ یہ کھنڈر تو ان گنت صدیوں کا بوجھ اٹھائے کھڑا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کا رشتہ پانڈوؤں سے ملتا ہے۔ اندر پرستھ یہیں کہیں آباد ہوا تھا۔ یدھشٹر‘ ارجن‘ بھیم‘ اور ہاں دروپدی۔ اب کسی کا کوئی نشاں نہیں ملتا ع

مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

ہاں 47ء میں جب یہاں فساد برپا ہوا تھا تو خانہ بربادوں نے اپنے اپنے محلوں سے نکل کر یہیں ڈیرا ڈالا تھا جہاں چھت برائے نام‘ باقی کھلا آسمان۔ اوپر سے بارش۔ خانہ بربادوں کے گنے خرابی در خرابی۔

ڈاکٹر الوک بھلہ ہمارے ساتھ ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ وقت ملے تو کبھی اس کھنڈر کو بھی دیکھنا۔ اس وقت تو تم میرے ساتھ چل کر شہزادہ داراشکوہ کی لائبریری دیکھو۔ یعنی وہ جگہ جہاں یہ لائبریری تھی۔ قریب ہی ہے۔ یہاں ساری جگہ آباد ہو چکی ہے۔ ایک تو محکمہ آثار قدیمہ کا دفتر یہاں قائم ہو گیا ہے۔ پھر یہ جو طلبا طالبات کی چہل پہل نظر آ رہی ہے وہ اس تقریب سے کہ یہاں ایک یونیورسٹی قائم ہو گئی ہے۔ امبید کر یونیورسٹی لائبریری کے نام چھوٹا سا ویرانہ رہ گیا ہے جیسے کوئی پرانا دھرنا دالان ہو۔ دروں کا ایک پورا سلسلہ۔

دور اشارہ کرتے ہیں ’’اور وہ خونیں دروازہ ہے‘‘۔

’’خونیں دروازہ‘‘ ہم چونکتے ہیں

’’ہاں وہی جگہ جہاں بہادر شاہ ظفر کے بیٹوں کے سر قلم کیے گئے تھے۔ سن ستاون کا آخری معرکہ اس شہر میں یہیں تو پڑا تھا‘‘۔

ڈاکٹر الوک بھلہ انگریزی میں لکھتے ہیں۔ اردو سے اس طور تعلق پیدا ہوا کہ تقسیم کے فکشن پر جب تحقیق کرنے بیٹھے تو اردو میں لکھے افسانوں کو بھی بہت کریدا۔ اردو ہندی پنجابی اور ایسی دوسری زبانوں میں اس ضمن میں جو افسانے لکھے گئے انھیں اکٹھا کیا۔ اور انگریزی میں انھیں منتقل کر کے تین چار جلدوں میں پیش کیا۔ منٹو پر بھی ایک کتاب لکھ چکے ہیں۔

ہاں ایک اور انگریزی میں لکھنے والی سے ملیے۔ ابھی تو ہم ان سے مل چکے ہیں۔ پروفیسر آل احمد سرور کی نواسی ہیں۔ مگر لکھتی ہیں انگریزی میں۔ اردو سے واسطہ اس صورت میں ہے کہ اس زبان کے کتنے فکشن کو انگریزی میں منتقل کر چکی ہیں۔ ڈاکٹر رشید جہاں پر پوری کتاب لکھی ہے۔ اور ہاں سب سے بڑھ کر یہ کام کیا ہے کہ بہت تحقیق و تدقیق کے بعد ترقی پسند تحریک کی تاریخ مرتب کی ہے۔ یہ ہیں رخشندہ جلیل۔

یہ کام تو واقعی کرنے کا تھا۔ اتنی بڑی تحریک اردو میں چلی۔ کیا کیا ہنگامہ ادب میں اس تحریک نے پیدا کیا وہ ہنگامہ خیز دور گزر گیا۔ اب یہ تحریک اردو ادب کی تاریخ کا حصہ ہے۔ اور بہت اہم حصہ۔ اس پر اب کسی نہ کسی کو تو یہ فرض ادا کرنا ہی تھا۔ یہ جائزہ لینا تو لازم آتا تھا کہ اس تحریک کی اردو زبان و ادب کی تاریخ میں کیا جگہ بنتی ہے۔

کتاب پڑھیں گے تو پھر پتہ چلے گا کہ رخشندہ جلیل نے تحقیق کر کے کیا کچھ برآمد کیا ہے مگر بتاتی تھیں کہ سجاد ظہیر کی بیٹیاں اس کام سے خوش نہیں ہیں۔ ہم نے کہا کہ ایسے کاموں میں یہ کچھ تو ہوتا ہے۔ یا تو لکھو کہ سب اچھا ہے۔ تنقیدی نظر سے جانچو پرکھو گی تو پھر اچھی بری تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہر حال بات تو کتاب پڑھنے کے بعد ہی ہو گی۔

مطلب کہنے کا یہ ہے کہ اردو ادب پر کام تو بہت ہو رہا ہے مگر اب انگریزی نے بھی تو ہمارے بیچ اس حد تک رسوخ حاصل کر لیا ہے کہ ترجموں اور تحقیق و تنقید کا بہت سا کام انگریزی میں ہو رہا ہے مگر یہ کتاب اپنی اہمیت کے اعتبار سے تقاضا کرتی ہے کہ اسے اردو میں بھی منتقل کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔