جرمنی، ماضی کے تناظرمیں

قمر عباس نقوی  پير 23 مارچ 2015

پرانی کہاوت ہے کہ دنیا گول ہے۔ وقت وحالات کی تبدیلی کے ساتھ جغرافیائی تبدیلیاں فطرت کا حصہ ہیں۔ دنیا کا بیشتر حصہ خشکی کے علاوہ سمندر، دریا، پہاڑ، آبشار پر مشتمل ہے۔ جدید دنیا کی طرح قدیم دنیا کا انسان بھی خشکی کے علاقوں کی زمین کو زیرکاشت لاکر اپنی خوراک کا بندوبست کیا کرتا تھا، موسم بہار ہوخزاں، برسات، گرمی اور سردی، یہ سب اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتیں ہیں۔ انھی موسموں کی مناسبت سے مختلف النوع فصلیں اور زرعی اجناس زراعت کے ذریعے حاصل کی جاتی ہیں۔

زمین ہی ہے جو انسانی خوراک کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ زرخیر و سرسبز زمین ہی انسان کی ماں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانوں کے درمیان فاصلہ ہے تو اس کی ثقافت رنگ ونسل، زبان، علاقائی فکری اساس کا۔ اس تضاد نے بنی نوع انسان کو جغرافیائی اور انتظامی اعتبار سے سرحدوں تک محدود کردیا ہے اور یوں دنیا مختلف خطوں میں بٹ کر ممالک میں منقسم ہوگئی۔ اس وقت پوری دنیا مختلف براعظموں، صحراؤں، سمندر کے بیچ جزائر، خشکی کے علاقوں جو قدرت کی صناعی کا شاہکار ہیں۔

’’شلر‘‘ کہتا ہے ’’دنیا کی تاریخ دنیا کا ایوان عدالت ہے‘‘۔ کمزور اقوام طاقتور اقوام کے زیرسایہ بنیادی حقوق کی پامالی کا شکار ہیں۔ تاریخ کو ماضی کے تناظر میں دیکھیں تو جنگ عظیم سے قبل سپر طاقت جرمنی معاشی اور اقتصادی لحاظ سے ایک طاقت بن کر یورپی دنیا پر چھاگیا۔ مغربی اور یورپی دنیا اس کی ابھرتی ہوئی طاقت سے خوفزدہ تھیں۔ لہٰذا انھوں نے یورپ میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کی اور یوں جنگ عظیم اول تک بات پہنچ گئی۔ اس وقت دنیا کے حالات و واقعات کو سمجھنا ممکن ہوسکے تو جنگ عظیم اول اور دوم سے پہلے کے حالات کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔

اسی عرصہ میں یہودیوں کے قتل عام کو ہولوکاسٹ کا نام دیا گیا۔ یہ ہولوکاسٹ Holocaust ہی ہے جو دنیا میں بکھرے ہوئے یہودیوں کو یکجا کرکے پوری یورپی دنیا نے فلسطین کی سرزمین میں ایک علیحدہ وطن اسرائیل کی شکل میں آباد کروایا۔ جرمنی کی ابھرتی ہوئی قوت کو اتحادی ممالک روس، برطانیہ، امریکا اور فرانس نے چیلنج کرتے ہوئے جنگ عظیم اول کا 1914 میں باقاعدہ آغاز کیا تھا، نتیجہ جرمنی کی شکست کی شکل میں سامنے آیا۔

ہالینڈ اور پولینڈ کے درمیان وسطی یورپ میں واقع 16 ریاستوں پر مشتمل خوشحال اور ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کا حامل فیڈرل پارلیمانی ری پبلک آف جرمنی دنیا میں پانچ بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ جرمنی جہاں معاشی اور سیاسی لحاظ سے ایک مضبوط طاقت ہے وہاں روایتی طور پر بے شمار ثقافتی، تاریخی اور علم وہنر کی ترقی اور جدید دنیا میں ایک منفرد شناخت رکھتا ہے۔ عالمگیریت کے لحاظ سے جرمنی 1957 سے یورپی یونین اور 1999 سے یورو زون کا ممبر ہے۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ، NATO، G8،G20، اور کونسل آف یورپ کا سرگرم رکن بھی ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے اس کی خاص بات یہ ہے کہ ویزہ فری 26 یورپی ممالک شنجن ایریا کا اہم حصہ ہونے کے ساتھ سرکاری کرنسی یورو اور دنیا کی مشکل ترین بولے جانے والی سرکاری اور قومی زبان جرمن ہے۔

1913میں جرمنی اور فرانس ایک دوسرے کے حریف بن چکے تھے، اس کی بنیادی وجہ جرمنی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی ترقی تھی۔ فرانس کا روس سے پہلے ہی جرمنی کے خلاف دفاعی معاہدہ 1891 میں ہوچکا تھا۔ 1906 میں برطانیہ نے بھی روس سے الحاق کرلیا۔ جرمنی پورے خطے میں بحری قوت کی وجہ سے طاقت کا توازن اپنے حق میں رکھنا چاہتا تھا۔ اسی طاقت کے توازن کو توڑنے کی غرض سے روس، فرانس اور برطانیہ کا تین رکنی اتحاد قائم ہوچکا تھا۔ پورا یورپ کشیدگی کا شکار تھا۔

اسی اثنا میں آسٹریا کے شہزادے فرڈی نینڈ کی سربیا میں ہلاکت کی خبر نے آسٹریا میں چنگاری کا کام کیا۔ انھوں نے جرمن کی شہ پر سربیا پر حملہ کردیا، سربیا کو خطرہ میں دیکھ کر روس نے آسٹریا پر حملہ کردیا، جس پر جرمن نے آسٹریا کی بقا کے لیے جنگ میں کودنے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔ اسی دوران فرانس نے بھی سربیا کو بچانے کے لیے آسٹریا پر حملہ کردیا، جس کا ردعمل جرمنی کا براہ راست فرانس پر چڑھائی کی صورت میں سامنے آیا۔ اس جنگ میں اچانک امریکا کی مداخلت نے جنگ کا پانسہ بدل دیا اور یوں جرمنی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ تھی جنگ عظیم اول 1914۔

شکست کے بعد یعنی 1918 میں جرمنی کی معاشی حالت دن بدن گرنا شروع ہوگئی۔ پورے ملک میں انارکی کا عالم تھا۔ حالات جرمنی کے بادشاہ قیصر ولیم کے قابو سے باہر ہوگئے، لہٰذا اس نے مستقل طور پر جرمنی کو چھوڑ کر ہالینڈ میں سکونت اختیار کرلی۔ قیصر کے جرمنی سے نکلتے ہی کمیونسٹ تحریک جو اپنے زوروں پر تھی انھوں نے ایک سیاسی انقلاب برپا کردیا اور اتحادیوں سے صلح کی کوششوں کے سلسلے کا آغاز کیا۔ 1919 میں ورسلز میں فاتح اتحادی ممالک اور جرمنی کے درمیان سخت شرائط پر مبنی معاہدہ طے پایا۔ یہ معاہدہ بظاہر ایک کاغذ کا ٹکڑا تھا لیکن اس کے پس پردہ جرمنوں کے لیے بہت بڑی ذلت کا سبق تھا۔

بدلتے حالات کے ساتھ جرمن فکر میں تبدیلی آئی اور 1919 میں جرمن سیاستدانوں نے ایک اجلاس میں جرمنی کے مستقبل کا سیاسی ڈھانچہ تیار کیا جس کے تحت دہرے جمہوری نظام پر عمل درآمد پر زور دیا گیا، یعنی ایک طرف ملک کی پارلیمنٹ رائچ (Reich) تھی اور دوسری طرف مطلق العنان ریاستیں۔ بے چینی اور افراتفری کے ایسے حالات میں صدر جمہوریہ ایبرٹ کا انتقال ہوگیا اور ان کی جگہ مارشل وان ہینڈسبرگ نے لے لی جس کو اعلیٰ پائے کا مدبر کہا جاتا تھا اور توقع کی جارہی تھی کہ اس کی مدبرانہ سوچ جرمنی کو ان حالات سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوجائے۔

ہٹلر جو جرمنی کے حالات کو شروع ہی سے دیکھ رہا تھا اور بہت ہی معمولی پیمانہ پر جرمنی کی فوج میں خدمات بھی انجام دے چکا تھا، یہودیوں کے طرزعمل کا بھی بغور مطالعہ کرچکا تھا لہٰذا اس نے ہینڈسبرگ کی حکومت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغازکردیا اور نازی پارٹی کی بنیاد رکھ دی۔ وہ اپنی قوم پرستانہ سوچ عوامی سطح تک لے گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ جرمنی کی شکست کی تمام تر ذمے داری یہودیوں کی ہے۔ جنگ کے بعد ہٹلر میونخ پہنچا اور جنگی قیدیوں کی واپسی سے قبل ہی عوامی اجتماعات سے خطاب کرکے عوامی رائے کو ہموار کیا۔

قوم پرستوں نے بدلتے سیاسی موسموں میں جرمن ورکرز پارٹی کے نام پر ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جس کا نام نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی (NSDAP) یا نازی پارٹی رکھا گیا۔ ہٹلر اپنی سیاسی حکمت عملی دکھانے میں کامیاب رہا، اس نے فیورر (Furher) کا لقب حاصل کرنے میں بھرپور عوامی حمایت حاصل کرلی تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں اس جرمن نازی ڈکٹیٹر نے اتحادیوں (امریکق، برطانیہ، فرانس) کے دانت کھٹے کردیے تھے۔ ہٹلر کی شخصیت کے دو پہلو نظر آتے تھے، پہلی وجہ اس کی شہرت و شناخت بطور ایک انتہاپسند اور نسل پرست ڈکٹیٹر کی تھی اور دوسری وجہ یہودیت کی شدید مخالفت تھی۔ وہ کسی بھی صورت کسی بھی یہودی کو جرمنی میں دیکھنا نہیں چاہتا تھا اور ہمیشہ انھیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے رہتا تھا۔

وہ ایک عام انسان سے ترقی کرتے کرتے سیاسی پارٹی کا رہنما بنا، پھر ملک کے چانسلر کے عہدے تک پہنچ گیا۔ آمرمطلق (Despot) بن کر جرمن قوم کو ایک نئے فلسفے سے روشناس کروایا جو نازی ازم کے نام سے مشہور ہوا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے اپنی ذہانت بنی نوع انسانوں کی فلاح کے بجائے انسانوں کی تباہی و بربادی پر خرچ کی۔ اس لیے بعض حلقے اسے Evil Genius کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ہٹلر یہودیت اور اشتراکیت کے عمل سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن یہود نے تیزی سے ترقی کے راستے طے کرتے ہوئے ہٹلر کے خواب کی تعمیر کی نفی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ گو یورپین دنیا نے اسے ایک کھلونا نما ریاست اسرائیل مسلمانوں کے اکثریتی علاقہ فلسطین میں عطا کی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسلمانوں میں فساد کا بیج بودیا۔

بیرون دنیا کے سیاسی و معاشی حالات جیسے بھی ہوں، ہماری ترجیح صرف اور صرف پاکستان کی سلامتی ہونی چاہیے۔ ہمیں نظریاتی طور پر اپنی سرزمین کو مقدم رکھنا ہے۔ ذات باری تعالیٰ نے ہماری سرزمین کو تمام نعمتوں سے مالامال کیا ہوا ہے، ان کا بہتر اور سلیقہ سے استعمال ہمیں ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔