23 مارچ، سیاسی بصیرت کی فتح یابی کا دن

عامر ریاض  پير 23 مارچ 2015
23 مارچ کا دن مسلمانان برصغیرکی سیاسی بصیرت کی فتح کا دن  ہے۔فوٹو: فائل

23 مارچ کا دن مسلمانان برصغیرکی سیاسی بصیرت کی فتح کا دن ہے۔فوٹو: فائل

سیاست میں اصولوں سے زیادہ اہم بات سیاسی بصیرت ہوتی ہے اور سیاسی بصیرتوں سے اہم بروقت فیصلہ کہ اگر ترتیب غلط ہوجائے تو بڑی بڑی سیاسی تحریکیں بھی محض کتابوں کے فٹ نوٹ میں جگہ پاتی ہیں اور ان کے رہنما سبق آموز کہانیوں کے ایسے کرداروں کا روپ دھار لیتے ہیں جنھیں قابل تقلید مثال نہیں سمجھا جاتا۔

23 مارچ کا دن مسلمانان برصغیرکی سیاسی بصیرت کی فتح کا دن بھی ہے۔اس دن کوجوتاریخ رقم ہوئی، اس کے پیچھے کی تاریخ سمجھے بغیرقرارداد پاکستان کی اہمیت کوسمجھانہیں جاسکتا۔

23 مارچ 1940 کا دن ایک سیاسی تسلسل کا حصّٰہ تھا کہ 13 اپریل 1919 سے 23 مارچ 1940 تک پھیلے 21 سالہ سیاسی مدوجذر پر جس کسی کی بھی پر نظر تھی اس کے لیے یہ دن اچھنبے کی بات نہیں تھا۔امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں جس طرح دن دہاڑے میلہ منانے آئے پنجابیوں کو انگریز افسر نے بھون ڈالا تھا اس کے ردعمل میں ایسا طوفان آیا جس نے تھمنے کا نام ہی نہ لیا۔ عوامی ردعمل کے ہاتھوں روایتی کلب سیاست کا خاتمہ ہوا۔ مہاتما گاندھی نے تو 5 دن بعد اپنے اخبار ’’ہریجن‘‘ میں مضمون کے ذریعے جلیانوالہ باغ کے واقعہ میں مرنے والوں کو ’’شہید‘‘ ماننے سے انکار کر دیا مگر موچی دروازہ میں میاں فصل حسین کی صدارت میں ہونے والے جلسہ میں علامہ اقبال نے امریکی صدر وڈروولسن کے 14شہرہ آفاق نکات کا حوالہ دے دیا جو چند ماہ پہلے 1918 میں رقم ہوئے تھے۔

سمندری تجارتوں اور قوموں کی آزادی کی بات کرتے ان 14 نکات میں جرمن چانسلر بسمارک کی طرح نوآبادیاتی نظام کو یکسر ختم کرنے کا مطالبہ نمایاں تھا اور اسی کا ذکر علامہ اقبال نے جلیانوالہ باغ کے شہیدوں کی یاد میں ہونے والے جلسہ میں کیا۔ سلطنت کو یہ پیغام دیا کہ وقت بدل رہا ہے ۔مگر سلطنت والے تو جنگ جیتنے کی خوشی میں باولے ہوچکے تھے کہ فرانس و برطانیہ نے مل کر پرویشیائی جرمن سلطنت، آسٹروہنگرین سلطنت اور سلطنت عثمانیہ کو توڑ تاڑ کے نئی نئی وطنی ریاستیں کھڑی کرنی شروع کر دیں۔ برصغیر کی سیاست کو آلودہ کرنے کے لیے خلافت، ہجرت اور عدم تعاون جیسی تحریکوں کو بڑھاوا دیا مگر اقبال و قائداعظم نے ان تحریکوں سے دور رہ کر دانش مندی کا ثبوت دیا۔

دوسری طرف 1921 سے 1929 کے درمیان 1919 کے قانون آزادی ہند کے تحت انگریزوں نے محدود حق رائے دہی کے تحت تسلسل سے صوبائی ومرکزی سطح پر انتخابات منعقد کروائے۔ مہاتما گاندھی اور مرکزی خلافت کمیٹی کی مخالفت کے باوجود موتی لال نہرو، سی آر ، داس سے لے کر اقبال و قائداعظم تک سب نے ان میں حصّٰہ لیا۔ 1930 وہ سال ہے جب علامہ اقبال نے اپنا تاریخی خطبہ پڑھا کہ جس میں ’’نئے سویرا‘‘ کی امید نمایاں تھی۔ اقبال نے تو نہرو کمیٹی کے آگے بھی یہی مدعا رکھا تھا مگر رعونت، بصیرت پر غالب رہی تھی۔ 1932 کے کمیونل ایوارڈ نے کسی حد تک معاہدہ لکھنؤ کی طرف مراجعت کی کہ اقبال تو اپنے تاریخی الٰہ آباد خطاب میں معاہدہ لکھنو کو بجا طور پر گہرا کھڈا (Pit fall) کہہ چکے تھے۔

احرار، مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی آف پنجاب نے کمیونل ایوارڈ کو اس لیے تسلیم کر لیا تھا کیونکہ پنجاب و بنگال میں کسی حد تک مسلمان پنجابیوں وبنگالیوں کی اکثریت مان لی گئی تھی۔البتہ گاندھی جی نے کمیونل ایوارڈ کے خلاف اپنا مرن بھرت تب توڑا جب انگریزوں نے شودروں، شیڈول کاسٹوں، مصلیوں اور والمیکیوں کو الگ نشستیں دینے کی بجائے دوبارہ سے ہندوؤں میں شمار کر دیا۔مہاتما ووٹ کے زمانہ کی بْو سونگھ چکے تھے۔ 1935کا قانون بننے لگا تو زیرک فضل حسین نے اپنے ساتھیوں سکندر حیات ، ممتاز دولتانہ، فیروز خان نون وغیرہ کو بلایا اور کہا کہ وقت بدل رہا ہے۔

اب دھیرے دھیرے ووٹ کا زمانہ مضبوط ہوگا کہ ہمیں چھوٹے زمینداروں، متمول کسانوں اور تاجروں کے مفادات کوبھی سیاسی سطح پر اٹھانا ہوگا۔ فصل حسین کے دست راست چھوٹو رام تو ’’بنیئے‘‘ کے خلاف 1929 سے قانون اراضی 1901 میں ترامیم کروا رہے تھے کہ 1936 میں انھوں نے اس میں تیسرا مگر بھرپور اصافہ کیا اور پنجابی کسانوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ شومئی قسمت، چھوٹے کاشتکاروں کی بڑی تعداد مسلمانوں پر مشتمل تھی کہ انھوں نے چھوٹو رام کے وسیلہ سے 1937 کے انتخابات میں یونینسٹ پارٹی آف پنجاب کو ہی ووٹ ڈالے۔

1937 کے انتخابات کے نتائج میں سیاسی بصیرت رکھنے والوں کے لیے واضح اشارے موجود تھے۔ مگر آل انڈیا کانگرس اور اس کے ہمنوا جعلی تفاخر میں غلطاں رہے۔ کل گیارہ صوبوں میں ہونے والے ان انتخابات میںکل 1585 سیٹوں پر معرکہ ہوا۔ کانگرس نے 707 سیٹیں جیتیں جو 50 فی صد سے بھی کم تھیں۔ مگر ہوشیار کانگرس نے تاثریہ دیا کہ پورا برصغیر ان کے پیچھے ہے۔ کانگرس کے حمایتی دانشور تو آج بھی جب تجزیہ کرتے ہیں تو صوبائی نشستوں کی بجائے صوبوں کی گنتی کرتے ہیں اور برملا لکھتے ہیں کہ کانگرس گیارہ میں سے 7صوبوں میں جیت گئی تھی۔ جبکہ انتخابی نتائج پر نظر ڈالیں تو آسام میں 108 میں سے 33 ، صوبہ سرحد میں خدائی خدمت گاروں کی مدد کے باوجود 50 میں سے 19، سندھ میں 60 میں سے 7، بنگال میں 250 میں سے 54 اور پنجاب میں 175 میں سے کانگرس کو محض 18 سیٹیں ملیں تھیں۔

مسلم لیگ اور کانگرس کے علاوہ گیارہ صوبوں میں 397 نشستیں دیگر پارٹیوں نے جیتیں تھیں جبکہ آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والوں کی تعداد 385 تھی۔ 50 فی صد سے بھی زیادہ نشستوں پر وہ لوگ جیتے تھے جونہ مسلم لیگی تھے نہ کانگرسی۔ خود کو برصغیر کی عوام کی واحد نمائندہ جماعت سمجھنے والی کانگرس نے ان انتخابی نتائج سے سبق نہ سیکھا۔ حد تو یہ ہے کہ سیکولر، ترقی پسندو قوم پرست دانشور تاحال ’’بغض مسلم لیگ‘‘ میں 1937 کے انتخابی نتائج کا تجزیہ کرتے ہوئے حقائق کو مدنظر نہیں رکھتے۔ صوبہ سرحد کی مثال بھی دلچسپ تھی کہ یہاں تقریباآدھے اْمیدوار آزاد حیثیت میں جیتے تھے جن کی تعداد 24 تھی۔

سرحد میں صاحبزادہ سرعبدالقیوم خان پہلے وزیر اعلیٰ بنے مگر چند ماہ بعد خان عبدالقیوم خان اور خان عبدالغفار خان نے مل کر ان کا دھڑن تختہ کر دیا۔ اس کام میں صوبہ سرحد سے کامیاب ہونے والے 6 ہندو اور ایک سکھ رکن نے دونوں خوانین کا ساتھ دیا جن کی قیادت گردھاری لال کر رہا تھا جو مالدار بھی تھا اور بنیا بھی۔ دوسری طرف 1937 کے انتخابت میں مسلم اقلیتی صوبوں میں مسلمانوں نے بالعموم جمعیت علماء ہند کے ساتھ مل کر مسلم نشستیں جیت لیں ۔مگر ان صوبوں میں کل مسلم نشستوں کی تعداد 8 سے 12 فیصد ہی تھی کہ وہ اسمبلی میں کوئی بامعنی کردار ادا کرنے کے قابل ہی نہ تھے۔

1937 انتخابی نتائج کے بعد قائداعظم کو اندازہ ہوگیا کہ مسلم اقلیتی نشستوں پر تکیہ کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ ان صوبوں میں جب کانگرسی وزارتیں بن گئیں تو سونے پر سہاگہ چڑھنا شروع ہوا۔ سبھاش چندر بوس کے تحفظات اور رابندر ناتھ ٹیگور کی مخالفت کے باوجود یوپی، سی پی وغیرہ کے سکولوںمیں ہندی زبان کے نفاذ اور مسلم دشمن ’’بندے ماترم‘‘ کے ترانے کو لگانے جیسی پالیسیوں نے کانگرس کارہا سہا بھرم بھی توڑ دیا ۔ قائداعظم کی 1937 کے انتخابی تنائج پر نظر تھی کہ مسلم لیگ کی شکست کے بعد وہ مسلم لیگ کو مسلم اکثریتی صوبوں میں مقبول کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہوئے کہ 23 مارچ کا دن ان کی بدل چکی سوچ کا امین ہے۔

انھوں نے شیر بنگال اے کے فصل الحق کو مسلم لیگ میں شمولیت پر رضا مند کیا جو بنگال کے وزیر اعلیٰ اور کرشک پرجا پارٹی کے رہنما تھے۔ پنجاب میں البتہ انہیں زیادہ تردد کرنا پڑا کہ یہاں یونینسٹ پارٹی شیر بنگال کی نسبت بہت مضبوط تھی۔ یوں ’’جناح۔ سکندر معاہدہ‘‘ کیا گیا۔ 1938 میں قائداعظم پنجاب و بنگال کی حمایت حاصل کرنے کے بعد مناسب موقع کی تلاش میں تھے۔

ستمبر 1939 کا مہینہ اس لیے اہم ہے کہ اس ماہ دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا۔ پولینڈ پر ہٹلر کے حملہ کو جنگ کے آغاز کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ دو دن بعد برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا کہ جیسے وہ پہلے ہی تیار بیٹھے ہوں۔ حالانکہ جاپانیوں اور چینوں میں جنگ تو اس سے بھی پہلے سے چل رہی تھی کہ 1931 میں جاپان نے چینی علاقہ ’’مینچوریا‘‘ پر قبضہ کیا تھا اور 1937 سے دونوں ممالک برسرپیکار تھے۔ لارڈ لینلتھگو انڈیا کے وائسرائے تھے اور انڈیا برٹش نوآبادیات کا حصّٰہ ، لامحالہ انڈیا نے جنگ میں برطانیہ کا حلیف ہی بننا تھا۔

کانگرس نے اس موقعہ پر ’’آقا‘‘ کو بلیک میل کرنے کا فیصلہ کیا مگر وہ 1937 کے انتخابی نتائج اور کانگرسی وزارتوں کی کارکردگی کو بھول گئے۔ اکتوبر 1939 کو کانگرس نے وزارتوں سے استعفیٰ دے دیا مگر زیرک محمد علی جناح نے اس جعلی تفاخر کو ’’نجات کا دن‘‘ مناکر رگید ڈالا۔ کانگرس سمجھتی تھی کہ وہ انگریزوں پر دباؤ ڈال کر سلطنت سے مراعات بھی لے لی گی اور مسلم لیگ سمیت اپنے حریفوں پر سیاسی سبقت بھی حاصل کر لے گی۔ اس اہم موڑ پر پنجاب و بنگال قائداعظم کے ساتھ تھے کہ یہی وہ دڑاڑ تھی جس نے بالآخر کانگرس کے زعم کو پارہ پارہ کر ڈالا۔ گو کہ کانگرس نے 1947 میں اس کا بدلہ تقسیم پنجاب و بنگال کروا کر لیا مگر ستمبر 1939 سے 23 مارچ 1940 کے درمیان جو کچھ بھی ہوا اس سے کانگرس کی غلط سیاسی بصیرت کی نشاندہی ہوتی ہے۔

ذرا غور کریں، مسلم لیگ نے یہ جلسہ اپنی جنم بھومی بنگال میںمنعقد نہ کیا، نہ ہی اس جلسہ کے لئے دارلحکومت دلی کا انتخاب کیا گیا۔ لاہور کا انتخاب اس لیے اہم تھا کیونکہ 23 مارچ 1940 تک کی سیاست میں کانگرس کو بدترین شکست جس پنجاب میں ہوئی تھی لاہور اس کا دل تھا۔مقام کا تعین بھی بدل چکی ترجیحات کا آئینہ دار تھا۔ جنوری 1937 سے ستمبر 1939 کے درمیان قائداعظم کسی ایسے موقع ہی کی تلاش میں تھے جب کانگرس کی گرفت کمزور ہو۔ اس دوران انھوں نے پنجاب و بنگال میں اپنی حمایت بڑھائی کہ جب فیصلہ کن گھڑی آئے تو وار کارگر رہے۔

یہ موقع ستمبر 1939 میں خود کا نگرس نے فراہم کر دیا کہ وزارتوں سے الگ ہونے کے بعد جو خلاء پیدا ہوا اسے کسی نہ کسی نے تو بھرنا تھا۔ مگر اس نازک موقع پر آئینی و قانونی رستہ ڈھونڈا گیا۔ بہار سے مسلسل منتخب ہونے والے رکن اسمبلی اور مسلم لیگی رہنما حسین امام نے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ جب ہم قرار داد لاہور تیار کر رہے تھے تو ہمارے روبرو امریکی، برطانوی اور روسی دستاتیر تھے۔ امریکی آئین کو ہم نے اپنی صورتحال سے زیادہ قریب پایا اور قرار داد لاہور کو اسی پیرائے میں تیار کیا۔

ستمبر 1939 کے بعد بالعموم اور 23 مارچ 1940 کے بعد بالخصوص کانگرس ایک ہارچکی لڑائی لڑ رہی تھی۔ وہ اسی زعم میں مبتلا رہے کہ برصغیر کی سیاست میں دوہی طاقتیں ہیں ایک انگریز اور دوسری کانگرس ۔ مسلم لیگ کو تو وہ کسی کھاتے ہی میں شمار نہیں کرتے تھے کہ اسی زعم میں جب 1942 میں انھوں نے ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک شروع کی تو ان کے ساتھ احرار اور کمیونسٹ بھی نہیں تھے جبکہ جرأت رندانہ کی مثال سبھاش چندر بوس کو مہاتما گاندھی، ابوالکلام آزاد اور جی ڈی برلانے مل کر خود کانگرس سے نکالا تھا۔

اس کشمکش کا اختتام 3جون 1947 کوہوا جب نہرو، پٹیل، آزاد اور مہاتما گاندھی خود ایک ایسے معاہدے پر راضی ہوئے جو قیام پاکستان کی ضمانت فراہم کر رہا تھا۔ سبھاش چندر بوس، راج گوپال اچاریہ سمیت بہت سے کانگرسی رہنما ایسے بھی تھے جنھوں نے 1939 سے 1947 کے درمیان پٹیل، گاندھی، نہرو کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ کسی درمیانہ رستے کو ڈھونڈ نے سے قاصر رہے۔

23 مارچ 1940 کی قرار داد کی بہت سی جہتیں ہیں، جن میں برقت فیصلہ اور سیاسی بصیرت کی فتح نمایاں ہے۔ مارچ 1940 کو آج ہی کے دن، آج سے 75 برس قبل شہر لاہور میں جو قرار داد منظور کی گئی اس کا پس منظر جانے بغیر ہمیں اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔