آٹو انڈسٹری ملک کی سب سے پست منافع صنعت بن گئی

کاشف حسین  پير 23 مارچ 2015
 انڈونیشیا میں سالانہ 12لاکھ، بھارت میں 39لاکھ جبکہ چین میں 2 کروڑ 21لاکھ گاڑیاں سالانہ تیار کی جارہی ہیں۔  فوٹو: فائل

انڈونیشیا میں سالانہ 12لاکھ، بھارت میں 39لاکھ جبکہ چین میں 2 کروڑ 21لاکھ گاڑیاں سالانہ تیار کی جارہی ہیں۔ فوٹو: فائل

کراچی: پاکستانی آٹو سیکٹر کے بارے میں سب سے زیادہ منافع کمانے کا مفروضہ غلط ہے، حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی آٹو انڈسٹری بھاری سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی متعارف کرانے کے باوجود سرمایہ کاری پر ریٹرن کے لحاظ سے سب سے پست منافع کی حامل انڈسٹری بن چکی ہے۔

پاکستانی آٹو انڈسٹری کے منافع میں کمی کی وجوہات میں مارکیٹ کا محدود حجم سرفہرست ہے جس میں استعمال شدہ گاڑیوں کی بھرمار سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ مارکیٹ کا حجم محدود ہونے کی وجہ سے پاکستانی آٹو اسمبلرز اور وینڈر انڈسٹری اپنی مکمل پیداواری استعداد استعمال نہیں کرپارہے۔ پاپام کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق سال 2014میں پاکستان کی آٹو اسمبلر انڈسٹری کے منافع کی شرح 5سے 9فیصد رہی جو پاکستان کی دیگر بڑی صنعتوں سیمنٹ انڈسٹری، پٹرولیم، فنانشل سیکٹر اور کنزیومر گڈز بنانے والی ایف ایم سی جی انڈسٹری کے منافع سے کئی گنا کم ہے۔

تحقیق کے مطابق پاک سوزوکی موٹر نے دسمبر 2014کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران 2.90ارب روپے کا قبل از ٹیکس منافع حاصل کیا جو اس کے ریونیو کا 5.32فیصد ہے انڈس موٹر کمپنی نے جون 2014کو ختم ہونیو الی مدت کے دوران 5.05ارب روپے کا قبل از ٹیکس منافع کمایا جو اس دوران کمپنی کے ریونیو کا 8.86فیصد رہا، ہونڈ اٹلس کارز نے مارچ 2014 کو ختم ہونے والی مدت کے دوران 2.09ارب روپے کا قبل از ٹیکس منافع کمایا جو اس مدت کے ریونیو کا 5.35فیصد رہا۔ اس کے برعکس سیمنٹ سیکٹر میں جون 2014کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران 4لسٹڈ سیمنٹ کمپنیوں کا قبل از ٹیکس منافع 29سے 35فیصد کے درمیان رہا۔

لکی سیمنٹ کو 14.45ارب روپے کا قبل از ٹیکس منافع حاصل ہوا جو اس مدت کے ریونیو کا 33.55 فیصد رہا، فوجی سیمنٹ نے 4.50ارب روپے کا منافع کمایا جو اس کے ریونیو کا 25.71فیصد رہا، ڈی جی خان سیمنٹ کا 7.85ارب روپے کا منافع اس کے مجموعی ریونیو کا 29.57 فیصد جبکہ کوہاٹ سیمنٹ کا 4.376ارب روپے کا منافع اس کے ریونیو کا 34.28فیصد رہا۔ پاکستان کے پٹرولیم ریفائننگ سیکٹر میں منافع کی شرح 60سے 67فیصد رہی پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ نے جون 2014کو ختم ہونے والی مدت میں 73.36ارب روپے کا منافع کمایا جو اس کے ریونیو کا 60.45فیصد جبکہ او جی ڈی سی کا 172.34ارب روپے کا منافع اس کے ریونیو کا 67.05فیصد رہا۔

فناشنل سیکٹر میں منافع کی شرح 43سے 63فیصد تک رہی جون 2013کو ختم ہونے والی مدت میں حبیب بینک لمیٹڈ کا منافع 33.71 ارب روپے رہا جو اس دوران بینک کے ریونیو کا 49.94فیصد رہا، ایم سی بی بینک لمیٹڈ نے اسی مدت میں 37.354ارب روپے کا منافع کمایا جو اس مدت کے ریونیو کا 43.13فیصد رہا، فاسٹ موونگ کنزیومر گڈز( ایف ایم سی جی) سیکٹر میں دو بڑی کمپنیوں یونی لیور اور نیسلے پاکستان کا منافع بالترتیب 21.41 اور 11.41فیصد رہا دسمبر 2014کو ختم ہونے والی مدت میں یونیو لیور کا منافع 1.758ارب روپے جبکہ نیسلے پاکستان کا منافع 11ارب روپے رہا۔ آٹو انڈسٹری بھاری سرمایہ کاری کا تقاضہ کرتی ہے، اسمبلرز کے ساتھ سیلز، سروس، اسپیئر پارٹس کیلیے تھری ایس ڈیلر شپ نیٹ ورک میں بھی وسیع سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔

انڈسٹری میں صارفین کی قوت خرید کے مطابق گاڑیوں کی چوائس موجود ہے جس میں 6لاکھ 25ہزار سے 45لاکھ روپے تک کی گاڑیاں شامل ہیں۔ پاکستان میں ناسازگار ماحول کی وجہ سے 8سال میں 5پلانٹس بند ہوگئے۔ ان پلانٹس کی بندش سے صارفین کو دستیاب گاڑیوں کی چوائس میں نمایاں کمی واقع ہوئی ان پلانٹس کی بندش کی وجہ سے 8 گاڑیاں بننا بند ہوگئیں جن میں ہنڈائی اور کیا کی اسپیکٹرا، سینٹرو، شہزور، فیٹ کی Uno، شیورلیٹ کی جوائے اور اوپٹرا، نسان کی سنی اور آدم موٹرز کی پاکستانی گاڑی Revoشامل ہیں۔

پاکستان میں لوکل اسمبل مارکیٹ کا حجم ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں تک محدود ہوگیا ہے اس محدود مارکیٹ میں بھی اس وقت 12گاڑیاں دستیاب ہیں جن میں سوئفٹ، ویگن آر، کلٹس، بولان، راوی، مہران، فارچیونر، ویگو، لائی لکس، کرولا، ہونڈا سوک اور ہونڈا سٹی گاڑیاں شامل ہیں واضح رہے کہ انڈونیشیا میں سالانہ 12لاکھ، بھارت میں 39لاکھ جبکہ چین میں 2 کروڑ 21لاکھ گاڑیاں سالانہ تیار کی جارہی ہیں اور ان ملکوں میں استعمال شدہ گاڑیوں کیلیے سخت پالیسیاں نافذ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔