حکومتی نا اہلی کے باعث آبادی کا بڑا حصہ مضر صحت پانی پینے پر مجبور

اشرف علی  پير 23 مارچ 2015
ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی کے پاس صرف 440 ملین گیلن پانی صاف (فلٹر) کرنے کی استعداد ہے۔  فوٹو: ایکسپریس/فائل

ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی کے پاس صرف 440 ملین گیلن پانی صاف (فلٹر) کرنے کی استعداد ہے۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

کراچی: وفاقی حکومت کی ہدایت کے باوجود کراچی کے متعلقہ ادارے عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی میں ناکام ہیں۔

اتوار کو پانی کے عالمی دن کے موقع پر ادارے آگہی مہم بھی نہ چلاسکے،ملک کی65 فیصد سے زائد آبادی کو مضر صحت پانی فراہم کیا جارہا ہے جس سے وبائی امراض بڑھ کر اموات کی صورت میں سامنے آرہے ہیں، مضر صحت پانی پینے سے ہونے والے امراض کے علاج پر سالانہ112 ارب روپے خرچ کیے جارہے ہیں، ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی کے پاس صرف 440 ملین گیلن پانی صاف (فلٹر) کرنے کی استعداد ہے،100ملین گیلن سے زائد پانی بغیر صاف کیے جبکہ باقی پانی لائنوں میں رساؤ نکاسی آب کی آمیزش سے آلودہ ہورہا ہے۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے 4 سال قبل وژن 2030 کے تحت پورے ملک میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلیے نیشنل ڈرنکنگ واٹر پالیسی (این ڈی ڈبلیو پی) کا اعلان کیا تھا جس کے تحت وفاقی، صوبائی حکومتوں، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، فاٹا ، لوکل گورنمنٹ اور اداروں کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنانا تھا، مضر صحت پانی کے استعمال سے صرف جلاب (ڈائریا) کے علاج پر 55 سے 80ارب روپے سالانہ خرچ کیے جارہے ہیں اس وقت ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی کے پاس گھارو فلٹر اسٹیشن پر 20 ملین گیلن، پیپری فلٹر اسٹیشن پر 100ملین گیلن، این ای ے اولڈ فلٹر پلانٹ پر25ملین گیلن، این ای کے نیو فلٹر پلانٹ پر 100ملین گیلن، سی او ڈی فلٹر پلانٹ پر 115ملین گیلن اور حب فلٹر پلانٹ پر 80 ملین گیلن پانی روزانہ صاف کرنے کی گنجائش ہے، واٹر بورڈ نے فلٹر پلانٹس کی استعداد بڑھانے کے لیے4.5ارب روپے لاگت کا منصوبہ تیار کیا لیکن سندھ حکومت نے ابھی تک اس منصوبے کیلیے فنڈز فراہم نہیں کیے ہیں۔

مجوزہ منصوبے کے تحت پپری پمپنگ اسٹیشن میں40 ملین گیلن، حب پمپنگ اسٹیشن میں 40 ملین گیلن، این ای کے میں 100ملین گیلن اور سی او ڈی کے مقام پر50 ملین گیلن روزانہ پانی صاف کرنے کیلیے فلٹر پلانٹس لگائے جائیں گے، فلٹر پلانٹس دریائے سندھ اور دیگر ذرائع سے حاصل کیے جانے والے پانی کو صاف کرتے ہیں، واٹر بورڈ کے اندرون شہر پانی کی تقسیم کا نظام بوسیدہ اور خستہ ہوچکا ہے، پانی کی تمام بڑی لائنیں برساتی نالوں سے گزرہی ہیں جن کی صفائی کی ذمے داری بلدیہ عظمیٰ کی ہے تاہم متعلقہ ادارے کی غفلت کے باعث برساتی نالے پورا سال کچرے سے بھرے رہتے ہیں۔

سیوریج اور پانی کی لائنوں میں رساؤ سے سیکڑوں مقامات پر سیوریج کا پانی پینے کے پانی میں مل رہا ہے اور یہی مضر صحت پانی شہریوں کو فراہم کیا جارہا ہے، گلوبل ہیلتھ کونسل کے مطابق پاکستان میں سالانہ ایک ہزار میں سے99 بچے 5 سال کی عمر تک وبائی بیماریوں سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں جس میں 60 فیصد اموات مضر صحت پانی پینے سے ہوتی ہیں، ماہرین نے بتایا اندرون سندھ تھرپارکر اور دیگر شہروں میں زیر زمین پانی میں آرسینک (سنکھیا) پایا جاتا ہے جو ہلاکت خیز ہے، زیر زمین مضر صحت پانی کے استعمال کے باعث اندرون سندھ میں ایک ہزار نومولود بچوں میں سے 10بچے جاں بحق ہورہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔