محنت کشوں کا جالب

زبیر رحمٰن  منگل 24 مارچ 2015
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

گزشتہ دنوں کامریڈ جالب کی بائیسویں برسی گزر گئی۔ اکثر ان کے مخالف طبقوں کے نمائندے بھی ان کی پرجوش نظمیں پڑھ کر سادہ لوح لوگوں کو اپنی جانب رجوع کرنے کی وقتی ناکام کوششیں کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی سالگرہ اور برسی کے موقع پر انھیں یاد کرنا بھول جاتے ہیں۔ کامریڈ حبیب جالب کا اصل نام حبیب احمد تھا۔ وہ نوجوانی سے تادم مرگ اپنی روح کی گہرائیوں سے ایک سچے پرعزم کمیونسٹ تھے۔ وہ نیپ میں ہوں یا کہیں اور، کبھی بھی کمیونسٹ ہونے کی اپنی شان کو نہیں چھپاتے تھے۔ وہ 24 مارچ 1928 میں ہوشیارپور، میانی افغانیہ ضلع، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں ان کے والد صوفی عنایت اللہ خان دہلی منتقل ہوگئے تھے۔

14 سال کی عمر میں اینگلو عربک اسکول دہلی میں ساتویں جماعت میں داخل کروا دیا۔ پندرہ سال کی عمر میں غزل لکھنا شروع کی۔ جگر مراد آبادی سے جالب متاثر تھے۔ ابتدا میں راغب مراد آبادی کے روبرو پہلی غزل سنائی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ جیکب لائن میں آ بسے اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے منسلک ہوگئے۔ پہلی بار 1954 میں گرفتار ہوئے۔ یہی وہ سال تھا جب کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگی۔ اس دوران کامریڈ جالب نے روزنامہ ’امروز‘ اردو کراچی میں پروف ریڈر کے طور پر ملازمت کی۔ ایوبی آمریت میں ایک نام نہاد آئین تشکیل دیا گیا، جس پر ردعمل کے طور پر کامریڈ حبیب جالب نے یہ نظم کہی۔

دیپ جس کا محلات میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا…

مغربی پاکستان کی حکومت کی جانب سے نواب آف کالا باغ نے فلم اسٹار نیلو کو ایران کے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کے روبرو رقص کرنے کی دعوت دی۔ مگر نیلو نے انکار کردیا۔ بعد ازاں انھیں گرفتار کرکے لانے کے لیے پولیس روانہ کی گئی تو نیلو نے خودکشی کرنے کی کوشش کی۔ اس واقعے پر کامریڈ حبیب جالب نے متاثر ہو کر ان کے شوہر ریاض شاہد کی فلم ’زرقا‘ کے لیے گانا لکھا۔ یہ فلم فلسطینیوں پر بنائی گئی تھی، جس میں شعر کچھ یوں تھے۔

تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
جنرل ضیا الحق کے دورمیں جا لب نے کہا
ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو کیا خدا لکھنا
بے نظیر بھٹو پہلی بار جب وزیراعظم بنیں تو جالب نے لکھا
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

برصغیر کو مذہب کے نام پر تقسیم اور خاندانوں کو تتربتر کیا گیا۔ عوام کے حقوق کی بات کرنے والوں اور طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو سراہنے کے بجائے صرف ایک ہی نعرے سے عوام کو دھوکا دیا گیا۔

1968 میں جب طبقاتی نظام کے خلاف انقلابی تحریک چلی تو پاکستان کے سامراج نواز اور رجعتی قوتیں ’اسلام خطرے میں ہے‘ کے نعرے لگانے لگیں، جس پر کامریڈ جالب نے نظم لکھی:

خطرے میں اسلام نہیں، خطرے میں قرآن نہیں
خطرہ ہے زرداروں کو، مغرب کے بازاروں کو

عالمی سرمایہ داری پر کامریڈ جالب نے کھل کر کہا تھا کہ:

خاک میں مل گئے نگینے لوگ

یہی کچھ سرمایہ داری کا ناگزیر نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے صاحب جائیداد لوگ اربوں روپے خوردبرد کرکے ارب پتی اور کھرب پتی بنتے جارہے ہیں اور وہی شرفاء کہلاتے ہیں، جبکہ پاکستان میں بھوک، افلاس، غذائی قلت اور سماجی ناانصافیوں سے تنگ آکر 2014 میں تقریباً سات ہزار افراد نے خودکشی کی۔ جبکہ حکمران سرمایہ داروں نے دو اور تین ارب ڈالر (جس کا اظہار کیا گیا) کے مالک بن گئے اور اربوں ڈالر بیرون ملک ڈاکوؤں کے بینک میں جمع کیے۔

کامریڈ حبیب جالب کا خواب تبھی پورا ہوگا، جب اپنی ارتقائی عمل سے ملکیت ختم ہوجائے گی، سرحدیں ختم ہوجائیں گی، جنگیں ختم ہوجائیں گی، عقیدے ختم ہوجائیں گے، طبقات ختم ہوجائیں گے، پھانسیاں ختم ہوجائیں گی، اسمبلیاں ختم جائیں گی تو عوام جینے لگیں گے۔ یہ ہوگا امداد باہمی کا آزاد معاشرہ، جہاں سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر کھائیں گے۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ ایک ہی دسترخوان پر موچی اور پروفیسر ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔

ہر طرف محبتوں اور خوشحالی کے پھولوں کی خوشبوؤں سے دنیا معطر ہوجائے گی۔ یہی کامریڈ جالب کا خواب ہے۔ یہ خواب آج نہیں تو کل ضرور پورا ہوگا۔ کامریڈ جالب 13 مارچ 1993 میں لاہور میں انتقال کرگئے۔ انتقال سے چند ماہ قبل کراچی کے انکلسریا اسپتال میں زیر علاج رہے، اسی دوران بنگلہ دیش سے ہفت روزہ ’اشپات‘ (فولاد) نامی رسالہ کے ایڈیٹر کامریڈ انوار نے میرے ساتھ جاکر انٹرویو لیا تھا۔ انھوں نے بستر مرگ پر بھی یہ نظم بنگال پر سنائی،

انھیں گلہ ہے محبت نہیں وطن سے ہمیں
سکھا رہے ہیں محبت مشین گن سے ہمیں

ان کے انتقال پر قتیل شفائی نے یہ نظم کہی:

اپنے سارے درد بھلا کر اوروں کے دکھ سہتا تھا
ہم جب غزلیں کہتے تھے وہ اکثر جیل میں رہتا تھا

آخر کار چلا ہی گیا وہ روٹھ کر ہم فرزانوں سے
وہ دیوانہ جس کو زمانہ جالب جالب کہتا تھا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔