پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا بھارتی ہتھیار

عثمان دموہی  بدھ 25 مارچ 2015

بھارت ممبئی حملوں کو جواز بنا کر مسلسل پاکستان پر دباؤ بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں اس نے دہلی میں متعین پاکستانی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے ممبئی حملوں کے مبینہ کردار لکھوی کو حراست سے رہا نہ کرنے کا بلاجواز ڈکٹیشن دے ڈالا، جس کے جواب میں پاکستان نے بھارتی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے سمجھو تہ ایکسپریس کے بھارتی عدالت کی جانب سے مجرم قرار دیے گئے بی جے پی سے منسلک دہشت گردوں کی ضمانت پر رہائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انھیں سزا دلانے کا مطالبہ کیا۔

دونوں جانب سے اس ترکی بہ ترکی پیش رفت سے صاف ظاہر ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ کا عنصر بڑھتا جا رہا ہے مگر سب ہی جانتے ہیں کہ اس تناؤ کا اصل ذمے دار بھارت ہی ہے۔ کاش کہ اس نے اپنے پڑوسی پاکستان کے ساتھ جارحانہ و تحکمانہ پالیسی کے بجائے حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کیا ہوتا اور اپنے توسیع پسندانہ جنون کو لگام دی ہوتی تو آج نہ صرف جنوبی ایشیا کا خطہ جنگی ماحول اور ہتھیاروں کی دوڑ سے پاک ہوتا بلکہ دونوں ہی ممالک پرامن ماحول میں تیزی سے ترقی کر رہے ہوتے۔

بھارت پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے ممبئی حملوں کا ایک عرصے سے پروپیگنڈہ کرتا چلا آ رہا ہے مگر وہ آج تک ان حملوں میں اس کے مطابق ملوث پاکستانیوں کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خواہ یہ مسئلہ ہو یا بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا معاملہ سب ہی بھارت کے اپنے رچائے ہوئے ڈرامے تھے، جن کا اصل مقصد پاکستان پر دباؤ ڈال کر اسے مسئلہ کشمیر اٹھانے سے باز رکھنا تھا۔

بھارت کی پریشانی یہ ہے کہ گزشتہ 68 برسوں سے کشمیر کا مسئلہ اس کے گلے میں ہڈی بنا ہوا ہے اور چونکہ کشمیر پر اس کا موقف جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے چنانچہ وہ کشمیر پر اپنا بلاجواز قبضہ برقرار رکھنے اور پاکستان کو اس مسئلے سے دور رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً پاکستان کے خلاف طرح طرح کے شاطرانہ حربے استعمال کرتا رہتا ہے۔ وہ ماضی میں اس مسئلے پر پاکستان پر تین بڑی جنگیں بھی تھوپ چکا ہے۔

جب وہ 1989ء سے شروع ہونے والی کشمیریوں کی کامیاب جدوجہد آزادی کو اپنی 8 لاکھ فوج کے بے دریغ ظلم و ستم سے بھی نہ روک سکا تو اس نے ایک سازشی منصوبے کے تحت اپنی ہی پارلیمنٹ پر نام نہاد حملہ کروا کر پاکستان کو اس کا ذمے دار قرار دے دیا اور اپنی فوج کی بھاری نفری کو پاکستانی سرحدوں پر جمع کر دیا مگر جب اس سے بھی پاکستان اس کے دباؤ میں نہ آیا اور کشمیریوں کی حمایت سے باز نہ آیا تو اس نے ممبئی حملوں کا ڈرامہ رچا ڈالا اور اس ضمن میں ایک من گھڑت اور ناقابل یقین کہانی پیش کر دی کہ کراچی سے کچھ مسلح نوجوان ایک کشتی میں بیٹھ کر سمندر میں کئی سو میل کا سفر طے کر کے ممبئی پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور انھوں نے ایک پورا دن ممبئی شہر کو یرغمال بنائے رکھا اور درجنوں لوگوں کو قتل کر ڈالا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ سمندر میں سفر کر رہے تھے تو بھارتی نیوی اور کوسٹ گارڈ وغیرہ کہاں تھے؟ پھر جب وہ ممبئی شہر میں پورے دن مختلف مقامات پر قتل و غارت گری کرتے رہے تو ممبئی کی پولیس اور بھارتی فوج کہاں تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی نے بھی اس جھوٹی کہانی پر یقین نہیں کیا تھا۔

بھارت سرکار جو انسانی حقوق کی بڑی علمبردار بنتی ہے نہ تو اس نے آج تک تاج ہوٹل میں مارے گئے نوجوانوں کے فوٹو جاری کیے اور نہ ہی اجمل قصاب کو ایک بار بھی پاکستانی سفارتی عملے سے ملنے دیا گیا۔ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کی خاطر اس پر طویل مقدمہ چلایا گیا اور بالآخر پھانسی دے دی گئی جب کہ عدالتوں میں وہ بار بار دہائی دیتا رہا کہ وہ بے قصور ہے اور اس کا ممبئی حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مگر صد افسوس کہ اس وقت کی پاکستانی حکومت نے امریکی دباؤ کی وجہ سے ممبئی حملے کو پاکستانی نوجوانوں کی کارروائی تسلیم کر لیا تھا لیکن یہ دراصل پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے اور مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی کو سبوتاژ کرنے کی بھارتی سازش تھی جو بدقسمتی سے کامیاب ہو گئی۔ اس کے بعد سے پاکستان بھارتی دباؤ میں آ گیا اور ہماری حکومت بھارتی حکومت کو منانے کی پالیسی پر گامزن ہو گئی۔

اسے منانے کے لیے تجارت میں اضافے کے علاوہ اسے موسٹ فیورایٹ نیشن کا درجہ دینے کے لیے سوچنے لگی جو کہ سراسر پاکستانی قومی موقف کی شکست کے مترادف بات تھی، اس سے پیشتر ہر حکومت نے مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک بھارت سے تجارتی تعلقات کو بڑھانے اور اسے بہترین دوست قوم کا درجہ دینے کا سوچا بھی نہیں تھا۔ اسی وقت سے بدقسمتی سے کچھ پاکستانی صحافی کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے حامی و مددگار بن گئے ہیں، یہ لوگ خصوصیت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو بھارتی نظریے کے مطابق دیکھتے ہیں، اپنی تحاریر اور ٹی وی ٹاک شوز میں کشمیریوں کی آزادی کے بارے میں منفی نکتہ نظر پیش کرتے ہیں۔

وہ بھارتی بالادستی کا پرچار کرتے ہیں اور پاکستانی ایٹم بم کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس بھارتی صحافی نہ صرف ہر وقت پاکستان دشمنی پر کمربستہ نظر آتے ہیں بلکہ اپنی حکومت کے کشمیر پر جھوٹے موقف پر بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔

ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ کشمیری نہ صرف اپنی آزادی بلکہ تکمیل پاکستان کے لیے بھارتی مظالم کا مردانہ وار مقابلہ کر رہے ہیں، وہ اب تک ایک لاکھ جانوں سے زائد کی قربانیاں دے چکے ہیں۔ وہ بھارتی سات لاکھ فوج اور ٹاڈا جیسے کالے قوانین کی موجودگی میں پاکستانی پرچم کو دل و جان سے ہاتھوں میں اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں۔ وہ کبھی بھی بھارتی حکومت کی لالچ میں نہیں آئے، انھوں نے بھارتی قبضے کو ہمیشہ حقارت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ انھوں نے اب پھر جموں کشمیر کی نئی جعلی اسمبلی اور بی جے پی و پی ڈی پی کی گٹھ جوڑ حکومت کو مسترد کر دیا ہے۔

حکومت پاکستان نے اس وقت مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں انتہائی موثر پالیسی اختیار کی ہے، پچھلی حکومت کے زمانے میں بھارت کے تئیں جو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کا تاثر عام تھا وہ اب زائل ہو چکا ہے۔ حکومت نے نام نہاد ممبئی حملے کے دباؤ میں آنے کے بجائے بھارت سے سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں میں ملوث مجرمان کو سزا دلانے کا مطالبہ کر کے بھارت کی ترپ چال کو ناکام بنا دیا ہے۔

بدقسمتی سے نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے پاک بھارت تعلقات میں نئی تلخی پیدا ہو گئی ہے۔ دہلی میں مقیم پاکستانی سفیر کشمیری لیڈروں کو معمول کے مطابق سفارت خانے بلا کر ان سے مسئلہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں مشورے کرتے رہے ہیں لیکن نریندر مودی نے گزشتہ ستمبر میں پاکستانی سفیر کے کشمیریوں سے مشورہ کرنے کو اتنا برا منایا کہ پاکستان سے مذاکرات کا سلسلہ ہی توڑ دیا تھا۔

بھارت کے اکثر دانشور بھارتی حکومت کے اس رویے پر سخت برہم تھے ادھر مغربی ممالک بھی نریندر مودی کے اس انتہا پسندانہ اقدام سے نالاں تھے۔ اب حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے نریندر مودی نے پاکستان سے مذاکرات کی بحالی کا عندیہ تو دے دیا ہے مگر وہ اب بھی کشمیر سے متعلق بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔

بھارتی دانشور نریندر مودی کی اس خواہش کو بھارت کے لیے انتہائی تباہ کن قرار دے رہے ہیں ان کا مشورہ ہے کہ بھارتی حکومت اب جلد ازجلد پاکستان سے مذاکراتی عمل شروع کرے اور کشمیر کے مہنگے اور تباہ کن مسئلے کے حل کی جانب قدم بڑھائے۔ بھارتی دانشوروں اور تجزیہ کاروں کا یہ مشورہ یقیناً بھارت کی سلامتی کے تحفظ کے لیے ایک نادر مشورہ ہے۔ کیونکہ بھارت اس وقت کئی مصیبتوں میں گرفتار ہے۔

آسام کے بعد اب جنوبی بھارت میں علیحدگی کی تحریک زور پکڑتی جا رہی ہے، وہ انگریزی کی جگہ ہندی اور سنسکرت کو تعلیمی نصاب کا لازمی حصہ بنانے اور معاشی ناانصافی پر سخت ناراض ہیں۔

سکھوں کی تحریک آزادی اب پھرنئے سرے سے ابھر چکی ہے۔ نکسل باڑیوں نے بھارت کی وسطی اور مشرقی ریاستوں میں لامتناہی دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ادھر سرمایہ کاری میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔

بجلی کی کمی کی وجہ سے صنعتی پیداوار میں کمی واقع ہو رہی ہے، روپے کی قدر مسلسل گھٹ رہی ہے، شرح نمو 8 سے 4 فیصد پر آ گئی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارتی حکمراں بھارت کو بچانے کے لیے کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دینے کی تیاری کریں، جنگی جنون پر اٹھنے والے خطیر اخراجات کو لگام دیں اور اپنے ننگے بھوکے عوام کی فکر کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔