دھاندلی کے ٹھوس شواہد نہ ہوں تو ووٹوں کی تصدیق نادرا سے بھی نہیں کرائی جا سکتی، سپریم کورٹ

نمائندہ ایکسپریس  بدھ 25 مارچ 2015
اگرمنتخب نمائندہ نااہل تھا تووہ عوام کے ٹیکسوں سے مراعات حاصل کرنے کا حقدار نہیں،رقم ہر حال میں واپس کرناپڑے گی، جسٹس جوادخواجہ۔ فوٹو: فائل

اگرمنتخب نمائندہ نااہل تھا تووہ عوام کے ٹیکسوں سے مراعات حاصل کرنے کا حقدار نہیں،رقم ہر حال میں واپس کرناپڑے گی، جسٹس جوادخواجہ۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی ہے کہ دھاندلی کے ٹھوس شواہدنہ ہوں توووٹوں کی نادرا سے بھی تصدیق نہیں کرائی جا سکتی،جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں فل بینچ نے خیبرپختونخوا اسمبلی کے حلقہ60بٹگرام سے متعلق الیکشن ٹریبونل کافیصلہ برقرار رکھا، حلقے سے جے یو آئی کے شاہ حسین کامیاب ہوئے، آزاد امیدوار زبیر خان نے دھاندلی کا الزام عائد کیا۔

تاہم ان کی پٹیشن الیکشن ٹریبونل نے خارج کردی، بعدازاں انھوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔عدالت نے سماعت کے دوران سوال اٹھایا کہ کیا الیکشن ٹریبونلز کا کام اب یہ رہ گیا ہے کہ انگوٹھوں کے نشانات سے ووٹوں کی تصدیق کرتا پھرے، دھاندلی کے ٹھوس شواہد نہ ہوں تو نادرا سے تصدیق نہیں کرائی جاسکتی، ایک حلقے میں دو ڈھائی لاکھ ووٹ کاسٹ ہوئے ہیں تو نادرا کیلیے تصدیق کتنا مشکل عمل ہو گا۔

محض الزام پر کسی حلقے کے نتائج کو کالعدم نہیں کیا جاسکتا۔درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیاکہ4 پولنگ اسٹیشنوں پر دھاندلی ہوئی جن کے ووٹوں کی تصدیق انھوں نے نادرا سے کرانے کی استدعا کی ، ایک پولنگ اسٹیشن پر تو تمام ووٹ ایک ہی عورت نے ڈالے بلکہ ان لوگوں کے ووٹ بھی کاسٹ کیے جو سعودی عرب میں تھے، جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں قرار دیا گیا ہے کہ نادرا سے ووٹوں کی تصدیق بنیادی حق ہے اور نہ ہی یہ معمول ہے بلکہ یہ مخصوص کیسوں میں دھاندلی کی ٹھوس شہادتیں آنے کے بعدہی ممکن ہے۔

عدالت نے سندھ اسمبلی کے ایک حلقے کے الیکشن تنازع میں عرفان گل مگسی کی اپیل بھی خارج کردی۔اس حلقے سے ضیا عباس کامیاب ہوئے تھے عرفان گل مگسی نے پٹیشن دائرکی کہ انھوں نے اصل اثاثے ظاہر نہیں کیے تاہم ٹربیونل نے اس بنیاد پر خارج کردی کہ الزامات غیر مصدقہ ہیں۔ادھرجسٹس جواد خواجہ کی سربراہی میں فل بینچ نے قرار دیا ہے کہ کوئی نااہل شخص عوام کی نمائندگی کا حق نہیں رکھتا تاہم اگر منتخب نمائندہ صادق اور امین نہ رہے تو اسے سزا دینے کیلیے مجاز عدالت کا تعین اب تک حل طلب معاملہ ہے۔

عدالت نے سینیٹرمیر محمد رند کی نااہلی کا مقدمہ لارجر بینچ میں زیر سماعت لانے کا فیصلہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ18ویں ترمیم کے ذریعے شامل کی جانے والی شق 62(1F)کی تشریح کی جائے گی۔سینیٹر میر محمد رند کو احتساب عدالت نے 23سال کیلیے نااہل کیا تھا، بلوچستان ہائیکورٹ نے اپیل پرنااہلی کا عرصہ کم کرکے10 سال کردیا تھا تاہم ان سے مالی مراعات وصول کرنے کا حکم دیا تھا۔سماعت کے دوران اپیل کنندہ کے وکیل افتخار گیلانی نے مؤقف اپنایاکہ6سال میں ان کے موکل نے کروڑوں روپے کے الائونسزحاصل کیے، ہائیکورٹ مراعات واپس لینے کاحکم دینے کی مجازنہیں تھی۔

جسٹس جوادخواجہ نے کہا اگرمنتخب نمائندہ نااہل تھا تووہ عوام کے ٹیکسوں سے مراعات حاصل کرنے کا حقدار نہیں،رقم ہر حال میں واپس کرناپڑے گی۔ افتخارگیلانی نے کہا کہ ہائی کورٹ خود سے ایک منتخب نمائندے کے کردار کافیصلہ کرنے کی مجازنہیں۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہاکہ 18ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 62 میں (1)(ایف) کا اضافہ کیا گیاجس کے مطابق اگرکوئی عوامی نمائندہ صادق اور امین نہ رہے تووہ اس وقت تک نااہل نہیں ہوسکتا جب تک مجازعدالت سے سزا نہ ہوجائے تاہم مجاز عدالت کی نشاندہی کی گئی نہ ہی کوئی طریقہ کار دیا گیا،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مجاز عدالت کونسی ہوگی۔

منتخب ہونے کے بعد صرف مخالف امیدوار معینہ وقت کے اندر نتائج کوچیلنج کرنے کا مجاز ہے، اگر بعدمیں صادق اور امین کا ایشو پیدا ہوجائے تو پھر اہلیت کو کیسے اور کہاں چیلنج کیاجاسکتا ہے، یہ اپنی جگہ ایک سوال ہے کیونکہ18 ویں ترمیم کے بعدنااہلی کافیصلہ کرنے کا اختیاراب اسپیکراسمبلی اور چیئرمین سینٹ کے ہاتھ میں نہیں رہا،یہ اختیار عدالت کاہے لیکن کونسی عدالت اس بارے میں آئین وقانون خاموش ہے۔جسٹس جوا دنے فاضل وکیل کے دلائل پرکہاکہ جج من مانی نہیں کرسکتے،وہ آئین، قانون اورنظیر کے پابندہیں لیکن جب ہر طرف خاموشی ہو تو پھرجائزہ لینے کااختیار استعمال کیا جا سکتاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔