بچت اسکیم ظالمانہ کیوں ؟

ایڈیٹوریل  جمعرات 26 مارچ 2015
جب ذمے داران ہی ایسی لاپرواہی کا مظاہرہ کریں گے تو انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا رونا درست نہیں، عدالتیں بہرحال اپنی ذمے داریاں بخوبی نبھا رہی ہیں۔ فوٹو : فائل

جب ذمے داران ہی ایسی لاپرواہی کا مظاہرہ کریں گے تو انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا رونا درست نہیں، عدالتیں بہرحال اپنی ذمے داریاں بخوبی نبھا رہی ہیں۔ فوٹو : فائل

ملک خداداد میں عوام کی دادرسی اور غریبوں کی مزاج پرسی جمہوری دور ہو یا آمرانہ کبھی دیکھنے میں نہیں آئی، خاص کر جمہوری حکومتیں تو اس معاملے میں زیادہ بدنام ہیں کیونکہ جمہوریت کی تعریف ہی، عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے عوام کے لیے، کی جاتی ہے۔

لے دے کر عدلیہ ہی وہ واحد ادارہ بچا ہے جس سے اب بھی غریبوں نے اپنی امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں اور ہماری عدلیہ بھی مظلوموں کی دادرسی میں کبھی پیچھے نہیں رہی۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی ہے کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے جو اپنے کمزور بچوں کو طاقتور سے بچاتی ہے لیکن ہمارے ملک میں الٹ ہورہا ہے۔

سیونگ سرٹیفکیٹ اسکیم میں ود ہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی کے مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیے کہ فارن کرنسی سرٹیفکیٹ رکھنے والوں پر ودہولڈنگ ٹیکس کا اطلاق نہیں ہوتا لیکن بیواؤں اور یتیموں کی جو رقوم سیونگ میں ڈال دی جاتی ہیں ان پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد ہوجاتا ہے۔

عدالت کا یہ ریمارکس چشم کشا ہے کہ آج تک بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرنے والوں سے کسی نے ٹیکس لیا اور نہ ہی ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ان کے پاس دولت کہاں سے آئی لیکن غریبوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے اور مالدار گرفت میں نہیں آتے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس صائب ہیں کہ سیونگ اسکیم کا پورا سسٹم ہی ظالمانہ ہے۔

ادھر ایک نظر ثانی اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے قرار دیا کہ سول مقدمات میں اب سپریم کورٹ ایک مختلف عدالت نظر آئے گی جہاں غیر ضروری نظرثانی کی درخواستوں کی حوصلہ شکنی کی جائے گی اور ایسے درخواست گزاروں کو جرمانہ کیا جائے گا۔

یہ حقیقت ہے کہ عدالت کا وقت بے حد قیمتی ہے اور غیر ضروری درخواستیں نہ صرف عدالت کا وقت ضایع کرنے کا باعث بلکہ بہت سے درخواست کنندگان کا اپنے مقدمات کو طول دینے کا حربہ ہے، اس تناظر میں غیر ضروری نظرثانی درخواستوں کے خلاف یہ فیصلہ نہایت صائب ہے۔ یہاں ایک اور دلچسپ صورتحال پیش آئی جب درخواست گزار نے بتایا کہ ان کے وکیل عمرے پر گئے ہیں، واپسی تک مہلت دی جائے۔

عدالت نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس نظام کو ہم نے ہی چلنے نہیں دینا، وکیل صاحب کو عمرے پر جانا تھا تو پارٹی کو اجازت دے جاتے کہ وہ اپنا وکیل کرلے۔ معاملہ مدعی سست گواہ چست کے مصداق ہے، جب ذمے داران ہی ایسی لاپرواہی کا مظاہرہ کریں گے تو انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا رونا درست نہیں، عدالتیں بہرحال اپنی ذمے داریاں بخوبی نبھا رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔