نہ بیچ ڈال قصائی کے ہاتھ مجھ کو عزیز

سعد اللہ جان برق  جمعرات 26 مارچ 2015
barq@email.com

[email protected]

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بیل جب کام کر کرکے بوڑھا اور ازکار رفتہ ہو جاتا ہے تو مالک اسے پکڑ کر قصائی کے ہاتھ بیچ ڈالتا ہے کہ ایسے ہی مرنے کے بجائے کچھ ’’ٹکے‘‘ ہی کھرے کیے جائیں، اس مضمون کو شاعر نے شعر میں یوں بیان کیا ہے کہ

لکہ زوڑ غوایا مے خرس پہ قصاب نہ کڑے
عزیز قامہ کہ دے اووتم دکارہ

یہ شعر جس شاعر کا ہے اس کا نام عبدالاکبر خان اکبر تھا اچھا خاصا خان تھا لیکن باچا خان کی تحریک میں شامل ہو کر خدائی خدمت گار بن گیا تھا، باچا خان کے ساتھ ابتداء سے صف اول میں رہا ہر سختی جھیلی، ہر نقصان اٹھایا اور ہر قدم پر متحرک رہا، عبدالاکبر خان ہی وہ نابغہ روزگار شخص تھا جس نے اسٹیج ڈرامے کو نہ صرف فروغ دیا بلکہ ڈراموں کے ذریعے خدائی خدمت گار تحریک کو بام عروج پر پہنچایا۔

وہ ڈرامے لکھتے تھے اور کسی ہال یا اسٹیج کے بجائے کھلے میدان میں جلسئہ عام میں اوپن ایئر پیش کرتے تھے ان کے لکھے ہوئے ڈراموں میں خان عبدالولی خان اور عبدالغنی خان بھی بطور چائلڈ اداکار اور پھر نوجوان کردار نبھاتے رہے ہیں، خان عبدالاکبر خان اکبر کی دیکھا دیکھی اور بھی بہت سارے شاعر تحریک کے ساتھ ہو گئے اور خدائی خدمت گار تحریک وہ واحد تحریک تھی کہ اس کے پاس جتنے شاعر مقدار اور معیار دونوں کے لحاظ سے تھے اتنے اور کسی بھی تحریک یا جماعت کے پاس نہیں تھے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس تحریک کو ساری قوت شاعروں، ادیبوں اور قلم کاروں نے دی تھی اور یہ صورت حال ابھی چند سال پہلے تک رہی اور اس امتیاز کے سرخیل عبدالاکبر خان اکبر تھے جن کے لکھے ہوئے ڈرامے آج کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

ڈرامہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے شاعر بھی تھے اور یہ معرکتہ الاراء شعر بھی اسی کا ہے، غالباً تمام پیش بین شاعروں کی طرح انھوں نے بھی یہ محسوس کیا تھا کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے، اس لیے انھوں نے مذکورہ شعر کہا جو حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا کہ ’’اے عزیز قوم اگر میں تمہارے کام کا نہیں رہا تو کسی بوڑھے بیل کی طرح مجھے قصائی کے ہاتھ مت بیچ ڈالنا‘‘ موصوف نے یہ شعر اپنے بارے میں نہیں کہا تھا کیوں کہ وہ بہت بڑے خان تھے بیل نہیں تھے بلکہ اپنی مرضی اور اپنی چراگاہ کے مالک تھے بلکہ مستقبل میں شعراء و ادباء کے ساتھ ہونے والی انہونی کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔

عبدالاکبر خان کی ایک اور وجہ شہرت بھی ہے پشاور کے جناح پارک میں فیلڈ مارشل ایوب خان پر جس لڑکے ہاشم خان نے فائر کیا تھا وہ عبدالاکبر خان کا نواسا یا پوتا تھا، بظاہر اس فائر سے ایوب خان تو بچ گیا لیکن اس کی مطلق العنانی اور آمریت کو وہ گولی عین دل کے مقام پر لگی تھی۔

جس طرح سکندر کو اس کی ماں اولمپیاس نے زیوس کا بیٹا مشہور کیا تھا اور یونانی اس کے ساتھ ایک بادشاہ یا جرنیل کے ساتھ نہیں نکلے تھے بلکہ ’’دیوتا‘‘ کے ساتھ مرنے مارنے نکلے تھے لیکن جب دیر باجوڑ میں سکندر کی ایڑی میں ایک تیر لگا تو اس تیر نے جسمانی طور پر سکندر کا کچھ بھی نہیں بگاڑا تھا لیکن اس کی دیوتائیت کے لیے موت کا باعث بن گیا اور یونانیوں نے اگلے پڑاؤ میں آگے جانے سے صاف انکار کر دیا، ایوب خان کے ساتھ بھی اس فائر بلکہ خطا ہونے والے فائر نے وہی کیا۔

یہ تو خیر ایک ضمنی سی عبرت آموز بات سامنے آگئی اصل بات ہم اس ’’بیل‘‘ کی کر رہے ہیں جو بے کار ہونے کے بعد ڈالر قصائی کے ہاتھ بیچ دیا گیا کیوں کہ اس ’’ڈالر خیز‘‘ دور میں سب سے زیادہ ’’کس مپرس‘‘ اگر کوئی طبقہ رہا ہے تو وہ شاعروں، ادیبوں اور اہل قلم کا طبقہ رہا ہے۔

گویا عبدالاکبر خان کا وہ خدشہ صحیح نکلا جو اس نے سالہا سال سے پہلے ظاہر تھا لیکن یہ بیل اتنا بے کار بھی نہیں ہوا تھا لیکن کم بخت ’’ٹریکٹر‘‘ کے آگے بیل کی بساط ہی کیا، ان بیلوں میں ہم بھی تین پشتوں سے شامل تھے اور ہمیں بھی پکڑ کر ڈالر بدست قصائی کے حوالے کیا جاتا لیکن جب ہم نے دیکھا کہ بیلوں کو پکڑ پکڑ کر بیچا جارہا ہے اور ان کی جگہ ایسے ملٹی پرپز ٹریکٹر آرہے ہیں جو سب کچھ کر سکتے تھے بمثال پانی کے تھے۔ پانی کا اپنا کوئی رنگ نہیں ہوتا جو بھی رنگ ڈالو اس میں رنگ جاتا ہے جس برتن میں ڈالو اسی کے مطابق ڈھل جاتا ہے چنانچہ ان پانی جیسوں کو جب ہم نے خدائی خدمت گاری کے کھیت میں جگہ جگہ بہتے ہوئے دیکھا ان ٹریکٹروں کو ہر جگہ چلتے ہوئے دیکھا۔

ہم بیل ضرور تھے لیکن ابھی اتنی جان باقی تھی کہ رسہ کھونٹا تڑا کر بھاگ سکیں، سو بھاگ گئے، زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا اور ہوا بھی کہ اس ’’تان‘‘ پر ملنے والی گھاس کے بجائے خود ہی کہیں جا کر چر لیں کم از کم قصائی کے ہاتھوں بکنے سے تو بچے گئے، ٹھیک ہے اب وہ دم خم نہیں رہا چرنے کے لیے مضبوط دانت بھی نہیں رہے لیکن پھر بھی جان تو بچا لائے، ڈالر قصائی کی دکان میں لٹکنے اور پارچہ پارچہ ہو کر بکنے سے تو بچ گئے، پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ بھاگ لینا بھی آدھی بہادری ہے حالاں کہ اس سے پہلے ہم نے ہمیشہ آدھی کے بجائے ’’پوری بہادری‘‘ دکھانے کی کوشش کرتے رہے تھے ۔

اور آدھی بہادری دکھانے کے بعد آج کل پوری کے بجائے آدھی میں بھی خوش ہیں، پھٹ پڑے وہ سنا جس سے پھاٹے کان … اور سونا اب ’’سونا‘‘ رہا ہی کہاں ہے وہ سونا جو فرنگی دور سے لے کر بھڑکتی بھٹیوں سے گزر کر کندن بنا تھا صرافہ مارکیٹ میں ڈالر کے عوض بدل دیا گیا اور اس کی جگہ اب جو کیٹرنگ خریدی گئی تھی وہ صرف گولڈن تھی گولڈ نہیں …کندن سے ویسے بھی کیٹرنگ کے آئٹم نہیں بنائے جا سکتے تھے صرف چھریاں چاقو ہی بنائے جا سکتے ہیں کیوں کہ چاقو چھری سے کچھ کاٹا تو جا سکتا ہے ’’کھایا‘‘ نہیں جا سکتا اور یہ اب کاٹنے کے بجائے ’’کھانے‘‘ کا موقع آیا تھا ’’خوان لغیما‘‘ پر صرف کھانے والے کھانا سے بھاگنے والے اور کھانے پر چھین جھپٹ کرنے والے بٹھائے جاتے ہیں ’’بیل‘‘ نہیں اور بیل جو بوڑھے بھی ہو چکے ہوں۔

لیکن گائے بیل کی نسل ہے ہی بدنصیب … انسان کو جب گائے دودھ دیتی ہے اسے گاؤ ماتا کہہ کر پکارتا ہے صبح و شام اس کے پیروں میں بیٹھتا ہے اسی طرح بیل کو دودھ شریک بھائی کہتا ہے اسے کھلاتا ہے پلاتا ہے تاکہ ہل کھینچتا رہے لیکن جب یہ دونوں ماں اور بھائی ازکار رفتہ ہو جاتے ہیں تو کہاں کا رشتہ کہاں کا ناطہ کون ماں اور کیسا بھائی … بڑے آرام سے اس کی رسی قصاب کو پکڑا دیتے ہیں یا خود ہی چھری پھیر کر کھا پی لیتے ہیں۔

خدائی خدمت گار تحریک کے ’’وارثوں‘‘ … اس لفظ ’’وارثوں‘‘ کی جگہ زیادہ بہتر لفظ جانشین کہنا زیادہ بہتر رہے گا کیوں کہ وارث تو تمام تر میراث کا مالک ہوتا ہے اور جانشین صرف پرانی جگہ پر بیٹھنے والے کو کہتے ہیں چاہے وہ جگہ کرسی ہو گدی ہو یا تخت اور بیٹھنے والا اٹھ کر جانے والے کا کچھ لگتا ہو یا نہ لگتا لائق ہو یا نہ ہو … وہ کوئی فاتر العقل غلام محمد بھی ہو سکتا ہے شیر خوار بلاول بھی ہو سکتا ہے دور پار کا کوئی عزیز، دارپوش، گوربا چوف، زرداری یا ہوتی بھی ہو سکتا ہے۔

لیکن خدائی خدمت گار تحریک کے ساتھ تو وہ بات ہو گئی جو اس کسان کے ساتھ ہو گئی تھی جس نے اپنا بیل اس وجہ سے بیچا کہ وہ رسی کپڑے چتھڑے چادر برقعہ سب کچھ کھا لیتا تھا اور کام کے وقت سینگ بھی مارتا تھا اور جت جانے کے بعد ساتھی بیل کے ساتھ سینگیں بھی لڑاتا تھا، اپنا بیل بیچنے کے بعد وہ منڈی پھرتا رہا تاکہ اس سے کوئی اچھا بیل خرید لے آخر کار مہینے ڈیڑھ مہینے کی تلاش کے بعد اس سے بہتر ایک بیل پسند آیا اور خرید کر گھر لے آیا بیل کو باندھ کر کسان صحن میں بیٹھ گیا۔

بیوی کھانا لائی کھانے کے بعد دونوں بیل کو دیکھ دیکھ کر خوش ہونے لگے کہ ایک بھدے بے ڈھنگے اور بدخو بیل کی جگہ اتنا اچھا اور خوب صورت بیل مل گیا، بیل بھی جو آتے ہی لیٹ گیا اٹھا چارے پر ایک دو منہ مارے پھر ساتھی بیل پر سینگ آزمائی کرنے لگا، کسان تھوڑا متوشش ہو گیا لیکن پھر بھی خوش تھا پھر بیل نے زور لگا کر تار پر لٹکے ہوئے برقعے کو منہ میں لیا اور چبانے لگا کسان کچھ ٹھٹک گیا لیکن اس وقت تو سارا شک و شبہ جاتا رہا جب نہلانے پر اس کا رنگ اتر گیا اور اندر سے وہی نقش و نگار ابھرے جو پرانے بیل کے تھے۔

دلالوں نے اسی پرانے بیل کے سینگیں ترشوار کر بال ہموار کر کے اور یہاں وہاں مہندی سرخی لگا کر ماتھے پر چمک دار رومال اور گلے میں گھنگھرؤں کی نئی گانی ڈال کر اسے ٹھگا تھا، لیکن خدائی خدمت گار تحریک کے ساتھ تو اس سے بھی برا ہو گیا اس نے بوڑھے بیلوں کو قصائی کے حوالے کیا، اور اس کی جگہ جو بیل خریدے وہ منڈی منڈی گھومے ہوئے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے ہوئے اور اے این پی میں بھی کئی بار اندر باہر ہونے والے ’’تاجرانہ‘‘ بیل تھے جو ’’کام‘‘ کے نہیں صرف ’’دام‘‘ کے ہوتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔