فیض،راشداورمیراجی…

مظہر منہاس  جمعرات 26 مارچ 2015

سوال: ایک طرف آپ کا شمار عہد حاضر کے پیغام بروں میں کیا جاتا ہے۔ آپ کو جو مقبولیت ملی ہے۔ وہ اقبال کے بعد آپ ہی کا حصہ ہے۔ حالانکہ ن م راشد اور جوش بھی اسی زمانے کے ہیں لیکن اپ کے گلے میں جتنے ہار ڈالے گے اور آپ کی آمد پر جتنی تالیاں بجتی ہیں ان کا عشر عشیر بھی دیگر شعراء کے حصے میں نہیں آیا ہے۔

دوسری طرف آپ کے بعض ناقدین جن میں بالخصوص میرا جی اور راشد کے مکتبہ خیال کے ادیب شامل ہیں ان کا کہنا ہے کہ اپ کی شاعری کا مزاج سراسر رومانوی ہے۔ وہی دس بارہ مترنم بحریں‘ جھومتے ہوئے قافیے ‘ وہ شاید اس طرح سوچتے ہیں کہ زندگی کے بنیادی جذبے مثلاؐ غصہ‘ نفرت‘ حقارت‘ خوف کا اظہار آپ کی شاعری میں نہیں ہوا ہے۔ برعکس اس کے آپ کے ہاں صرف چیزوں کو Beautify کر دینے کا عمل ملتا ہے اور یوں آپ کی شاعری کا کینوس محدود ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

فیض: راشد کی شاعری کا کینوس کون سا وسیع ہے۔ ان کی شاعری کا تو کوئی کینوس ہی نہیں ہے۔ ان کی شاعری میں سوائے ان کی ذات اور لاشعور کے اور ہے کیا؟ اسی طرح میرا جی گیتوں کے شاعر ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری کا سرے سے کوئی Content ہی نہیں ہے۔ شاعری میں کینوس سے مراد تجربے کی وسعت اور اس کا پھیلاؤ ہے۔

شاعر جب اپنی ذات سے باہر نکل کر کائنات سے اپنا تعلق جوڑنا چاہتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے اپنے تجربات کو Beautify کرنے کی کوشش کی ہے‘ کیوں کہ اس کے بغیر ابلاغ ممکن نہیں تھا۔ راشد بہت اچھے شاعر ہیں لیکن انھیں کتنے لوگ سمجھتے ہیں‘ کتنے لوگ جانتے ہیں کہ انھوں نے لکھا کیا ہے اور کہنا کیا چاہتے ہیں۔ ان کی شاعری کا تو ابلاغ ہی نہیں ہوتا اور شعر تو اسی وقت شعر ہوتا ہے‘ جب وہ دوسروں تک پہنچے۔

سوال: یعنی آپ کا اعتراض یہ ہے کہ راشد کی شاعری خواص تک محدود ہے؟
فیض: راشد تو خواص تک بھی نہیں پہنچتے۔ ان کا ابلاغ بہت ہی تھوڑے لوگوں تک ہوتا ہے۔ خواص میں بھی صرف ان چند لوگوں تک جنھیں ایک بہت ہی محدود قسم کی سہولت یا آسائش حاصل ہے کہ وہ کلاسیکی انگریزی مغربی شاعری اور مغربی ادب میں چلنے والی تحریکات مثلاً سریلزم اور ایکسپریشن ازم سے واقف ہیں اور اس محدود طبقے کو اپنی زبان و ادب سے واسطہ نہیں ہے اور پھر راشد صاحب کی تو زبان فارسی ہے اور نہایت مشکل فارسی۔ جن افراد کو دونوں زبانیں نہیں آتیں‘ وہ تو انھیں سمجھ بھی نہیں سکتے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ راشد صاحب اس ملک میں رہے ہی نہیں۔ یہاں کے لوگوں کے ساتھ ان کا رابطہ کٹ گیا۔ ان کو یہ دریافت کرنے کا موقع ہی نہیں ملا کہ ان کی بات لوگوں تک پہنچی یا نہیں۔ میرا جی کی بات عوام تک پہنچتی ہے کہ وہ گیت کے شاعر ہیں اور ان کی شاعری نہایت ہلکی پھلکی ہے۔

سوال: کیا شاعری کی کوئی ایسی قسم ممکن نہیں جسے خود کلامی سے تعبیر کیا جائے؟
فیض: بالکل ممکن ہے۔ خالص جمالیاتی شاعری کا تصور بھی موجود ہے اور اس میں فرحت کا پہلو بھی ہے جو شاعری کے لیے لازم ہے لیکن اس کا میدان بہت محدود ہے۔ داغ کی شاعری بہت اچھی ہے لیکن آپ اسے غالب کے مقابلے پر تو نہیں رکھ سکتے۔ شاعری میں مضمون کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ محض فنی کمال سے بڑی شاعری پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہی محض پروپیگنڈے سے۔ دونوں چیزیں یکجا ہوں‘ تب جا کر بڑی شاعری جنم لیتی ہے۔ خالص رومانی یا خالص غنائیہ شاعری کی تحقیر نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی اپنی جمالیاتی افادیت ہے۔

سوال: ایلیٹ نے لکھا ہے کہ ندرت تکرار سے بہتر ہے!
فیض : تکرار سے تو ہر چیز بہتر ہے آپ اقبال کی مثال لیں۔ ان سے زیادہ تکرار کس کے یہاں ملتی ہے مگر اس سے ان کی شاعری میں فرق تو نہیں آیا۔ تکرار کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ مکھی پر مکھی مارتے چلے جائیں اور دوسری یہ کہ آپ ایک پرانے مضمون کو اس طرح آگے بڑھائیں کہ اس میں حسن پیدا ہو جائے اور تکرار باقی نہ رہے۔

سوال: مغرب میں بہت سے ادیب ایسے ہیں جنہوں نے بہ یک وقت تخلیق و تنقید سے اپنا رشتہ قائم رکھا۔ مثلاً ایلیٹ نے شاعری بھی کی اور تنقید بھی کی۔ لارنس نے بھی فکشن اور تنقید میں وسیع سرمایہ چھوڑا۔ ہمارے ہاں فراق اور حسن عسکری اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ آپ نے بھی شاعری کے ساتھ تنقید کو بھی اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا لیکن’’میزان‘‘ کے بعد آپ نے تنقید پر سنیدگی سے توجہ نہیں دی۔

اس کی کیا وجہ ہے‘ خصوصاً اس پس منظر میں کہ ہمارے ہاں مدتوں سے سنجیدہ تنقید کی کمیابی کا رونا رویا جاتا رہا ہے؟
فیض: (ہنس کر) توجہ دینی چاہیے تھی لیکن نہیں دی۔ بہت سے کام ایسے تھے جن پر توجہ نہیں کی‘ آخر کیا کیا کرتے۔ شاعری کرتے‘ صحافت کرتے‘ مدرسی کرتے یا تنقید لکھتے۔ زندگی میں بہت کچھ کرنا تھا لیکن ضروری تو نہیں کہ آدمی جو چاہے وہ پورا ہی ہو۔ آپ کی یہ بات درست ہے کہ ہمارے ہاں تنقید نہیں لکھی گئی ہے۔ تنقید لکھنے کے لیے آدمی کو بہت کومپی ٹینٹ ہونا چاہیے۔ ہمارے بیش تر نقاد تخلیقی صلاحیت سے محروم ہیں اور تخلیقی نقاد تو صرف فراق صاحب ہیں۔

سوال: حسن عسکری صاحب کے بارے میں کیا رائے ہے؟
فیض: عسکری صاحب سمجھ دار نقاد تھے‘ ان میں حساسیت بھی تھی مگر کہ آخری عمر میں اس طرف نکل گئے تھے جو ان کا میدان نہیں تھا۔

(ڈاکٹر طاہر مسعود کی کتاب: ’’یہ صورت گر کچھ خوابوں کے‘‘ سے اقتباس۔ بشکریہ :دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔