اردو بولنے والے اپنے کلچرل سے بچھڑ گئے ہیں

اقبال خورشید  جمعرات 26 مارچ 2015
سندھی کے ممتاز ادیب، مترجم اور دانش وَر، آغا سلیم کے حالات و خیالات۔ فوٹو: فائل

سندھی کے ممتاز ادیب، مترجم اور دانش وَر، آغا سلیم کے حالات و خیالات۔ فوٹو: فائل

ہمہ تن گوش ہو کر سنیے کہ اُن کے پاس ایک اَن کہی کہانی ہے۔ تاریخ اس قصّے میں روح پھونکتی ہے، تصوف فکری گہرائی عطا کرتا ہے، اور ایک دل پذیر شاہ پارہ بنتا ہے۔ شاہ پارہ، جو صوفیا کے پیغام کی تفسیر ہے، جو انا کا خول توڑ کر کامل آزادی کی ترغیب دیتا ہے!

آغا سلیم کی کئی جہتیں ہیں۔ تین عشرے ریڈیو پاکستان میں بیتے۔ ادارت اور کالم نگاری کا وسیع تجربہ۔ سندھی فکشن نگاری میں سند۔ مگر جب صوفیا پر تحقیق شروع کی، تو سب کچھ تج دیا۔ یہ اُن کا ناول ’’ہمہ اوست‘‘ تھا، جسے لکھتے سمے تصوف کی بابت پڑھا، اور سرشار ہوگئے۔

اِس 80 سالہ شخص کو نہ تو اپنی تصانیف کی تعداد یاد ہے، نہ ہی سن اشاعت۔ اور اِس کی ضرورت بھی نہیں۔ تصوف کا درک ہی اصل حوالہ۔ شاہ لطیف کے کلام کو پختگی کے ساتھ اردو اور انگریزی کے قالب میں ڈھالنا اہم ترین کارنامہ۔ سچل سرمست اور بابافرید کے کلام کا بھی ترجمہ کر چکے ہیں۔ شاہ حسین اور معروف ہندو صوفی شاعر، سامی پر بھی خاصا کام ہے۔

سندھ، آغا سلیم کے نزدیک، اپنی صدیوں پر محیط ثقافت میں جی رہا ہے۔ اجرک، جو موئن جودڑو سے ملنے والے مجسموں میں بھی دِکھائی دیتی ہے، آج بھی یہاں کی ثقافت کا جزو ہے۔ اِسی طرح بھورینڈو موئن جودڑو کا ساز ہے، جس کے تین سوراخوں سے سات سُر نکلتے ہیں، یہ ساز اب بھی موجود ہے۔

صوفیوں کی سرزمین پر بڑھتی فرقہ واریت افسردہ کر دیتی ہے۔ ماضی کی رواداری کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک انتہاپسندانہ فکر مقامی نہیں، یہ باہر سے آئی ہے۔ مستقبل کو ماضی سے جوڑتے ہیں،’’صوفیا تو بعد میں آئے، آپ موئن جودڑو کو دیکھیں۔ اُدھر کھدائی میں کوئی مہلک ہتھیار نہیں ملا۔ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ وہ لوگ کس طرح انصاف قائم رکھتے تھے، بیرونی حملوں سے محفوظ رہتے تھے۔ دراصل وہ خدا کو توانائی تصور کرتے تھے، خود کو اس کا مظہر قرار دیتے۔ یعنی اُن کے ہاں صوفیانہ تصور قائم تھا۔ آپ نے سندھ کے مستقبل کے بارے میں پوچھا۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کیوں کہ شر بہت طاقت وَر ہے۔‘‘

سندھی ادب پر بھی بات ہوئی۔ کہنے لگے؛ فکشن اور شاعری، دونوں میدانوں میں کام ہورہا ہے۔ کتابیں چھپ رہی ہیں، بک رہی ہیں۔ البتہ اردو والوں تک خبر نہیں پہنچتی۔ سندھی فکشن اُن کے مطابق اِن معنوں میں تو ترقی پسند افکار کے زیراثر ہے کہ وہ ظلم اور زیادتی کی نشان دہی کرتا ہے، پر مارکسی ہونے کی شرط عاید نہیں کرتا۔ جدید رجحانات بھی ملتے ہیں۔ ہیں۔

بیرونی دنیا میں ادیبوں کو ایک ہی قبیلے کا فرد تصور کیا جاتا ہے، مگر ہمارے ہاں سندھی اور اردو ادیبوں میں بہت فاصلہ نظر آتا ہے؟ اس بابت کہنا ہے،’’زبان رکاوٹ بن جائے، تو اِسے عبور کرنا مشکل ہے۔ ہم اردو زبان جانتے ہیں، اردو ادیبوں کو پڑھتے ہیں۔ البتہ اردو والے سندھی نہیں جانتے۔ میرے ناول کا اردو میں ترجمہ ہوا، تو آپ نے پڑھا۔ مجھے اردو داں طبقے سے کوئی شکایت نہیں۔ ہاں، اِسی بات کا قلق ضرور ہے کہ پی ٹی وی ہو یا ریڈیو پاکستان؛ تمام اداروں پر اردو کا قبضہ رہا۔‘‘

ماضی بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں؛ ادب اوائل عمری سے ان کی توجہ کا محور رہا۔ مرزا قلیچ بیگ اور سندھ کے دیگر کلاسیکی قلم کاروں کو جم کر پڑھا۔ اردو جانتے تھے۔ گھر میں ’’بیسویں صدی‘‘ آیا کرتا تھا۔ اس زبان کا ترقی پسند لٹریچر مطالعے کا مرکز۔ دونوں زبانوں میں لکھا، پر آغاز سندھی سے ہوا۔ نویں میں تھے، جب پہلی کہانی شایع ہوئی۔ آنے والے برسوں میں تخلیقات مختلف جراید کا حصہ بنیں۔ کالج کے زمانے میں ’’سندھی افسانہ‘‘ کے عنوان سے اردو میں ایک جامع مضمون لکھا، جو ’’ماہ نو، کراچی‘‘ میں چھپا۔

پہلا ناول ’’اندھیری دھرتی روشن ہاتھ‘‘ تھا، جو اِس خیال کے گرد گھومتا کہ انسان مایوسی کے اندھیرے میں روشنی کی کرن ہے۔ ناول نے بھرپور توجہ حاصل کی۔ ان کی پہچان بنا۔ 84ء میں دوسرا ناول ’’ہمہ اوست‘‘ شایع ہوا۔ شاہ عنایت صوفی مرکزی کردار۔ ’’روشنی کی تلاش‘‘ اور ’’ادھورا انسان‘‘ ناولٹ۔ ’’دھرتی روشن ہے‘‘ کہانیوں کا مجموعہ۔ شعری مجموعہ ’’پت جھڑ اور چاند‘‘ کے زیر عنوان شایع ہوا۔ کہتے ہیں،’’میں شاعر نہیں تھا۔ مگر جب شاہ لطیف کا ترجمہ کرنے بیٹھا، تو شاہ نے مجھے بھی شاعر بنا دیا۔‘‘

آغا سلیم کے سفر ناول نگاری پر بات ہو، تو قرۃ العین حیدر کے ’’آگ کا دریا‘‘ کا تذکرہ آتا ہے۔ کہتے ہیں،’’وہ نوابی کلچر کی شکست و ریخت کا مرثیہ ہے۔ تقسیم، بلاشبہہ، بہت بڑا المیہ تھا۔ لوگ صدیوں سے جن گھروں میں آباد تھے، اُن سے بے دخل کر دیے گئے۔ ہمارے دوستوں میں ایک شخص ہندوستان سے آیا تھا۔ وہ کہا کرتا کہ شروع شروع میں یہاں کی کوئل کی آواز بھی اسے اجنبی لگتی تھی۔ خیر، آگ کا دریا پڑھ کر خیال آیا کہ جیسے طرحی غزل ہوتی ہے، اس طرح میں طرحی ناول لکھوں، جس میں تاریخی پس منظر کے ساتھ سندھ کا مرثیہ بیان کروں۔ یہ بتاؤں کہ ہم نے کیا کچھ برداشت کیا۔ میرے پہلے ناول کا ہیرو سندھی اور ہیروئن اردو اسپیکنگ ہے۔ وہ کہتی ہے: ہم یہاں سندھی نہیں، پاکستانی بننے آئے ہیں۔ جواب میں ہیرو کہتا ہے: پاکستان کہیں آسمان میں تو نہیں۔ یہ جس زمین پر بنا ہے، وہ سندھ ہے۔ پاکستانی بننے سے قبل تمھیں سندھی بننا پڑے گا۔‘‘

آغا سلیم کے مطابق شاہ کا کلام 30 راگوں میں ہے، کچھ کلاسیکی، کچھ لوک راگ۔ اُنھوں نے ترجمہ کرتے ہوئے اِس ترتیب کو پیش نظر رکھا۔ موسیقیت برقرار رکھی، تاکہ اُنھیں اصل دھنوں میں گایا جاسکے۔ اِس ترجمے کو محکمۂ ثقافت، سندھ نے شایع کیا۔ سی ڈی بھی ریلیز کی۔ وہ شاہ کو ایک عظیم موسیقار کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ ’’افلاطون نے ’ری پبلک‘ میں حکم رانوں کے لیے موسیقی کو ضروری ٹھہرایا تھا۔ موسیقی انسان کو رفعتیں عطا کرتی ہے۔ شاہ لطیف کے ہاں بھی یہی معاملہ ہے۔ میری خواہش ہے کہ شاہ لطیف، بابا فرید اور سچل نصاب میں شامل کیے جائیں۔ لوگوں کو موسیقی سِکھائی جائے۔ یہ انسان کو انا سے آزاد کرتی ہے۔ دھمال آپ کو لبریٹ کرتا ہے۔‘‘

شیخ ایاز بھی شاہ لطیف کا اردو میں ترجمہ کر چکے ہیں۔ آغا سلیم اس کاوش کو سراہتے ہیں،’’وہ معیاری ترجمہ ہے۔ انھوں نے اردو کی کلاسیکی روایت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ترجمہ کیا تھا۔ دراصل اردو زبان کی دو روایات ہیں۔ اردو داں طبقے کو علم ہی نہیں کہ اُن کے ساتھ کیا سانحہ بیت گیا۔ سارا ثقافتی ورثہ چھین لیا گیا۔ آپ کا ذہن فقط غزل کی ہیئت اور فارسی لب و لہجے سے مانوس ہے۔ خسرو کا شعر آپ کو سمجھ میں نہیں آتا۔ ’کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق‘؛ یہ آپ کا مجموعی لہجہ بن گیا۔ میں غالب کا مداح ہوں، مگر سچ یہ ہے کہ آپ کا یہ لہجہ نہیں تھا۔ خسرو کا وہ انداز کہاں گیا؛ گوری سوئے سیج پر مکھ پر ڈارے کھیس۔ میں نے شاہ لطیف کا خسروی زبان میں ترجمہ کیا ہے، وہ شاید لوگوں کے لیے قبول کرنا مشکل ہے۔ وہ اِس لہجے سے آشنا نہیں۔ اردو بولنے والے اپنے کلچرل سے بچھڑ گئے ہیں۔ آپ نے اپنا پورا لوک ورثہ چھوڑ دیا۔‘‘

شاہ لطیف کے ساتھ بابا فرید گنج شکر کے بھی معتقد۔ بہ قول ان کے، بابا فرید اردو، سرائیکی، سندھی اور پنجابی کے پہلے شاعر تھے، اِس ضمن میں اسناد موجود ہیں۔ کلام صوفیا کے تراجم کا مقصد یوں بیان کرتے ہیں،’’میں چاہتا تھا کہ لوگ اپنے اپنے کنویں سے باہر نکلیں۔ ایک دوسرے کے قریب آئیں۔‘‘

ادبی نظریہ پوچھا، تو کہنے لگے؛ ادیب کے لیے سب سے اہم موضوع ’’انسان‘‘ ہوتا ہے۔ ’’لکھنا ایک ادیب کا ناانصافیوں کے خلاف احتجاج ہے، تاہم شاعری اور فکشن میں کچھ بنیادی اصولوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ واقعات کو خوب صورت الفاظ سے میں کر پیش کیا جاتا ہے۔‘‘

موجودہ عہد کے شعرا میں وہ شیخ ایاز اور مجید امجد کو سراہتے ہیں۔ فکشن میں کرشن چندر کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جو بھی سُر میں گاتا ہے، اچھا لگتا ہے۔ فلموں میں ’’جوگن‘‘ پسند آئی۔ دلیپ کمار کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/Book9.jpg

’’میں تو پیدا ہی ریڈیو کے لیے ہوا تھا‘‘

حالاتِ زندگی پر ایک نظر

اجداد کا تعلق قندھار، افغانستان سے۔ اصل نام خالد خان۔ آغا قبیلہ۔ 7 اپریل 1935 کو جس شکارپور میں آنکھ کھولی، وہ آج بھی یادیں میں محفوظ ہے۔ وسطی ایشیا کی شاہ راہ پر واقع اس شہر سے تجارتی قافلے گزرا کرتے۔ معاشی اور تعلیمی طور پر مستحکم۔ انگریزی اسکول، جدید اسپتال۔ سندھ بھر میں 60 گریجویٹس، فقط شکار پور میں 70۔ بٹوارا، اُن کے بہ قول، شکار پور کے لیے تباہی لایا۔ ہندو چلے گئے، تجارت ختم ہوئی۔ ’’47ء کے بعد وہاں مہاجر آکر آباد ہوئے۔ میرے ایک ٹیچر مہاجر تھے۔ کیا نفیس آدمی تھے۔ مگر پھر مہاجرین شکارپور کو غیرمحفوظ سمجھنے لگے، اور دھیرے دھیرے وہاں سے چلے گئے۔‘‘

والد کا نام؛ آغا عبدالکریم خان۔ انڈین آرمی میں کیپٹن۔ آغا سلیم بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے۔ کم سن ہی تھے کہ والدین کا انتقال ہوگیا۔ سانحے نے گہرے اثرات مرتب۔ اب بڑے بھائی نے گھریلو ذمے داری سنبھالی۔ وہ بھی فوج میں کیپٹن۔ سلیم صاحب فوج میں جانا چاہتے تھے، مگر بڑے بھائی کا خیال تھا کہ اُن کی طبیعت اِس کے لیے موزوں نہیں۔

تقسیم ہند کے بعد بھائی انڈس رینجرز سے وابستہ ہوگئے۔ یوں 48ء میں خاندان حیدرآباد آگیا۔ نئے ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ کھیلوں میں والی بال دل چسپی کا محور۔ طالب علم اوسط درجے کے۔ گورنمنٹ ہائی اسکول، حیدرآباد سے 54ء میں میٹرک، سچل سرمت کالج سے 58ء میں گریجویشن کیا۔ کالج میگزین کے ایڈیٹر رہے۔ طلبا سیاست سے زیادہ ادبی سرگرمیاں توجہ کا محور تھیں۔

میٹرک کے بعد ہی عملی میدان میں قدم رکھ دیا۔ ’’حیدرآباد ٹائمز‘‘ اور روزنامہ ’’کارواں‘‘ میں انٹرن شپ کی۔ پبلک سروس کا امتحان دے کر 63ء میں ریڈیو پاکستان سے پروگرام آرگنائزر کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے۔ زیادہ وقت حیدرآباد اور کراچی اسٹیشنز پر گزرا۔ پنڈی، اسلام آباد، ملتان، کوئٹہ، اسکردو اور گلگت میں بھی کام کیا۔ نگری نگری کا سفر اس فکشن نگار کے لیے بڑا سودمند رہا۔ زبانوں کا رشتہ سمجھ میں آیا۔ سندھی اور گلگتی زبانوں کا تعلق آشکار ہوا۔ 95ء میں کنٹرولر، ایکسٹرنل سروسز کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ کہتے ہیں؛ وہ پیدا ہی ریڈیو کے لیے ہوئے تھے۔ وہاں کے جمہوری نظام کا بالخصوص ذکر کرتے ہیں، جہاں فرد واحد فیصلہ نہیں لے سکتا تھا، سب کی رائے اہم تھی۔

اب صحافت پر بات ہوجائے۔ عبید اللہ بیگ کے کہنے پر ’’حریت‘‘ میں اردو میں کالم نگاری شروع کی تھی۔ انگریزی اور سندھی میں بھی اس صنف میں طبع آزمائی کی۔ تحریریں ’’ڈان‘‘ اور ’’کاوش‘‘ سمیت مختلف اخبارات میں شایع ہوتی رہیں۔ ریٹائرمینٹ کے بعد سندھی کے معروف اخبار ’’جاگو‘‘ سے بہ طور ایڈیٹر وابستہ ہوگئے۔ تقریباً دو سال وہاں کام کیا، لیکن کچھ وجوہات کے باعث اخبار بند ہوگیا۔ 97ء میں دوستوں کے ساتھ کراچی سے سندھی اخبار ’’سچ‘‘ نکالا۔ ایڈیٹر کے فرائض انجام دیے، تاہم مالکان سے اختلافات کی وجہ سے وہ بھی بند ہوا۔ ان واقعات کے باعث کافی مایوس ہوئے، عملی صحافت سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔

62ء میں ان کی شادی ہوئی۔ خدا نے ایک بیٹی، دو بیٹوں سے نوازا۔

محمد بن قاسم یا صوفیا؟

سندھ میں فروغ اسلام کا سہرا، ان کے بہ قول، صوفیا کے سر ہے۔ محمد بن قاسم کو فقط ایک فاتح ٹھہراتے ہیں۔ کچھ دعوے متنازع بھی ہیں۔ بہ قول اُن کے،’’اموی دور میں جب سندھ پر قبضہ ہوا، تو ہندوؤں کے اسلام قبول کرنے پر پابندی عاید کر دی گئی کہ جزیے کی رقم خاصی کم ہوگئی تھی۔ عمر بن عبدالعزیز نے آکر اس پابندی کو ہٹایا۔ اِسی طرح محمد بن قاسم کی آمد سے قبل یہاں چند عرب قبیلے آباد تھے، جنھیں راجا داہر نے پناہ دی تھی۔ جب اموی فوج نے حملہ کیا، تو وہ داہر کی فوج کے ساتھ اُن کے خلاف لڑے۔‘‘

جب تاریخی سند چاہی، تو کہنے لگے،’’میں محقق نہیں، ادیب ہوں۔ اپنے لیے پڑھتا ہوں۔ البتہ آپ غیرجانب دار مورخین سے پوچھیں، وہ اس کی تصدیق کریں گے۔‘‘

بحیرۂ عرب نہیں، ارب۔۔۔

بحیرۂ عرب کے نام پر شدید تحفظات ہیں۔ کہنا ہے،’’سندھ کا سمندر عربی سمندر کیسے ہوسکتا ہے۔ دراصل سکندر کے زمانے میں موجودہ کراچی میں ارب نامی ماہی گیر قبیلہ رہتا تھا، جو لسبیلہ تک آباد تھا۔ حب ندی بھی اربی نہر کہلاتی تھی۔ یہ قبیلہ آج بھی گھارو سے آگے آباد ہے۔ تو بعد میں اِسے بحیرۂ عرب کر دیا گیا۔ اِس کا تذکرہ میں نے اپنی تازہ ترین کتاب Alexander: Conquest of Indus Valley میں تفصیل سے کیا ہے۔‘‘

زمیں داری کے ہوتے ہوئے جمہوریت کا بھلا کیا امکان!

پیپلزپارٹی اُن کے نزدیک نہ تو سندھ کی توقعات پر پوری اتری، نہ ہی اتر سکتی ہے۔ ’’ہمارے ہاں سوشل سائنٹسٹ پیدا نہیں ہوئے۔ ادیب، شاعر اور صحافی دانش وَر بن گئے۔ انھیں اندازہ ہی نہیں کہ اس دھرتی کا مزاج کیا ہے۔ یہ زرعی سوسائٹی ہے۔ یعنی زمیں دار اور ہاری۔ زمیں دار کی طاقت کے لیے سسٹم ہاری پر ظلم کا تقاضا کرتا ہے۔ اِس سسٹم میں تصوف بھی ملتا ہے، امن بھی ہوتا ہے۔ ملتان میں بھی یہی نظام رہا۔ جمہوریت انفرادیت پر مبنی نظام ہے۔ جب مغرب میں زرعی نظام ختم ہوا، تو فرد کی اہمیت سامنے آئی، کوئی کسی کا غلام نہیں رہا۔ جمہوریت آگئی۔ ہمارے ہاں زمیں داری کے خاتمے کے بغیر مکمل جمہوریت نہیں آسکتی۔‘‘

بھٹو کی پھانسی انتہائی کرب ناک لمحہ تھا۔ ’’بھٹو نے کئی غلطیاں کیں، مگر یہ جواز ضیا الحق کو درست ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں۔‘‘ پارٹی سے متعلق کہنا ہے،’’بھٹو کے ساتھ ہی پیپلزپارٹی پھانسی پر لٹک گئی تھی۔ بعد والے اِسے کیا چلاتے۔‘‘

علموں بس کریں او یار۔۔۔

جب کہا؛ ہمارے ہاں منطق پر عشق غالب رہا، تو اثبات میں سر ہلایا۔ ’’یہ بات دُرست ہے۔ دراصل رائج عقاید منطق کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے۔ امام غزالی بہت بڑے عالم تھے۔ جب منطق کے میدان میں اُنھوں نے خود کو متزلزل پایا، تو صوفیوں میں شامل ہوئے، اور وہی بات کہی، جو بابا بلھے شاہ نے کہی تھی: علموں بس کریں او یار، اکو الف تیرے درکار۔ امام غزالی نے یہ تصور شروع کیا، جو ہمارے ہاں بھی رائج ہوا۔ ورنہ ہمارے ہاں بو علی سینا، ابن عربی اور ابن رشد جیسے فلسفی گزرے، جو منطق کے قائل تھے۔‘‘

اِس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عشق کے غلبے سے ہم سائنسی طرز فکر سے دُور ہوگئے۔ ’’دراصل تصوف کی جڑیں بڑی گہری اور فلسفیانہ ہیں۔ ابن عربی کو پڑھیں، تو لگتا ہے کہ کسی سائنس داں کو پڑھ رہے ہیں۔ البتہ آج جو درگاہیں بنی ہوئی ہیں، خلیفہ بیٹھے ہوئے ہیں، چندے کے نام پر روحانی تاوان وصول کیا جارہا ہے، یہ تصوف نہیں۔ یہ درگاہیں، خانقاہیں تصوف کی بگڑی ہوئی شکل ہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔