جرمن طیارہ معاون پائلٹ نے خود گرایا، فرانسیسی حکام کا انکشاف

اے ایف پی/ویب ڈیسک  جمعرات 26 مارچ 2015
گزشتہ روز پیش آنے والے طیارہ حادثے میں جہاز کے عملے سمیت 144 افراد ہلاک ہوئے،
فوٹو اے ایف پی

گزشتہ روز پیش آنے والے طیارہ حادثے میں جہاز کے عملے سمیت 144 افراد ہلاک ہوئے، فوٹو اے ایف پی

پیرس: فرانسیسی حکام نے حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کے بلیک باکس سے حاصل ہونے والی معلومات کے بعد انکشاف کیا ہے کہ جرمن وِنگز کے گر کر تباہ ہونے والے طیارے کو معاون پائلٹ  نے تباہ کیا۔

گزشتہ روز فرانس کے پہاڑوں میں گر کر تباہ ہونے والے طیارے کے حادثے کی تفتیش کرنے والے فرانسیسی ماہر برائس روبن نے بلیک باکس سے ملنے والی آوازوں کا تجزیہ کرتے ہوئے خدشہ ظاہرکیا ہے کہ حادثے کے وقت طیارے کا پائلٹ کاک پٹ میں موجود نہیں تھا اور جب معاون کپتان کاک پِٹ میں تنہا رہ گیا تو اس نے دانستہ طور پر طیارے کی بلندی کم کرنا شروع کر دی اور جس وقت پائلٹ واپس کاک پِٹ میں آنے کی کوشش کر رہا تھا عین اس وقت کاک پِٹ کے اندرمکمل خاموشی تھی۔

حکام نے حادثے کی مزید وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ بلیک باکس میں ریکارڈ آوازوں سے واضح طور پر پتا چل رہا ہے کہ طیارہ گرنے سے قبل مسافروں کے چیخنے کی آوازیں آرہی تھیں جب کہ طیارہ جب زمین پر گرا تو اس وقت بھی کو پائلٹ زندہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ طیارے کے گرتے وقت پائلٹ نے معاون پائلٹ کو اس کا کنٹرول سنبھالنے کی ہدایت دی اور عین اسی لمحے سیٹ کو پیچھے کرنے اور کاک پٹ کا دروازہ بند ہونے کی آواز سنائی دی جب کہ معاون پائلٹ نے کنٹرول سنبھالا اور جیسے ہی وہ تنہا ہوا اس نے فلائٹ مانیٹرنگ سسٹم پر جہاز کے نیچے اترنے کا بٹن دبا دیا جس سے پتا چلتا ہے کہ ایسی خطرناک جگہ پر جہاز کو نیچے کرنے کا عمل جان بوجھ کر ہی کیا جاسکتا ہے۔

تفتیش کار نے بلیک باکس کی آوازوں کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پائلٹ کے کہنے پر معاون پائلٹ کا کاک پٹ کا دروازہ نہ کھولنا حیرت انگیز تھا اور پھر اس کا بلندی سے نیچے آنے کا بٹن دبانا سوائے جہاز کو تباہ کرنے کے ارادے کے کچھ اور نہیں لگتا تاہم معاون پائلٹ کے شدت پسندوں سے تعلق کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

واضح رہے کہ جرمنی  کا مسافر طیارہ منگل کے روز بارسلونا سے ڈزلڈورف جاتے ہوئے فرانس کے پہاڑی سلسلے ’’فرنچ ایلپس‘‘ پرگر کر تباہ ہو گیا تھا جب کہ حادثے میں طیارے کے عملے سمیت 144 افراد ہلاک ہوئے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔