پڑوسیو! موقع ہاتھ سے نکل گیا

فہد کیہر  جمعـء 27 مارچ 2015

دورہ آسٹریلیا میں پے در پے شکستوں کے بعد جب بھارت کا حال برا تھا تو عالمی کپ کے پہلے مقابلے میں پاکستان کے خلاف جیت نے اس میں ایک نئی توانائی بھری۔ اب اسے توانائی کہیں یا ہوا، کیونکہ اگر حقیقی طاقت ہوتی تو اعزاز کے دفاع کے لیے آخری مرحلے تک لے کر جاتی۔

لیکن سیمی فائنل میں ثابت ہوا کہ یہ ہوا تھی جو پاکستان، اعصابی طور پر کمزور جنوبی افریقہ، پھر چار ننھی منی ٹیموں اور پھر کوارٹر فائنل میں بنگلہ دیش کے خلاف جیت کے بعد سیمی فائنل میں آ کر مکمل طور پر نکل گئی۔ بھارت آسٹریلیا کے خلاف سیمی فائنل میں اتنی ہی بری طرح شکست سے دوچار ہوا، جس طرح عالمی کپ سے پہلے حریف کے خلاف تمام مقابلوں میں ہوا تھا، ٹیسٹ ہوں یا ایک روزہ۔

آسٹریلیا جو کبھی عالمی کپ کا کوئی سیمی فائنل نہیں ہارا، بلاشبہ اس مقابلے کے لیے فیورٹ تھا لیکن وہ اس ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست نہیں رہا تھا۔ اسے ایک گروپ مقابلے میں نیوزی لینڈ سے شکست ہو چکی تھی لیکن بھارت اب تک کامیابیاں سمیٹتا آیا تھا۔ لیکن جب سیمی فائنل میں اعصاب کا پہلا بڑا امتحان ہوا تو ایک مرتبہ پھر ڈھیر ہو گیا۔

جن گیند بازوں نے پورے عالمی کپ میں تمام ٹیموں کی سب وکٹیں حاصل کیں، آسٹریلیا کی نہ تمام وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے اور نہ ہی انھیں 328 رنز بنانے سے روک سکے۔ پھر جن بلے بازوں کی دھاک تھی، وہ ایک بڑے ہدف کے تعاقب میں بری طرح ناکام ہوئے، یہاں تک کہ متعدد مواقع ملنے کے باوجود کوئی بڑی اننگز نہ کھیل سکے۔ یہاں تک کہ بھارت 95 رنز سے ہار گیا، عالمی کپ کے سیمی فائنل کی تاریخ کی سب سے بڑی شکست۔ اتنی بری طرح تو 2003ء  میں کینیا بھی نہیں ہارا تھا جتنی بڑی ہزیمت بھارت کو اٹھانی پڑی۔

لیکن بھارت کے ساتھ ایسا ہوا کیوں؟ صرف ایک کھلاڑی کی وجہ سے، جس کا نام ہے  اسٹیون اسمتھ! یہ وہ بلے باز ہے جس نے عالمی کپ سے پہلے بھارت کو بارڈر-گاوسکر ٹرافی سے محروم کیا اور اب عالمی کپ سے بھی۔

اندازہ لگائیے۔ دسمبر 2014ء  میں ایڈیلیڈ کے مقام پر 162 اور 52 رنز کی ناٹ آؤٹ اننگز، پھر برسبین میں 133 رنز، ملبورن میں 192 اور سڈنی میں 117 اور 71 رنز کی باریاں۔ عالمی کپ سے پہلے سہ فریقی سیریز میں 47 اور اب سڈنی کے مقام پر عالمی کپ سیمی فائنل میں 105 رنز۔ ماضی قریب میں بھارت کا اتنا بڑا  “دشمن” ہم نے نہیں دیکھا۔

جب آسٹریلیا صرف 15 رنز پر ڈیوڈ وارنر کی وکٹ کھو بیٹھا تھا تو اسمتھ میدان میں داخل ہوئے اور اس کے بعد ایک لمحے کے لیے بھی بھارت مقابلے پر حاوی نہیں ہو سکا۔ انھوں نے دوسری وکٹ پر آرون فنچ کے ساتھ 192 رنز کی رفاقت قائم کی اور 34 اوورز میں آسٹریلیا کے اسکور کو 197 رنز تک پہنچایا۔ جس میں ان کا حصہ 93 گیندوں پر 105 رنز کا تھا۔ دو چھکوں اور 11 چوکوں سے مزین یہ اننگز آسٹریلیا کو 328 رنز تک پہنچانے میں کامیاب ہوئی، جو بھارت کے لیے کافی سے زیادہ تھا۔

اگر کاغذ پر دیکھیں تو بھارت کے لیے 329 رنز بہت زیادہ نہیں تھے لیکن عالمی کپ، پھر اس کا سیمی فائنل اور وہ بھی میزبان کے خلاف۔ بس یہی دباؤ بھارت کو لے ڈوبا۔ جس طرح کا آغاز بھارت نے لیا تھا، اسی سے اندازہ ہو رہا تھا کہ ان کا اعتماد متزلزل ہے۔

شیکھر دھاون اور روہیت شرما اننگز کے آغاز ہی میں کئی مرتبہ بچے، یہاں تک کہ ایک، ایک بار انھیں نئی زندگی بھی ملی جب ان کے کیچز چھوٹے۔ ان مواقع کی بدولت وہ اسکور کو 76 رنز تک لے جانے میں کامیاب ہوئے لیکن جیسے ہی شیکھر دھاون آؤٹ ہوئے، ‘پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی’۔ کچھ دیر بعد ویراٹ کوہلی ‘بہت بے آبرو ہوکر’ نکالے گئے، صرف ایک رن بنانے کے بعد۔ روہیت شرما اور سریش رینا بھی بلّا بغل میں دبائے خاموشی کے ساتھ واپس آ گئے۔

کپتان مہندر سنگھ دھونی نے بھارت کی لاج رکھنے کی کوشش کی لیکن ایک ‘عظیم بیٹنگ لائن’ کی قلعی کھل چکی تھی۔ جو دباؤ جھیلنے سے عاری دکھائی دی اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ معمولی حریفوں کے خلاف مسلسل فتوحات نے ان کے اندر سے جارح مزاجی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ بہرحال، دھونی کی 65 گیندوں پر اتنے ہی رنز کی اننگز کے باوجود بھارت کے لیے جیتنا ناممکنات میں سے تھا یہاں تک کہ سب کھلاڑی 233 رنز پر آؤٹ ہو گئے۔ اب 29 مارچ کو ملبورن کے تاریخی میدان پر دونوں میزبان آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ آمنے سامنے آئیں گے۔ یہ 1987ء  کے عالمی کپ کے بعد پہلا موقع ہو گا کہ فائنل کسی ایشیائی ٹیم کے بغیر کھیلا جائے گا۔

1992ء میں پاکستان اور 1996ء میں سری لنکا نے فائنل جیتا تھا۔ 1999ء میں پاکستان فائنل تک پہنچا، ناکام رہا لیکن روایت ضرور برقرار رکھی۔ پھر 2003ء  میں بھارت اور 2007ء میں سری لنکا نے فائنل میں ناکامی کا منہ دیکھا اور 2011ء میں یہی دونوں حریف ممبئی میں ایک دوسرے کے سامنے آئے۔ اب 28 سالہ ایشیائی روایت کا آسٹریلیا کے ہاتھوں خاتمہ ہو گیا۔ جس نے کوارٹر فائنل میں پاکستان اور سیمی فائنل میں بھارت کو چت کیا اور یوں سیمی فائنل میں اپنی فتوحات کا سلسلہ برقرار رکھا۔

اب مقابلہ ہے دو پائے کی ٹیموں کے درمیان۔ دونوں گروپ مرحلے میں جب آمنے سامنے آئی تھیں تو ہمیں ایک تاریخی مقابلہ دیکھنے کو ملا تھا جس میں نیوزی لینڈ نے محض ایک وکٹ سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اب ملبورن میں جب دونوں مقابل آئیں گے تو کیا ہو گا؟ اس کے لیے بس دو دن کا انتظار کرنا ہے۔ البتہ پڑوسیوں یعنی بھارت کے لیے “موقع” ہاتھ سے نکل گیا، “ہم واپس نہیں کریں گے”  کی گردان اب ختم ہو گئی ہے، کیونکہ اب  “کپ تو دینا پڑے گا!”

www.cricnama.com

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔