اشفاق اللہ کی آخری رات

راؤ منظر حیات  ہفتہ 28 مارچ 2015
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

تاریخ میں اکثرکرداروں کے ساتھ انصاف نہیں کیا جاتا۔ناانصافی کی بہت سی وجوہات ہیں۔غالب عنصر ہے کہ کیاجس معاشرہ کے ماضی کے متعلق لکھاجارہاہے،وہ اپنی حقیقت کوبرداشت کرنے کی استطاعت رکھتاہے یا نہیں۔ اپنے نظام کومدِنظررکھتے ہوئے سوال اٹھاتاہوں،تو وثوق سے عرض کرسکتاہوں کہ معاشرے میںہم صرف اپنی مرضی کاسچ سنناچاہتے ہیں۔اس کے متضادجوکچھ بھی بیان کیاجائیگا،اسے شدت بلکہ نفرت اورتحقیرسے ردکردیاجائیگا۔

تقسیم برصغیربلاشبہ ایک سیاسی تحریک کی بدولت ممکن ہوئی۔پاکستان کوحاصل کرنے کی جدوجہدہمارے سامنے سند ہے۔مگریہ عمل چندسالوں میں مکمل نہیں ہوا۔اس میں اَن گنت بہادراورجری لوگوں کاخون شامل ہے جوانگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان پرکھیل گئے۔

اکثریت کانام تعصب کی دھول میں چھپ چکا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا برطانیہ کی اقتصادی اورعسکری طاقت کوکمزورکیے بغیرہم آزادی حاصل کرسکتے تھے؟برطانیہ اس وقت ایک سُپرپاور تھا۔لیکن دوسری جنگ عظیم میں اسکادنیاکالیڈرہونے کادعویٰ اور رول ختم ہوچکاتھا۔کیادوسری جنگ عظیم کے انجام اورہماری آزادی کاآپس میں کوئی تعلق نہیں ہے؟پھران بہادرانقلابی افرادکے کردارسے کون نظرچراسکتاہے جنہوں نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے خواب کواپنے خون سے رنگ دیا۔ اشفاق اللہ خان اسی طرح کاایک سرپھرا مجاہدتھا۔

وہ شاہجہان پورکاباسی تھا۔یو۔پی کاایک معروف شہر۔ اسکاوالدشفیق اللہ خان عسکری پیشے سے تعلق رکھتاتھا۔اس کی پہچان خاندانی بہادری تھی اوروہ اپنے قصبے میں شفیق پٹھان کے طورپرجاناجاتاتھا۔والدکے وہم وگمان میں بھی نہیں تھاکہ اس کا  سب سے چھوٹابیٹاایک ایسانایاب کارنامہ سرانجام دیگاکہ اسے ہمیشہ یادرکھاجائیگا۔اشفاق کے چاربھائی تھے۔بچپن میں اس کے متعلق کوئی بھی نہیں کہہ سکتاتھاکہ اس میںکوئی ہنرہے یا وہ کبھی بھی کوئی نامورآدمی بننے کی صلاحیت رکھتاہے۔اشفاق کی اپنے بڑے بھائی ریاست اللہ سے بہت دوستی تھی۔بچے کے طورپراس کے ذہن میں کئی سوال تھے۔

آزادی کیاہوتی ہے؟ آزاد رہنے کاکیافائدہ ہے؟انگریز،حکومت میں کیوں ہیں؟ مسلمانوں کی حکومت کوکیوں ختم کیاگیا؟یہ سب کچھ کیسے ٹھیک ہوسکتاہے؟ٹھیک بھی ہوسکتاہے یا نہیں؟اس کے اپنے پاس سوالات کاکوئی جواب نہیں تھا۔وہ جواب حاصل کرنے کے لیے اپنے بڑے بھائی کوتنگ کرتارہتاتھا۔ کسی نے بتایاکہ اس کے بڑے بھائی کاایک دوست رام پرشاد بسمل ہے۔

بسمل بھی اسی طرح کی تقریریں اورباتیں کرتارہتاتھاجوبرصغیرکی آزادی کو بیان کرتیں تھیں۔اشفاق نے کئی باراپنے بڑے بھائی کوکہاکہ وہ بسمل سے ملناچاہتاہے مگربھائی نے اس کی بات کوکبھی اہمیت نہیں دی۔اشفاق کوبسمل سے ملنے کااشتیاق ایک اور وجہ سے بھی تھا۔بسمل ایک بلندپایہ شاعرتھا۔اشفاق خود بھی شاعری کی طرف مائل تھا۔اس کے دوتخلص تھے۔’’وارثی‘‘ اور ’’حسرت‘‘۔ بحیثیت شاعربھی اسے بسمل بہت پسندتھا۔

1922میں پورے ہندوستان میںNon Cooperation Movementشروع ہوگئی۔یہ وہ وقت تھاکہ بسمل نے شاہجہان پورمیں جلسے منعقد شروع کردیے۔اسی طرح کے ایک جلسے میں اشفاق کی ملاقات بسمل سے ہوئی۔وہ انقلابی شخص سے اس قدر متاثرتھاکہ زبان سے محض ایک جملہ نکلا۔’’ میں آپ کے دوست ریاست کاچھوٹابھائی ہوں‘‘۔اس جملے کے بعدخیالات کی یگانگت کی بدولت بہت جلدقریبی دوست بن گئے۔اشفاق اللہ پابندصوم وصلوۃ تھا۔رام پرشاد بسمل ایک ہندوتھا۔وہ آریہ سماج کا ممبربھی تھا۔

اشفاق کوبسمل میں ایک خوبی نظرآئی۔اس کے ذہن میں کسی بھی مذہب کے متعلق کوئی تعصب نہیں تھا۔اسے مسلمانوں،عیسائیوں یا دیگر مذاہب کے پیروکاروں سے کسی قسم کی کوئی نفرت نہیں تھی۔یہ بھی ایک وجہ تھی کہ مختلف مذاہب کے پیروکارہونے کے باوجود وہ بہترین دوست بن گئے۔دونوں انقلابی ذہن کے تھے اورانگریزوں سے غلامی کے خواب دیکھتے رہتے تھے۔

1922میں برطانیہ اتناہی مضبوط تھاجتناآج کا امریکا۔ سو آزادی واقعی ایک خواب تھا۔انگریزوں کی طاقت کے سامنے پورے ہندوستان میں کوئی بھی سراٹھا نہیں سکتاتھا۔ عجیب طرح کامکمل سکوت تھا۔بے زارکردینے والی خاموشی اورغلامی کا مسلسل احساس۔سیاستدانوں نے ایک دم Non Cooperation Movementختم کردی۔ سیاستدانوں کے اس قدم سے نوجوان انقلابیوں نے یہ جاناکہ انھیں دھوکا دیا گیاہے۔یہ بھی محسوس ہواکہ وہ اچھے نعروں اور بلندخیال تقاریر کی بدولت آزادنہیں ہوسکتے۔

انھیں آزادی حاصل کرنے کے لیے عملی طورپرانگریزوں سے لڑناہوگا۔اس لڑائی کے لیے انھیں پیسوں کی ضرورت تھی۔مالی کشادگی نہ ہونے کی وجہ سے اشفاق اللہ اوربسمل کچھ نہیں کرپارہے تھے۔دونوں ایک دن سہارن پورسے لکھنو جانے والی8ڈاؤن پسینجرٹرین میں سفرکررہے تھے۔انھوں نے دیکھاکہ جب بھی ٹرین کسی ریلوے اسٹیشن پررکتی ہے تواسٹیشن ماسٹرٹرین کے گارڈکوایک بند تھیلے میں پیسے دیتاہے۔اسٹیشنوں سے جمع شدہ پیسے لکھنوپہنچ کرسرکاری خزانے میں جمع کروادیے جاتے تھے۔

اشفاق اللہ کواس کے سوال کاجواب مل چکاتھا۔بسمل اوراشفاق نے برطانوی سرکارکے پیسے لوٹنے کامنصوبہ بنالیا۔دونوں نے اپنے کئی ساتھیوں کواس کام میں شامل کرلیا۔ان میں روشن سنگھ،رام ناتھ پانڈے،پریم کرشناکھنا،وشندرڈبلش،چندرشیکھرآزاد اور من ماتھ لال گیتا شامل تھے۔9اگست1925کونمبرآٹھ ڈاؤن ٹرین میں یہ تمام لوگ موجودتھے۔

جب ٹرین ’’کاکوری‘‘ کے نزدیک تھی تواشفاق اللہ نے زنجیرکھینچ کرٹرین روک دی۔ تمام نوجوانوں نے گارڈکوبے بس کرکے سرکارکے آٹھ ہزارروپے لوٹ لیے۔انھوں نے کسی سواری کوکوئی نقصان نہیں پہنچایا۔پستول کی اتفاقیہ گولی چلنے سے ایک شخص بے موت ماراگیا۔

وائسرائے ہند یہ سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ کسی مقامی شخص میں اتنی ہمت ہوگی کہ ان کے سرکاری پیسے کوہاتھ لگائے گا۔ چنانچہ برطانیہ سے اسکاٹ لینڈیارڈ اورمقامی پولیس کی ٹیم تیار کی گئی۔اشفاق اللہ کے سوا تمام لوگ گرفتارکرلیے گئے۔وہ بہارچلاگیااوروہاں دس ماہ تک ایک انجینئرنگ کمپنی میں کام کرتارہا۔

اسے معلوم تھاکہ پورے ہندوستان کی پولیس تلاش میں ہے۔وہ دہلی پہنچااورملک سے باہرنکلنے کی خاطراپنے ایک دوست سے مددمانگنے کی کوشش کی۔ دوست نے اسے اپنے پاس مہمان ٹھہرالیا۔چنددن بعداسی دوست نے اس کے خلاف مخبری کردی۔اشفاق کودہلی پولیس نے گرفتارکرلیا۔

اس وقت تک یہ برصغیرکامشہورترین مقدمہ بن چکا تھا۔ کیس کی سماعت کے لیے اے۔ہیملٹن(A. Hamilton) کومختص کیاگیا۔وہ سیشن جج کی سطح کاجج تھا۔ بسمل اوراشفاق اللہ کوسزائے موت کاحکم سنایاگیا۔اپیل چیف کورٹ،اودھ ،کی عدالت میں دائرکی گئی۔مگروہاں بھی یہ سزا برقراررہی۔فائنل اپیل کے مستردہونے کے بعدسزائے موت اوراس کیس میں سزایافتہ ملزمان پربہت سختی شروع کردی گئی۔

پورے مقدمہ کے دوران اشفاق ایک منٹ کے لیے بھی پریشان نہیں ہوا۔وہ روزاپنی ڈائری لکھتاتھا۔پانچ وقت نمازادا کرتاتھااورقرآن پاک کی تلاوت میں مصروف رہتاتھا۔ سزائے موت سے دودن پہلے تین انگریزافسر کوٹھری تک آئے۔اشفاق اس وقت عصرکی نمازپڑھ رہاتھا۔انگریزآپس میں بات کرنے لگے کہ ’’ اب یہ چوہے کی طرح ہوچکا ہے۔

بے کاراوربزدل۔ اسکاایمان اس کے کوئی کام نہیں آسکتا‘‘۔ اشفاق نے کوئی جواب نہیں دیاکیونکہ وہ اس وقت حالتِ نماز میں تھا۔مگراشفاق اللہ خان کے ایمان کی مضبوطی کو وہ لوگ جانتے ہی نہیں تھے۔دودنوں بعدجب تختہ دارکی طرف گیا تو بالکل سکون میں تھا۔بیٹریاں کھولی گئیں تواس نے جیل کے افسرکوبلایا۔کہنے لگاکہ میں ایک وقت میں دوسیڑھیاں عبور کرونگا۔وہ تختہ دارپرتیزی سے پہنچ گیا۔ بڑے اطمینان سے رسہ کوچوما۔کلمہ شہادت پڑھا اور خودرسہ کواپنے گلے میںڈال کرتختہ دارپرجھول گیا۔

جیل کاتمام اسٹاف اس کی بہادری کودیکھ کرحیران رہ گیا۔مرنے سے پہلے اس نے کہا تھا کہ ’’میں نے کسی کوقتل نہیں کیا۔میں آزادی کامجاہدہوں۔خدامجھے انصاف دیگا‘‘۔اس کی بہادری پرایک ہندوشاعر’’اگنی وش شکلہ‘‘نے ایک بے مثال نظم لکھی تھی۔اس نظم کاعنوان ہے ’’اشفاق کی آخری رات‘‘ یہ نظم ہندی میں ہے۔مجھے اس کا ترجمہ نہیں مل سکا۔اس وجہ سے میں آپکے سامنے پیش نہیں کرپایا۔بذات خوداشفاق اللہ بھی ایک شاعرتھا۔اس کے علاوہ وہ روزرات کوکال کوٹھری میں ڈائری بھی لکھتاتھا۔اس کی تحریرمیں سے چند اقتباسات خدمت میں پیش کررہا ہوں۔

1۔آزادی اوروطن کی محبت کاجذبہ اپنے ساتھ تمام مصیبتیں لاتا ہے۔مگرجو شخص اس راہ پرچلتاہے،اس کے لیے تمام مشکلیں انتہائی آسائش میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔2۔میں نے کسی کے لیے نہیں،بلکہ آزادی کے لیے تمام قدم اٹھائے ہیں۔ 3۔میراکوئی خواب نہیں ہے۔اگرہے توصرف یہیں کہ ہمارے بچے بھی اس راہ پرچلیں، جسکے لیے میں اپنی جان دے رہاہوں۔4۔میرے مرنے پرمیرے کئی عزیزآنسوبہائیں گے۔مگرمیں اسلیے روتاہوں کہ مجھے ان میں آزادی کی کوئی رمق نظرنہیں آتی۔5۔مرنے کے بعدمیں اَمرہوجاؤنگا۔

اس نے اپنے بھانجوں کوایک خط میں تحریرکیا ’’میری تمام امیدیں اب آپ لوگوں سے ہیں۔آپ آزادی کے لیے کچھ کرسکتے ہو۔میں تومغرب میں ڈوبتاہواسورج ہوں‘‘۔

جب وہ تختہ دارسے سفراَجل پرروانہ ہوا توصرف ستائیس برس کانوجوان تھا۔اس کی شہادت کے بیس سال کے بعدانگریزبرصغیرسے اپنی حکومت لپیٹ کرچلے گئے۔اشفاق اللہ نے آزادی کے لیے جوخواب دیکھاتھا،وہ اپنی زندگی میں اس کی تعبیرنہ دیکھ پایا۔اس نے اپنے عمل سے ثابت کیاکہ وہ ایک جری اوربے خوف انسان ہے۔انگریزافسروں نے کوٹھٹری کے نزدیک کھڑے ہوکراسے چوہا قرار دیا تھا۔

ان کا خیال بالکل غلط نکلا۔ پھانسی گھرکی سیڑھیوں پر یکدم دو دو سیڑھیاں عبورکرنا ایک بہادرانسان ہی کاکام ہے!یہ ٹھیک ہے کہ اس جوان نے آزادی کے لیے راستہ اختیارکیا،وہ سب کی نظرمیں درست نہ ہو! مگروہ آزادی کاایک لازوال نشان بن کرلازوال ہوچکا ہے!اس نے جان دیکرپیغام دیاکہ وہ آزادی کا بہادر مجاہد ہے،چوہا نہیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔