ہار پر ’’ہار‘‘ کیوں پہنائیں؟

سلیم خالق  ہفتہ 28 مارچ 2015
skhaliq@express.com.pk

[email protected]

’’مسکرانے کی وجہ تم ہو، گنگنانے کی وجہ تم ہو‘‘

گاڑی میں ساتھ بیٹھے دوست کو جب میں نے مشہور بھارتی گانا گنگناتے سنا تو پوچھا’’ آج تو بڑے اچھے موڈ میں لگ رہے ہو‘‘

اس پر جواب ملا ’’ہاں یار کل انڈیا ہارگیا ناں مزا آگیا، ان ۔۔۔۔۔ کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا، یہ انوشکا کو دیکھو منحوس آسٹریلیا گئی تو کوہلی رنز بنانا ہی بھول گیا، ہا ہا ہا، ارے ہاں یاد آیا، اتوار کو نئی بھارتی فلم این ایچ 10دیکھنے چلنا ہے، بڑی اچھی ہے یار، انوشکا شرما نے کیا ایکٹنگ کی ہے‘‘ یہ کہہ کر میرا دوست اپنی منزل پر اترا اور میں دفتر روانہ ہو گیا۔ راستے میں یہی سوچتا رہا کہ ہمیں اپنی ٹیم کے جیتنے کی اتنی خوشی نہیں ہوتی جتنی بھارت کے ہارنے کی ہوتی ہے، پھر جشن بھی بھارتی گانے سن کر اور فلمیں دیکھ کر مناتے ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔

دھونی الیون ورلڈکپ میں سیمی فائنل تک پہنچی، دورہ آسٹریلیا میں پلیئرز آؤٹ آف فارم رہے اور ٹیم فتح کو ترس گئی، پھر میگا ایونٹ میں پاکستان کیخلاف فتح نے آکسیجن کا کام کیا، بلو شرٹس نے جان پکڑ لی، جنوبی افریقہ جیسا مضبوط حریف بھی اس کے سامنے کچھ نہ کر پایا، خلاف توقع پیسرز محمد شامی اور امیش یادیو نے بھی بہترین بولنگ کی، ایسے میں ان کی قوم پھر فتح کا خواب دیکھنے لگی مگر آسٹریلیا عرش سے فرش پر واپس لے آیا، شارٹ پچ گیندوں کا حربہ کینگروز کیخلاف نہ چل پایا، بھاری اسکور دیکھ کر بڑے بیٹسمینوں کے بھی پسینے چھوٹ گئے، ایسے میں شکست ہی ہاتھ آئی، جلد آؤٹ ہونے کے سبب کوہلی تو برے بنے ہی ساتھ ففٹی بنانے کے باوجود دھونی کی بھی شامت آ گئی،گوکہ وہ قیادت جاری رکھنا چاہتے ہیں مگر مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،ان کے پاکستانی ہم منصب مصباح الحق کو بخوبی علم تھاکہ ٹیم ورلڈکپ میں کچھ نہیں کرسکے گی، اسی لیے نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے پہلے ہی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر چکے تھے، دھونی نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا حالانکہ آسٹریلیا میں گذشتہ کئی ماہ سے ٹیم کی جو حالت ہو رہی تھی اسے دیکھ کر انھیں کچھ تو سوچنا چاہیے تھا۔

خیر اب اپنے کرکٹ معاملات کی جانب آتے ہیں، گذشتہ دنوں لاہور میں مصباح کی پریس کانفرنس ٹی وی پر دیکھنے کا اتفاق ہوا،ایسا لگا کوئی فاتح کپتان میڈیا سے بات کر رہا تھا، یہ وہ مصباح لگ ہی نہیں رہے تھے جن کی بیٹنگ دیکھ کر لوگ سو جاتے ہیں، اتنی جارحیت کاش وہ کرکٹ فیلڈ میں حریف بولرز کے خلاف دکھاتے تو ٹیم آج اس مقام پر نہ ہوتی، بیچارے قلم تھامے صحافی انھیں آسان ٹارگٹ لگے اور خوب لفظی حملے کیے، ان کی باتوں سے ایسا محسوس ہواکہ پاکستان ورلڈکپ میڈیا کی وجہ سے ہارا،ارے بھائی آپ آسٹریلیا کرکٹ کھیلنے گئے تھے یا تبصرے سننے، اگر گھر والے اور دوست احباب ایسی باتیں بتا رہے تھے تو انھیں بھی روک دیتے، کئی غیر ملکی ٹیمیں اور ماضی میں پاکستانی کرکٹرز بھی ایسا ہی کرتے تھے، اگر ٹیم ہار گئی اور کوئی پلیئر اچھا نہیں کھیلا تو ہم کیسے یہ لکھتے یا کوئی ماہر کیسے کہتا کہ ’’ ٹیم اچھا کھیلی مگر کمبخت دوسری سائیڈ جیت گئی، فلاں بیٹسمین کا قصور نہیں تھا وہ تو بولر نے اچھی گیندکر دی‘‘، ایسا نہیں ہوتا،اگر آپ خراب کھیلیں گے تو میڈیا کا کام اس کی نشاندہی کرنا ہی ہے، البتہ اس بات سے میں بھی متفق ہوں کہ ذاتیات پر نہیں جانا چاہیے مگر کھیل پر تنقید کرنا میڈیا کا حق ہے۔ مصباح سے بھی میری درخواست ہے کہ وہ اس حقیقت کو مانیں کہ ٹیم ہار کر آئی ہے لہذا اسے ’’ہار‘‘ نہیں پہنائے جاسکتے، جو ہو گیا اسے بھول کر روشن مستقبل کیلیے تجاویز دیں، فضول کی تاویلیں پیش کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

ون ڈے ٹیم میں مصباح کا متبادل کون ہو گا اس پر بھی بورڈ نے خوامخواہ کا مسئلہ پیدا کر دیا، جو کرنا تھا وہ شہریارخان خاموشی سے کر بیٹھتے،اب آدھی ٹیم کو قیادت کے خواب دکھا دیے گئے ہیں، بعد میں یہی پلیئرز ایک دوسرے سے کینہ رکھ کر ٹانگیں کھینچتے رہیں گے،ویسے چند میچز کی پرفارمنس پر وہاب اور سرفراز کو کپتان بنانا کیا درست ہوگا؟ ایسے میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جناب انھوں نے کچھ تو کیا صہیب مقصود تو بالکل ہی ناکام رہا جبکہ دیگر امیدوار فواد عالم اوراظہر علی تو ٹیم میں ہی شامل نہیں،حفیظ سے ایک سال قبل ورلڈٹی ٹوئنٹی میں بدترین شکست پر استعفیٰ لیاگیا تھا اب ان میں کون سے سرخاب کے پرنکل آئے ہیں، اسی طرح شعیب ملک کو بھی سلیکٹرز نے نظر انداز کیا ہوا ہے۔

چلیں ہم کیوں سوچ کر خود کو پریشان کریں یہ کام بورڈ پر ہی چھوڑ دیتے ہیں، ارے ہاں سلیکٹرز سے یاد آیا برطرفی کی دھمکی ملنے پر معین خان نے بھی حکام کو آنکھیں دکھا دی ہیں کہ ’’تمہیں کورٹ میں دیکھ لوں گا‘‘، اس پر جب بورڈ زرتلافی دینے کا سوچنے لگا تو کیلکولیٹرز کھلنے سے پتا چلاکہ بات کئی لاکھ میں جائے گی، اب شاید انھیں کوئی اور علامتی عہدہ دے دیا جائے، ویسے بھی جہاں ذاکر خان، انتخاب عالم اور کئی ڈائریکٹرز و دیگر آفیشلز کچھ کیے بغیر بھاری تنخواہیں لے رہے ہیں وہاں ایک اور بھی سہی،یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ بورڈ حکام کی سوچ ہے۔

آخر میں ایک سابق کرکٹرکا ذکر کر دوں، وہ ٹی وی پر کئی برسوں سے مصباح کو لتاڑتے آ رہے ہیں، اب تو اور زیادہ ناراض ہو گئے ہیں، میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے، ’’دیکھو یار اس نے فلاں کرکٹر کا نام لے لیا کہ اب خوش ہو جاؤ مٹھائیاں بانٹو، خوامخواہ ہی وہ مشہور ہو گیا، میں نے بھی تو اس پر اتنی تنقید کی تھی میرا بھی ذکر کر دیتا‘‘ اس پر میں نے انھیں جواب دیا صبر کریں، ویسے آپ بھی دیگر سابق کرکٹرز کا نسخہ آزماتے، بورڈ پر تنقید شروع کر دیں کوئی نہ کوئی جاب مل جائے گی، جس میں نہ دفتر جانا نہ کام کرنا پڑے گا مگر ہر ماہ ایک بڑی رقم کا چیک ملا کرے گا، کئی افراد نے کامیابی سے اس کا استعمال کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔