لارڈ میکالے اور ہماری قدریں

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  اتوار 29 مارچ 2015
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

لارڈ میکالے نے 2 فروری 1835 میں برطانوی پارلیمنٹ میں تقریر کی کہ : میری آنکھیں آج تک ایسے شخص کو دیکھنے کے لیے ترستی ہیں جو یہاں (برصغیر میں) بھکاری ہو یا لٹیرا ہو، اس ملک میں ایسی دولت دیکھی ہے ایسی بلند اخلاقی قدریں دیکھیں، اتنی بڑی ہستیوں سے ملا ہوں مجھے پختہ یقین ہوگیا کہ ہم کبھی اس ملک کو فتح نہیں کرسکیں گے، جب تک کہ ہم اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی نہ توڑ دیں، اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی کیا ہے؟ ان کا روحانی اور تہذیبی ورثہ، اگر ہم ان کا نظام تعلیم، ثقافت بدل دیں تو ان کے سینوں میں سفید فام انگریز کا دل دھڑکتا ہوگا، اگر انھیں یقین دلا سکیں کہ ہر وہ چیز جو غیر ملکی و انگریزی ہے ان کی چیزوں سے بہتر ہے تو ہندوستانی جلد اپنی نظروں سے گر جائیں گے اور اپنی ثقافت کو چھوڑ دیں گے اور جلد ہی وہ ’’براؤن صاحب‘‘ کہلانے میں فخر محسوس کریں گے۔ (بحوالہ: بدایونی، محمد اسمٰعیل، استشراقی فریب، اسلامی ریسرچ سوسائٹی، کراچی، جولائی 2009)

مندرجہ بالا پیراگراف ایک تلخ حقیقت کی جانب اشارہ کر رہا ہے، انگریز گو کہ اپنا کام تمام کرکے جاچکے ہیں لیکن ہمارا روحانی، تہذیبی ورثہ آسمان سے گویا زمین پر آگرا ہے اور ہماری دینی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار نہایت پست ہوچکی ہیں اگر ان کی بہتری کی جانب توجہ دی جائے تو یقیناً ہم اپنے اس زوال سے واپسی کا سفر شروع کرسکتے ہیں۔

اس پستی کا دردناک پہلو یہ ہے کہ یہ پستی صرف عوام میں نہیں خواص میں بھی سرائیت کرچکی ہے اور اس کے مظاہر جگہ جگہ موجود ہیں۔ چند برس قبل ایک اخلاقی معیار دیکھنے کو ملا جس پر دل بے حد خوش ہوا کہ چلو کہیں تو ہمیں یہ اخلاقی قدریں زندہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ کراچی شہر میں کسی چھوٹی سی تنظیم کی جانب سے عربی زبان سیکھنے کا کورس مفت جاری تھا، ہم شوق میں پہنچ گئے۔ کلاس کے آخر میں منتظم نے اعلان کیا کہ ہال کے باہر ایک اسٹال پر کچھ کتب فروخت کے لیے رکھ دی گئی ہیں اور ایک ڈبہ بھی رقم ڈالنے کے لیے رکھ دیا گیا ہے۔ جو حضرات بھی کتب خریدنا چاہیں وہ کسی بھی کتاب کی قیمت (جو کتاب پر درج ہے) ادا کرنے کے لیے ڈبے میں خود سے رقم ڈال دیں ایمانداری کے ساتھ! ان منتظم کا کہنا تھا کہ ہم ایک اچھے مقصد کے لیے ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اگر ایک کتاب کی قیمت کے لیے بھی کسی فرد کو اسٹال پر بٹھا دیا جائے کہ وہ رقم وصول کرکے حساب کرتا رہے تو پھر ہماری اخلاقی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟ کیا ہم اتنے ایماندار بھی نہیں کہ اللہ کے خوف سے ایمانداری سے اپنا فرض ادا کریں؟

یہ سوچ اور کلچر ضرور پروان چڑھنا چاہیے لیکن ذرا غور کیجیے ہو کیا رہا ہے؟ مساجد میں چندوں کے جمع کرنے اور ان کے استعمال پر جھگڑا الگ ہوتا ہے اور اس پر اخلاقی زوال اور پستی کی صورتحال یہ کہ چندے کی رقم بھی ہم بینک میں رکھواتے ہیں حالانکہ شرعی لحاظ سے بینک میں رقم رکھنا نہایت قابل اعتراض ہے اور ایسے بینک میں خاص کر جہاں سود کا لین دین ہوتا ہو۔

کیا بینک میں رقم رکھنا ہماری ناگزیر ضرورت ہے؟ سات ہزار سال کی تاریخ میں بینک کا وجود کہیں ملتا ہے؟ ذرا ہم اپنے اخلاقی اور امانت داری کے معیار کا جائزہ تو لیں کیا ہو رہا ہے؟ مسجد میں جس امام کے پیچھے نماز ادا کرتے ہیں کیا ہمیں اس پر بھی اعتبار نہیں یا وہ خود ناقابل اعتبار ہے کہ رقم کے لیے اس کو امین مقرر نہ کیا جائے؟ نہایت معذرت کے ساتھ دینی شخصیات، تحریکات، مساجد، مدارس، فلاحی ادارے وغیرہ سب کے سب چندے کے زیادہ سے زیادہ حصول کے لیے بینک کی خدمات لیتے ہیں اور پھر سرمائے کو محفوظ کرنے کے لیے بھی بینک اکاؤنٹس ہی کو معتبر سمجھتے ہیں، کیا ہم اپنے عالم کو بھی اس درجہ اعتماد پر نہیں رکھتے؟ کیا ہمارا باہمی اعتماد بھی لائق اعتبار نہیں؟

کہنے کو تو یہ چھوٹی سی بات ہے شاید کچھ قارئین کی نظر میں احمقانہ بات ہو مگر غور کیجیے کہ ان معاملات میں ہمارا ایک دوسرے پر کیا اعتبار ہے؟ ہم کتنا ایک دوسرے کو امین سمجھتے ہیں؟ عشق رسولؐ کا تو سب دعویٰ کرتے ہیں لیکن کبھی غور کریں کہ آپؐ دعوت دین سے بھی قبل کس اخلاقی درجے پر تھے؟ کیا آپؐ صادق اور امین مشہور نہ تھے؟ اگر یہ سچ ہے تو ہم کس کی پیروی کر رہے ہیں؟ اور پھر اس کے نقصانات کیا ہیں؟

آئیے نقصانات پر مختصراً نظر ڈالتے ہیں۔ آج اگر کسی میاں بیوی میں طلاق کی نوبت آ پہنچے، لڑائی جھگڑے اور عدالت تک بات پہنچ جائے تو کیا ہوتا ہے؟ وکیلوں کو بھاری بھاری فیسیں دی جاتی ہیں، خود میاں بیوی عدالتوں کے چکر پہ چکر کاٹتے ہیں اور اگر ان کے پاس بچہ یا بچے ہوں تو وہ بھی عدالتوں کے مجرموں والے ماحول میں پیشی پر پیش ہوتے ہیں، معصوم بچے نفسیاتی طور پر ہراساں ہوتے ہیں، نتیجہ کیا نکلتا ہے برسوں عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے میاں بیوی تھک جاتے ہیں، بچوں کی پرورش متاثر ہوتی ہے اور عدالتوں کے فیصلے انسان کی آدھی عمر ہڑپ کر جاتے ہیں، اس عرصے میں ذہنی سکون بھی برباد رہتا ہے لیکن!

لیکن اگر ہم عدالتوں میں اپنا کیس لے جانے کے بجائے اپنے کسی مسجد کے امام یا عالم دین کے پاس لے جائیں اور اعتماد کرتے ہوئے اس سے فیصلہ کرالیں تو عدالتوں کے چکر اور ان پر خرچ ہونے والے سرمائے سے بھی بچ سکتے ہیں اور اپنا وقت برباد کرنے کے بجائے سکون سے فیصلے کے بعد زندگی دوبارہ سے تلاش کرسکتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہی ہے کہ ہم سب اس اخلاقی پستی میں جا پڑے ہیں کہ ایک دوسرے پر سے اعتبار ہی اٹھ گیا ہے اب ہم فیصلے کے لیے اس مسجد کے پیش امام یا عالم دین کے پاس جانے سے بھی کتراتے ہیں اور اعتبار نہیں کرتے جس کے پیچھے ہم نماز ادا کرتے ہیں، جس کی امامت کے بغیر اپنے پیارے عزیزوں کو دفناتے تک نہیں ہیں۔

یہاں ایک پہلو اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا عوام کے ساتھ خواص (خاص کر علما) کا بھی اخلاقی، دینی معیار پستی کا شکار ہے؟ کیا ان کا تعلق اور رشتہ معاشرے سے کمزور ہوچکا ہے؟ یا عوام اس قدر اخلاقی پستی کا شکار ہوچکے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو آپس میں نقصان پہنچا کر، قتل کرکے اور عدالتوں کے دھکے کھانے کو تو تیار ہیں مگر دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں!

ہم اپنے بزرگوں ، دینی شخصیات کو بھی قابل اعتبار سمجھنے کو تیار نہیں؟ آپس میں ایک دوسرے پر بھی اعتماد کے لیے تیار نہیں؟ کیوں؟ آئیے غور کریں اور اس کالم کے آغاز میں لارڈ میکالے کے حوالے سے جو بات درج ہے دوبارہ سے اس پر غور کریں آئیے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔