بچوں کی حفاظتی ویکسینیشن کو نجی شعبے میں دینے کا فیصلہ

اسٹاف رپورٹر  اتوار 29 مارچ 2015
ای پی آئی کی نجکاری کی گئی تو شدید احتجاج کریں گے،ملازمین  فوٹو: فائل

ای پی آئی کی نجکاری کی گئی تو شدید احتجاج کریں گے،ملازمین فوٹو: فائل

 کراچی: حکومت سندھ نے مرحلہ وار محکمہ صحت کو نجی شعبے میں دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

محکمے کے جاری مختلف صحت پروگراموں کو بتدریج غیر سرکاری تنظیموں کے حوالے کرنے کا عمل شروع کردیا گیا ہے،عالمی اداروں کی جانب سے انسداد پولیو مہم پر تحفظات کے نتیجے میں صوبائی حکومت نے ابتدائی طور پر سندھ کے 2 اضلاع میں توسیعی پروگرام برائے حفاظتی ٹیکہ جات ( ای پی آئی) بھی من پسند نجی ادارے کودیے جانے کی منظوری دیدی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومت سندھ نے بچوں کے حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام (ای پی آئی)کو نجی شعبے میں دینے کے لیے پہلے ہی سندھ کے2 اضلاع دادو اور بدین کے بچوں کو پولیو سمیت دیگر حفاظتی ٹیکہ جات لگانے اور ویکسین پلانے کے لیے پیپلز پرائمری ہیلتھ اینشیٹو (پی پی ایچ آئی)کودینے کاعندیہ دیا ہے۔

واضح رہے کہ حکومت سندھ نے اندرون سندھ کے بنیادی صحت کے مراکزکو پی پی ایچ آئی کے حوالے کررکھا ہے ، محکمہ صحت کے افسران کے مطابق غیر سرکاری تنظیم پی پی ایچ آئی کوحکومت نے اندرون سندھ کے 1137صحت مراکز حوالے کردیے ہیںجس کا بجٹ بھی حکومت سندھ براہ راست پی پی ایچ آئی کو فراہم کرتی ہے۔

ان مراکز میں9 رورل ہیلتھ سینٹر، 647 صحت کے بنیادی مراکز،34میٹرنٹی ہوم اور435 ڈسپنسریاں شامل ہیں، محکمہ صحت کے اندرون سندھ 1599 صحت مراکز تھے،ای پی آئی افسران اور ملازمین کاکہنا ہے کہ اگر ای پی آئی کی نجکاری کی گئی توملازمین شدید احتجاج کریںگے، سندھ میں 1979 میں ای پی آئی پروگرام شروع کیا گیا جس کے تحت بچوں کو حفاظتی ٹیکے اور وائرس سے بچاؤ کی خوراک پلائی جاتی ہے لیکن اب حکومت نے اس پروگرام کو نجی شعبے میں دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق تمام اسپتالوں کو صوبائی خودمختاری کے تحت چلائے جانے کی سمری تیاری کی جاچکی ہے، حکومت نے محکمہ صحت کے مختلف شعبوں اور پروگرامزکی مرحلہ وار نجکاری کا عمل شروع کر دیا ہے،ذرائع کے مطابق ملک میں پولیو کیسز میں اضافے اور سندھ میں انسداد پولیو مہمات کی خراب کوریج پر عالمی اداروں نے تحفظات کا اظہارکیا تھاجس کے پیش نظر حکومت سندھ نے حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام کی بھی بتدریج نجی شعبے کے حوالے کرنا شروع کر دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔