فائنل کردیا نا ضائع!

فہیم پٹیل  اتوار 29 مارچ 2015
میدان میں جیتنے کے لیے محض اچھے کھیل کی ضرورت نہیں بلکہ اُس جذبے کی اشد ضرورت ہے جو ٹیم کوبار بار یہ  باور کروائے کہ آپ کو نمبر ون رہنا ہے۔ فوٹو:اے ایف پی

میدان میں جیتنے کے لیے محض اچھے کھیل کی ضرورت نہیں بلکہ اُس جذبے کی اشد ضرورت ہے جو ٹیم کوبار بار یہ باور کروائے کہ آپ کو نمبر ون رہنا ہے۔ فوٹو:اے ایف پی

لوگ پورا سال کرکٹ دیکھیں نہ دیکھیں، ورلڈ کپ ضرور دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور اگر کوئی ہے جو ورلڈ کپ بھی نہیں دیکھتا ۔۔۔۔۔ وہ فائنل ضرور دیکھتا ہے ۔۔۔۔۔ لیکن جب وہی فائنل ۔۔۔۔۔ یکطرفہ اختتام پذیر ہوجائے ۔۔۔۔۔ تو دل ٹوٹ جاتا ہے ۔۔۔۔۔ اتنا غصہ تو تب بھی نہیں آتا جب گرم گرم بریانی کھاتے ہوئے منہ میں کنکر آجائے۔

ماضی کے اوراق پر نظر دوڑائیں تو یہ بات سمجھنے میں بالکل بھی مشکل نہیں ہوگی کہ کھیل کے میدان میں نیوزی لینڈ کا آسٹریلیا سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ۔۔۔۔۔ بات چاہے ہو آسٹریلیا کے میدانوں کی یا پھر نیوزی لینڈ کے میدانوں کی ۔۔۔۔۔ یا پھر تیسرے کسی ملک کی ۔۔۔۔۔ ہر جگہ آسٹریلیا نے نیوزی لینڈ کو پیروں تلے روندا ہے ۔۔۔۔۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ سمجھنا ہرگز مشکل نہیں تھا کہ نیوزی لینڈ کو شکست دیتے ہوئے آسٹریلیا باآسانی پانچویں بار عالمی چیمپئن بن جائے گا۔

یہ تو تھے حقائق اور انکی اپنی ایک اہمیت اور مقام ہے ، مگر  نیوزی لینڈ کی موجودہ عالمی میلے میں کارکردگی کو دیکھ کر لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے ذہن میں یہ خیال کہیں نہ کہیں جنم لے رہا تھا کہ ماضی سے کیا ہوتا ہے جناب، ٹیم تو وہی فاتح کہلاتی ہے جو میدان میں اچھا کھیلے ۔۔۔۔۔ بات تو یہ بھی ٹھیک تھی کہ پوری ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ نے کسی ٹیم کو  اپنے قریب بھی  نہیں آنے دیا ماسوائے آسٹریلیا کو  جسے اُس نے محض ایک وکٹ سے کامیابی دی تھی۔

لیکن تمام حقائق ، جذبات  اور خواہشات اپنی جگہ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے  پھر ہوا کیا؟ وہی ہوا  جس کا ڈر تھا، 2007، 2003 اور 1999 کے بعد آسٹریلیا نے ایک بار پھر یکطرفہ فائنل کھیل کر دنیا کے سامنے بڑا سوال رکھ دیا کہ ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘۔

لیکن کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ایسا مسلسل کیوں ہورہا ہے کہ آسٹریلیا مسلسل کرکٹ پر بادشاہت کررہا ہے؟ میرے نذدیک میدان میں جیتنے کے لیے محض اچھے کھیل کی ضرورت نہیں بلکہ اچھے کھیل کے ساتھ ساتھ اُس جذبے کی اشد ضرورت ہے جو ٹیم کوبار بار یہ  باور کروائے کہ آپ کو نمبر ون رہنا ہے، اِس کے ساتھ ساتھ اُس پریشر کو برداشت کرنے کی بھی صلاحیت ہونی چائیے جو ان بڑے مقابلے میں ٹیموں پر ہوتا ہے  اور بدقسمتی یہ ہے کہ دو چار ٹیموں کے علاوہ کوئی ٹیم بھی ایسا نہیں کرپاتی ۔۔۔۔۔لیکن آسٹریلیا اِس میدان میں بھی سب سے آگے ہے۔

آج پہلی بال سے یہ بات واضح طور پر محسوس ہورہی تھی کہ آسٹریلیا جیتنے کے لیے آیا ہے ۔۔۔۔۔ اُس نے نیوزی لینڈ کو ایک بار بھی میچ میں آنے کا موقع نہیں دیا ۔۔۔۔۔ حالانکہ آسٹریلیا سے زیادہ جیت کی ضرورت آج نیوزی لینڈ کو تھی ۔۔۔۔۔ کہ پہلی بار اُس کی قسمت میں فائنل کھیلنے کا موقع آیا ہے ۔۔۔۔۔ یقینی طور پر یہ کسی بھی ٹیم کے لیے یادگار دن ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ لیکن یادگار دن کو یادگار بنانے کے لیے یادگار کارکردگی کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور بدقسمتی سے نیوزی لینڈ وہ نہ دکھاسکی۔

آسٹریلیا کی یہ کارکردگی دیکھ کر بچپن کے دن یاد آگئے ۔۔۔۔ جب ہم گراونڈ میں میچ کھیلتے تھے تو اُسی دوران ہم سے بڑے وہاں آتے اور میچ کھیلنے کا کہتے ۔۔۔۔ منع کرنے کی صورت میں وہ ہمیں گراونڈ سے باہر نکال دیتے تھے اس لیے مجبوراً ہمیں میچ کھیلنا پڑتا۔۔۔۔۔ اب براہ مہربانی نتیجہ مت پوچھیے کہ ہمیں شرم آجاتی ہے ۔۔۔۔۔ ہم نتیجہ تو نہیں بتائیں گے بس یہی کہیں گے کہ ہمارے ساتھ بھی وہی ہوتا تھا جو آسٹریلیا ورلڈ کپ کے ہر فائنل میں باقی ٹیموں کے ساتھ کرتی آرہی ہے ۔۔۔۔۔ اُس وقت بھی ہمارا یہی مطالبہ تھا کہ اِن بڑوں لڑکوں کو گراونڈ سے باہر نکالا جانا چاہیے تاکہ بچے اطمینان اور سکون سے کھیلیں ۔۔۔۔۔ اور آج بھی مطالبہ یہی کرنے کو دل کرتا ہے کہ آسٹریلیا کو کرکٹ سے باہر کیا جائے تاکہ باقی ٹیمیں سکون اور اطمینان کے ساتھ ساتھ برابری کی سطح پر کرکٹ کھیل سکیں۔

میں بھی کھیل کا مداح ہوں، ظاہر ہے میں بھی کسی نہ کسی ٹیم کو پسند کرتا ہوں گا اور خواہش بھی ہوگی کہ وہ ٹیم جیتے ۔۔۔۔۔ لیکن یہ نہیں چاہ سکتا کہ وہ اچھا نہ کھیلے اور پھر بھی جیت جائے ۔۔۔۔ لیکن اگر کوئی خواہش ہوتی ہے تو وہ یہ کہ جیتے کوئی بھی مگر میچ مزیدار ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔ عالمی کپ چار سال بعد آتا ہے ۔۔۔۔۔ چار سال کے بعد جب ایسا فائنل دیکھنے کو ملے تو یقینی طور پر دل ٹوٹ جاتا ہے ۔۔۔۔۔ اور بہت زیادہ افسوس ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ اِس موقع پر بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ نیوزی لینڈ نے فائنل ضائع کردیا ۔۔۔۔۔ بریانی پر کنکر آجائے تو پھر چلتا ہے ۔۔۔۔۔ مگر آج بریانی میں کنکر نہیں بلکہ پوری اینٹ آگئی ہے ۔۔۔۔ اب سوچ سکتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں حال کیا ہوگا۔

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

فہیم پٹیل

فہیم پٹیل

آپ ایکسپریس نیوز میں بطور انچارج بلاگ ڈیسک اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ سے @patelfahim پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔