’’ Sitting on The Fence‘‘

غلام محی الدین  منگل 9 اکتوبر 2012
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

’’Sitting on The Fence‘‘ انگریزی زبان کا ایک محاورہ (Idiom) ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ اور طرز حکمرانی سے لے کر عام معاشرتی رویوں اور باہمی تعلقات تک کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں۔ آپ کو ہر جگہ اسی محاورے کی کارفرمائی نظر آئے گی۔ اس محاورے کا مطلب کچھ اس طرح ہے۔ کسی انتہائی اہم اور فیصلہ کن مرحلے پر اگر کوئی شخص واضح اور غیر مبہم فیصلہ کرنے کے بجائے اپنی کم ہمتی، قوت فیصلہ کی کمی یا پھر معاملے کے دونوں فریقوں کے ساتھ ایک جیسے خوشگوار تعلقات رکھنے کے لیے گول مول مؤقف اختیار کرنے اور واضح طور پر درست کو درست اور غلط کو غلط کہنے سے اجتناب کرے تو ایسے شخص کے لیے اس محاورے کا استعمال کیا جاتا ہے۔

اس رویے کی نفسیاتی توجیہہ یہی ہو سکتی ہے کہ ایسا رویہ اختیار کرنے والے کی جانب سے آنے والا فائدہ کھونا چاہتے ہیں نہ حق بات کہہ کر کسی زور آور کے غضب کا نشانہ بننے کا خطرہ مول لینا چاہتے ہیں۔ اس محاورے کے لفظی معنوں کی طرف آئیں تو یہ کسی شخص کی ایسی کیفیت کی تصویر کشی کرتا ہے جو کسی باڑ پر بیٹھا ہے‘ باڑ کو حد بندی یا سرحد سمجھ لیجیے‘ نہ وہ باڑ کی اس طرف زمین پر پاؤںرکھتا ہے اور نہ اس طرف پائوں لگاتا ہے۔ دیکھنے والے یہی دیکھتے رہتے ہیں کہ اس کا پائوں کب کس طرف کی زمین کو چھوتا ہے۔ دیکھنے میں یہ اچھی خاصی مضحکہ خیز صورتحال ہے لیکن بہر حال ہمارے ہاں یہی حکمت عملی سب سے زیادہ مقبول ہے۔

ڈرون حملوں کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔2004ء سے شروع ہونے والی اس امریکی جنگی حکمت عملی کو 8 برس ہورہے ہیں لیکن آج تک حکومت پاکستان یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ان حملوں کو ہماری آشیر باد حاصل ہے۔ یہ بات ہرڈرون حملے پر دہرائی جاتی ہے کہ ہر ایسا حملہ پاکستانی متعلقہ حکام کو بتا کر کیا جاتا ہے۔ امریکی میڈیا اور اعلیٰ حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ حملے پاکستانی حکام کی اجازت سے کیے جاتے ہیں لیکن جنرل پرویز مشرف کی آمریت سے پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومت تک ڈرون حملوں پر ردعمل میں فرق نہیں۔ حکومت نے اسی حکمت عملی کے تحت امریکا سے ڈرون حملوں کی مذمت کرنے کی خصوصی اجازت لے رکھی ہے۔ دنیا کے سامنے ان حملوں پر ردعمل کا اظہار کر کے اس بات کا اطمینان حاصل کر لیا جاتا ہے کہ کسی ڈرون حملے میں ایک دہشتگرد کے ساتھ جان سے ہاتھ دھونے والے 10 عام شہریوں کی موت پر جو ذمے داری کسی حکومت پر عائد ہوتی ہے وہ پوری ہو گئی۔

امریکا کے قدیم ترین تھینک ٹینکس میں سے ایک بروکنگز انسٹیٹیوٹ کے ڈینٹیل بیمن کے معتبر اعداد شمار اور تحقیق کی روشنی میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ان ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہر دہشت گرد کے مقابل 10 عام شہری مارے جاتے ہیں۔ دوسری جانب امریکی سی آئی اے کی ایک مضحکہ خیز رپورٹ بھی ہے جو 2010ء میں منظر عام پر آتی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق مذکورہ برس تک 600 سے زائد دہشت گرد ڈرون حملوں کے نتیجے میں مارے گئے اور ان میں ایک بھی عام شہری ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔ یہ ایک فضول دعویٰ ہے جس پر کوئی یقین نہیں کرے گا اور یہ کہ سچ بیمن کے اعداد و شمار سے کچھ کم ہو گا لیکن اس میں شک نہیں کہ ان حملوں میں بڑی تعداد میں خواتین بچے اور عام شہری جاں بحق ہو چکے ہیں اور حملے جاری رہنے کی صورت میں مستقبل میں بھی یہ ہلاکتیں جاری رہیں گی۔

ہماری حزب اختلاف بھی اس بارے میں زبانی بیانات تک محدود رہی ہے۔ ڈرون حملوں کے خلاف انھوں نے کبھی ایسی پوزیشن لینے کا تصور بھی نہیں کیا جس کے نتیجے میں ان کی مفاداتی سیاست پر کوئی زد پڑنے کاخطرہ ہو۔ اسمبلی میں موجود ہماری بڑی دینی سیاسی جماعتیں بھی باڑ پر بیٹھی نظر آتی ہیں۔ ان کی طرف سے ڈرون حملوں کے خلاف شدید زبانی رد عمل تو نظر آتا ہے لیکن پاکستان کے اس بدقسمت خطے میں ڈرون حملوں اور عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں جو انسانی المیہ وجود میں آیا اس کے اثرات کو کم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ وہ نہ تو اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کے امکان سے دوری چاہتے ہیں اور نہ ہی عسکریت پسندی پر آمادہ قوتوں اور طالبان کو مخالفت پر مبنی کوئی اشارہ دینا چاہتے ہیں کہ نہ جانے کب طالبان کی ضرورت پڑ جائے۔

عمران خان کے امن مارچ کی شکل میں 2004ء سے لے کر آج تک پہلی مرتبہ امریکا اور عسکریت پسندوں کو باہمی کشمکش میں پس کر رہ جانے والے لوگوں کے ساتھ عملی اظہار یک جہتی کی سنجیدہ کوشش سامنے آئی ہے۔ بدقسمتی سے توقع کے عین مطابق تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس کوشش کا مذاق اڑایا گیا اور اس پر تنقید کی گئی۔ اس امن مارچ کی سب سے اہم بات برطانیہ سے لورین بوتھ اور کوڈ پنک (Codepink) نامی تنظیم کے عہدیداروں سمیت 32 امریکی شہری شامل تھے۔(کوڈ پنک 17 نومبر 2002ء کو عراق کی جنگ کے رد عمل میں قائم ہونے والی جنگ مخالف تنظیم ہے۔)

مغربی میڈیا اور امن کے لیے کام کرنے والے گروپس کے نمایندوں کا کہنا تھا کہ امریکا جس جگہ ڈرون حملے کر رہا ہے وہاں کے لوگ انتقام پر یقین رکھتے ہیں‘ لہٰذا وہ جواباً امریکیوں کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم اپنی زندگیاں اس لیے خطرے میں ڈال رہے ہیں کہ یہ سلسلہ رک جائے۔

اس امن مارچ کے خلاف انتہائی مضحکہ خیز دلائل دیے گئے۔ مثلاً ’’ڈرون حملے تو شمالی وزیرستان ہو رہے ہیں‘ جنوبی وزیرستان جانے کا کیا فائدہ‘‘۔ پی ٹی آئی کی ہر حریف جماعت کہے جا رہی ہے کہ یہ ’’سیاسی چال‘‘ ہے۔ میں تو یہ کہوں گا کہ کسی سیاسی رہنما کا کچھ بھی غیر سیاسی نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ مزاروں پر چادر چڑھانا اور کسی کے انتقال پر تعزیت کے لیے جانا بھی سیاسی ہوتا ہے۔ یہ بات سیاست کی سمجھ بوجھ رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں۔

ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ لاتعلقی ہے۔ مفادات کی سیاست کرنے والی قوتوں کے لیے عوام کی لاتعلقی سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔ ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والوں کے مسائل تو اپنی جگہ انتہائی تکلیف دہ ہیں لیکن سب سے زیادہ مایوس کرنے والا احساس دوسرے ہم وطنوں کی لا تعلقی ہوتا ہے۔ بے یارومددگار ہونے کا احساس۔ یہ امن مارچ یقیناً ڈرون حملوں کے خلاف تھا لیکن اس کا پہلا مقصد مصیبت میں گھرے لوگوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ وہ تنہا نہیں‘ وہ پاکستان کے کم اہمیت رکھنے والے شہری نہیں‘ پورے ملک میں ان کے دکھوں کا احساس کرنے والے موجود ہیں اور وہ ان کے لیے خطرہ مول لینے کو تیار ہیں۔ڈھارس بندھانے اور مدد کو ہاتھ بڑھانے کی تاثیر کو صرف وہی جان سکتا ہے جو ایسے حوصلہ شکن حالات سے گزرا ہو۔

اس امن مارچ سے اس حقیقت کو بھی تقویت ملی ہے کہ عمران خان باڑ پر بیٹھنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کے سیاست دان اور عوام میں اس رویے کے عادی نہیں‘ لیکن اگر یہ طرز عمل جڑ پکڑ گیا تو پھر ہمارے معاشرے میں باڑ پر بیٹھ کر دونوں طرف سے فائدہ اٹھانے والوں کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔