تہذیب کی کسوٹی؟

رئیس فاطمہ  پير 30 مارچ 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

ہماری عمر کے لوگ شاید اپنی تہذیب کے آخری نمایندے ہیں کہ المیہ یہ ہے کہ ہم نے جس تہذیب اور اعلیٰ اقدار کی روایات میں آنکھ کھولی، اس میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی بہت اہمیت تھی۔ خاندان اور حسب نسب کیا ہوتا ہے اور اس کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے؟ دسترخوان پر بیٹھنے اور کھانے کے آداب کیا ہوتے ہیں؟ انسان کی پہچان بنا کوئی سوال کیے دسترخوان پہ کس طرح ہوتی ہے؟ یہ اور اسی قبیل کی دوسری معنی آفرین روایات کہیں سے سیکھی نہیں جاتیں بلکہ یہ تو ماں کی گود سے ملتی ہیں، باپ، دادا اور دادی کی پرورش ہی وہ تربیت گاہ ہوتی ہے جہاں سے کچا سونا خوبصورت زیور بن کر نکلتا ہے۔

ہم سب کو تہذیب کی اسی کسوٹی پہ جانچا گیا، اور یوں یہ ہمارے خون کا حصہ بن گئی اور ہماری اولاد تک منتقل ہوئی۔ لیکن ہم ہی وہ بدنصیب نسل بھی ہیں جو اس تہذیب کا زوال بھی دیکھ رہے ہیں ۔ روایات کا جرم بن جانا بھی دیکھ رہے ہیں۔ غلط اقدار کو نہ صرف تناور درخت بنتا بھی دیکھ رہے ہیں، بلکہ اس پر فخریہ احساس کو بھی پروان چڑھتا دیکھ رہے ہیں۔ یہ قصور کس کا ہے؟ کہ آج معزز صرف وہ ہے جس کے پاس دھن دولت ہے، گیٹ پہ مسلح گارڈ کھڑا ہے، ہر بچے کا الگ کمرہ، تمام تر جدید ترین ٹیکنالوجی کی مصنوعات کے ساتھ سجا ہے۔

کھانے میں اب برگر، پیزا اور چائنیز کھانے معدے میں اترتے ہیں۔ تام جھام دکھاوا، ڈائننگ ٹیبل پہ اعلیٰ درجے کی کراکری، کٹ گلاس، ڈرائنگ روم کا مہنگا فرنیچر جو ہر سال دو سال بعد بدل دیا جاتا ہے۔ لمبی گاڑیاں جن کے اسٹیئرنگ ان نوجوانوں کے ہاتھوں میں جو تیز رفتاری کے پہیوں تلے کسی کو بھی روندتے چلے جاتے ہیں کہ ان کی پہچان یہی ہے۔ جب حسب نسب کا پتہ نہ ہو تو ایسا ہی معاشرہ وجود میں آتا ہے، جس میں انسان پس پشت چلا جاتا ہے اور پیسہ باقی رہ جاتا ہے۔ جس کی چمک بڑے بڑوں کی آنکھیں چندھیا دیتی ہے۔

لیکن یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے کہ تہذیب، شائستگی اور اعلیٰ روایات خون سے منتقل ہوتی ہیں، یہ جینز میں ہوتی ہیں۔ انھیں خریدا نہیں جا سکتا، اور نہ ہی یہ بازار میں ملتی ہیں۔ کوشش اور مہذب لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے کسی قدر انھیں سیکھا تو جا سکتا ہے، لیکن اصلیت کبھی نہ کبھی غیر محسوس طریقے سے آشکار ضرور ہوتی ہے۔ لیکن اس حقیقت کو بھی وہی پہچان پاتے ہیں جو نقاب کے پیچھے کے اصلی چہروں سے واقف ہوتے ہیں۔

آپ خود بھی اس کا تجربہ اور مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ دولت تو آج کل بڑی آسانی سے ہر غلط کام سے حاصل ہو جاتی ہے لیکن تہذیب کی چادر کہیں سے نہیں ملتی۔ یہ نو دولتیے اور غلط کار خواہ انگریز گورننس رکھ لیں، یا اپنی رہائش ان علاقوں میں منتقل کر لیں، جہاں کہ پہچان ہی کرپشن اور ناجائز کاموں سے کمائی ہوئی دولت سے بنائے گئے محلات ہیں لیکن اصل اور نقل کا فرق کبھی نہ کبھی ضرور سامنے آ جاتا ہے۔ البتہ اس فرق کو نوٹ کرنے والے بہت کم ہیں۔

ایک خاندان میں ہم کھانے پر مدعو تھے۔ بہت بڑا گھر، بارہ افراد کی ڈائننگ ٹیبل، جھاڑ فانوس، دنیا بھر کی آرائشی اشیا کی دکان ڈرائنگ روم میں سجی تھی۔ خاتون خانہ بار بار امریکا کا حوالہ دے کر پاکستان کی ہر شے میں کیڑے اس طرح نکال رہی تھیں، جیسے تیز طرار شوریدہ سر بہو بدنصیب ساس کو ہر مسئلے کا ذمے دار ٹھہراتی ہے۔ صاحب خانہ بھی ہر جملے میں کہتے ’’یہاں کیا رکھا ہے، ہم تو بس پراپرٹی بیچنے آئے ہیں، بیچ کر واپس چلے جائیں گے۔‘‘ ان میاں بیوی کی ہر ہر بات سے خود نمائی اور اتھلے پن کا اظہار ہو رہا تھا۔ مجھے ایسے لوگوں سے بڑی وحشت ہوتی ہے جن کی گفتگو کا محور محض اپنی دولت کی نمائش ہوتا ہے۔

تبھی مجھے نجانے کیوں وہ محاورہ یاد آ گیا کہ ’’پھل دار درخت اپنے ہی بوجھ سے زمین کی طرف جھک جاتا ہے۔‘‘ یا وہ کہاوت کہ ’’خالی برتن بجتا بہت ہے۔‘‘ بہرحال کھانے کا وقت ہوا، سب ٹیبل پہ اکٹھے ہوئے، جن میں ان کے دو کم عمر بیٹے اور ایک اٹھارہ سالہ صاحب زادی ترکی ڈراموں کی اداکارہ کی طرح کا لباس پہنے بیٹھی تھی۔ خاتون خانہ نے ابھی یہ جملہ بھی نہیں کہا تھا کہ ’’شروع کیجیے۔‘‘ کہ ان کے تیرہ اور پندرہ سالہ بیٹوں نے چکن تکوں کی قاب اپنی جانب کی، پھر سیخ کباب پلیٹ میں انڈیلے، ساتھ ہی بون لیس چکن بوٹی کو بھی عزت بخشی، کولڈ ڈرنک کی ڈسپوزایبل بوتل ساتھ رکھی اور شروع ہو گئے۔

یہی حرکت دونوں بہن بھائیوں نے بھی دہرائی۔ ہم حیران انھیں دیکھ رہے تھے کہ آج تک ہم نے اپنی زندگی میں اپنے گھر میں ایسا منظر بچپن سے لے کر آج تک نہیں دیکھا کہ بچوں نے بڑوں کے ہوتے ہوئے اس بدتہذیبی سے بچوں نے کھانا نکالا ہو، ہمیشہ پہلے مہمان پھر میزبان اور بعد میں بچے۔ لیکن یہاں تو معاملہ الٹ تھا۔ خاتون خانہ یا صاحب خانہ شاید اسی کے عادی تھے۔ جب بچے لے چکے تو خاتون نے ہماری طرف سالن کا ڈونگا بڑھایا۔ لیکن اس سے پہلے انھوں نے بوٹیاں چھانٹ چھانٹ کر اپنے مجازی خدا کی پلیٹ میں بھر دیں۔

میرے لیے یہ سب کچھ بہت عجیب اور اجنبی تھا۔ بچے جس طرح کھانا کھا رہے تھے ان کی آدھی سے زیادہ انگلیاں سالن سے لتھڑی ہوئی تھیں۔ صاحبزادی اپنی انگوٹھیوں سے سجی نازک انگلیوں میں تکے کو پکڑ کر جس طرح دانتوں سے توڑ رہی تھیں وہ ان کا فیملی بیک گراؤنڈ بتانے کو کافی تھا۔ پوری فیملی کھانا اس طرح کھا رہی تھی کہ پہلی بار یہ چیزیں نصیب ہوئی ہیں۔ تب مجھے اپنا والد کا کہا ہوا جملہ یاد آیا کہ ’’انسان کے خاندان اور پس منظر کی پہچان دسترخوان پر ہوتی ہے۔‘‘

ایک اور مثال حسب نسب اور تہذیبی ورثے کی۔ الیکشن کی ڈیوٹی کے لیے ریٹرننگ آفیسر نے جب مجھے میرے عملے سے ملوایا تو پولنگ آفیسر کے طور پر برقعہ پوش ایک خاتون اسکول ٹیچر بھی ان میں شامل تھیں۔ الیکشن سے دو دن پہلے جب ذمے داریاں سونپی جا چکیں اور میں نے تمام عملے کو ایک دن پہلے ریہرسل کے طور پر پولنگ اسٹیشن بلوایا تو ان خاتون نے جو دو سال بعد ریٹائر ہونے والی تھیں، مجھے اپنے گھر مدعو کیا۔ انھوں نے بصد اصرار یہ دعوت دی تھی۔ میرے ساتھ ہماری اسسٹنٹ پریزائیڈنگ آفیسر بھی تھیں۔ ہم گھر میں داخل ہوئے۔ چھوٹا سا بہت صاف ستھرا، فرشی نشست، گاؤ تکیے لگے ہوئے۔

تھوڑی دیر میں دو نو عمر بچیوں نے سفید دسترخوان لگایا، اور گرم گرم بہاری بوٹی کباب اور حیدرآباد کھٹی مرچوں کا سالن، گھر کی گرم چپاتی کے ساتھ سامنے رکھا تھا۔ مجھے خوش گوار حیرت کا احساس ہوا۔ بہاری کباب مجھے بہت پسند ہیں۔ دسترخوان لگنے کے بعد سب سے پہلے بچیوں نے ہماری طرف ڈش بڑھائی، دوسری نے رومال میں چپاتی لپیٹ کر ساتھ رکھی، تانبے کے قلعی دار کٹورے میں مٹکے کا پانی۔ رائتہ اور سلاد بھی۔ سب سے آخر میں بچیوں نے اپنی پلیٹیں لیں۔ نہایت تہذیب سے آہستہ آہستہ کھانا کھاتے دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگا۔ اچانک میری کولیگ نے ان خاتون سے پوچھا کہ انھوں نے بطور خاص بہاری کبابوں کا اہتمام کیوں کیا؟

اس پر وہ مسکرا کر بولیں کہ ’’میڈم کسی سے کہہ رہی تھیں کہ جو ڈش جس علاقے سے مخصوص ہوتی ہے وہیں کے لوگ اسے صحیح پکا سکتے ہیں۔ میں لاکھ کوشش کروں مگر بہاری کباب اس طرح نہیں بنا سکتی، جیسے نہاری، مغلئی قورمہ یا یخنی والی بریانی۔‘‘ بس اسی لیے میں نے سوچا کہ کیوں نہ آپ لوگوں کو اپنی ڈش کھلاؤں اور آپ سے قورمہ پکانا بھی سیکھوں اور آپ کے ہاتھ کا کھاؤں بھی۔‘‘ انھوں نے میری طرف دیکھتے ہوئے اپنی بات ختم کی۔ کھانے کے بعد بچیاں سونف، چھالیہ اور کھوپرا پلیٹ میں لے کر آ گئیں اور خود اپنی اپنی کتابیں لے کر بیٹھ گئیں۔ یہ تھی وہ تہذیب جو آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔

یہاں بھی ڈیمانڈ اور سپلائی والا معاملہ ہے۔ جب سلیقہ، ہنرمندی، شرافت کی ڈیمانڈ تھی تو والدین، دادا ، اور دادی انھی خصوصیات سے اپنی بچیوں کو آراستہ کرتے تھے۔ آج صرف پیسہ بولتا ہے۔ برداشت، بڑوں کی عزت، بڑوں کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کرنا، والدین کی ڈانٹ خاموش رہ کر سن لینا اور انھیں بڑھاپے میں اکیلا نہ چھوڑنا۔ یہ سب قصہ پارینہ کی باتیں ہیں۔ آج دولت کا حصول تہذیب اور تربیت کے حصول کے مقابلے میں آسان ہے۔

یہ نئے نئے دولت مند جو کسی زردار، زرپرست، خود ساختہ لیڈر، صنعت کار، سیاسی وڈیرے، لینڈ مافیا کے سرپرست اور کرپشن کے بحری جہاز کے قزاقوں اور لٹیروں کے قدموں میں اپنا سر رکھ کر انھیں ناقابل تسخیر ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ کہیں سے کوئی پھیری والا، آواز لگاتا مل جائے۔’’تہذیب لے لو تہذیب۔ کسی بھی علاقے کی۔ تہذیب لے لو تہذیب‘‘ اور یہ جو دولت مند ہونے کے باوجود تہذیب کے خسارے میں ہیں۔ وہ منہ مانگے داموں پوری چھابڑی خرید لیتے۔ لیکن سیانوں نے کہا نا کہ تہذیب، شرافت اور عاجزی نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔ اسے خریدا نہیں جا سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔