بنیادیں

عمر قاضی  پير 30 مارچ 2015
umerkazi555@yahoo.com

[email protected]

چند روز پہلے لاہور کے ایک چوک پر بائیں بازو کے کچھ افراد مظاہرہ کر رہے تھے۔ وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ اس جگہ کا نام ’’بھگت سنگھ چوک‘‘ رکھا جائے۔

جی ہاں! یہ وہی جگہ تھی جہاں برطانوی حکومت نے برصغیر کے عظیم انقلابی بھگت سنگھ کو آزادی کی جدوجہد کرنے کے جرم میں تختہ دار پر لٹکایا تھا۔ اب وہ پھانسی گھاٹ تو تاریخ کے سیلاب میں بہہ گیا اور وقت کے دھارے نے اس چوک کانام ’’شادمان چوک‘‘ رکھ دیا۔ میں حیران ہوں کہ جہاں پھانسی کے ایک جھٹکے نے ایک عظیم انقلابی انسان کی زندگی کو ختم کردیا، وہ جگہ ’’شادمان‘‘ کس طرح ہوسکتی ہے؟

وہ مقام ابھی تک ناشاد ہوگا۔ اس لیے ان بائیں بازو کے چند لوگوں کا مطالبہ تسلیم کیا جائے اور تاریخ کو درست کرتے ہوئے اس مقام کا نام ’’بھگت سنگھ‘‘ کے نام پر رکھا جائے۔ کیوں کہ بات صرف ان مظاہرین کی نہیں ہے، ان مظاہرین کی تصویر کو دیکھتے ہوئے تو مجھے بے حد افسوس ہوا۔ کیوں کہ لاہور تاریخی طور پر بائیں بازو کے لوگوں کا مسکن رہا ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے یہاں پر وہ سکھ انقلابی ایک خواب جیسے نظام کے لیے بہت بڑی جدوجہد میں مصروف رہتے تھے جن کو اب کوئی یاد نہیں کرتا۔ ان کی یاد آتی بھی ہے تو طاہرہ مظہر علی خان جیسی انقلابی خاتون کی زندگی پر گفتگو کرتے ہوئے جب کوئی بوڑھا انقلابی تاریخ کے رخ سے پردہ اٹھاتا ہے تو ہمیں غالب کا یہ شعر یاد آجاتا ہے کہ:

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

تاریخ کی خاک میں کیا کیا صورتیں پنہاں ہوئی ہیں۔ اب کسی کو ان کی یاد نہیں آتی۔ یاد آنے سے میرا مطلب یہ نہیں کہ ان کی یادگار پر پھول چڑھائے جائیں ۔ وہ لوگ تو خود پھول تھے۔ ان کو پھولوں کی کیا ضرورت؟ اس لیے ضرورت نہیں پھولوں اور شمعوں کی، صرف تاریخ کا ریکارڈ درست کرنے کی ضرورت ہے اور ان بنیادوں کو پھر سے تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔

سندھ اور پنجاب کے حوالے سے اس وقت قوم پرستی کی سیاست کچھ بھی کہے مگر اس بات کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ سندھو ندی کے سہارے یہ دونوں دیس تاریخی طور پر ایک رہے ہیں۔ اور ان کو مزید قریب لانے کے سلسلے میں ہمارے صوفیا کرام نے جوکردار ادا کیا ہے وہ کوئی کس طرح فراموش کرسکتا ہے؟ اور بات صرف اس تاریخ کی نہیں ہے جو بہت پرانی ہے۔ اس دور میں بھی، پاکستان بننے کے بعد بھی ہمارے شاعروں اور ادیبوں نے دونوں سرزمینوں کو محبت کی سوئی کے ساتھ سینے کی کوشش کی ہے۔

مظلوم یہاں بھی ہیں اور مظلوم وہاں بھی ہیں، ظالم یہاں بھی ہیں اور ظالم وہاں بھی ہے۔ اگر یہاں اور وہاں کے ظالموں کا آپس میں اتحاد ہے تو پھر یہاں اور وہاں کے مظلوموں کا اتحاد کیوں نہ ہو؟ یہ ایک سلگتا ہوا سوال ہے اور تاریخ کا یہ سوال بار بار ابھر آتا ہے اور ہم سے جواب کا مطالبہ کرتا ہے۔ مگر ہم خاموش رہتے ہیں۔گو ہم جانتے کہ اس سوال کا جواب کیا ہے؟ مگر ہمارے ہونٹوں کو مصلحت نے سی دیا ہے اور ہم خاموش رہنے میں اپنا فائدہ سمجھتے ہیں مگر ہم بھول چکے ہیں کہ ہمارا فائدہ تاریخ کا نقصان ہے۔

ہمیں اپنے مفاد کو بالائے طاق رکھ کر تاریخ کے اس فرض کو پورا کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا اور اپنی دھرتی کے ہیروز کو یہ مقام دینے کے لیے بہادری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، جن ہیروز نے صرف اور صرف آزادی اور انسانی خوشحالی کے لیے اپنی جان قربان کی۔ ان لوگوں میں بھگت سنگھ کا مقام بہت بلند ہے۔ کیوں کہ یہ بھگت سنگھ ہی تھے جن کی قربانی پر صرف سکھ ہی نہیں بلکہ ہندو اور مسلمان دونوں آب دیدہ ہوئے تھے۔ آج وہ قربانی اپنا حق اس حوالے سے نہیں مانگ رہی کہ تاریخ میں ان کا قد بلند ہو۔ تاریخ میں ان کا قد تو بہت بلند ہے۔ مگر وہ قربانی ہمارے قد ناپ رہی ہے۔ جب لاہور میں کوئی طاقتور غیر ملکی بندہ گولی چلاتا ہے تو بھگت سنگھ کی بھولی ہوئی غیرت ہمیں شدت سے یاد آتی ہے۔

ہم نے اپنی زندگی میں جتنے بھی نشیب و فراز دیکھے ہیں انھوں نے ہمیں صرف اس بات کا درس دیا ہے کہ ہم نے وہ راستہ بھلا دیا ہے جس راستے پر اس برصغیر کی امن اور انصاف کی منزل موجود ہے۔ ہم نے اس منزل کو فراموش کردیا ہے۔ اگر لاہور کے شادمان چوک کا نام ’’بھگت سنگھ‘‘ چوک رکھا گیا تو اس بات کی امید پیدا ہوسکتی ہے کہ ہم پھر سے یہ نفرتیں بھلا کر تاریخ کا وہ سفر شروع کریں جس کو ہم بھول چکے ہیں۔ تاریخ کا وہ سفر اب بھی ہمیں بلاتا ہے مگر ہم کچھ بھی نہیں سنتے۔ کیوںکہ ہمارے کانوں پر بیہودہ شور نے قبضہ کرلیا ہے۔ اب ہم یاد بھی نہیں کرتے کہ کبھی اس شور کے بجائے بہت پرکشش نعرے ہوا کرتے تھے۔ وہ نعرے جن میں صرف غلامی سے نفرت تھی۔ وہ نعرے جن میں اپنی دھرتی اور اس دھرتی پر بسنے والے غریب انسانوں کے لیے محبت تھی۔ وہ محبت اب بھی ہمیں بلا رہی ہے۔

اس محبت کی طرف چلنے میں امن بھی ہے اور انصاف بھی۔ کیوں کہ صرف اس دھرتی پر ناانصافی نہیں بلکہ اس دھرتی پر یہاں سے زیادہ سفاکیت ہے۔ اس ظلم اور بربریت کو ختم کرنے کے لیے ہمیں اپنے تاریخی ہیروز کو یاد کرنا ہوگا اور تاریخ میں موجود ان بنیادوں کو پھر سے تلاش کرنا ہوگا جن کو فراموش کر چکے ہیں۔ ان بہت ساری بنیادوں میں ایک بنیاد تو بھگت سنگھ کی پھانسی پر شیخ ایاز کی خوبصورت طویل نظم ہے جو اردو اور پنجابی میں ترجمے کی صورت منظر عام پر آنا چاہیے۔ اس نظم میں ایاز نے لکھا ہے کہ:

’’اے کاش!… تم یہ جانتے کہ… آزاد ہوا کیا ہوتی ہے… پروا بغیر پر کیسے ہوتے ہیں؟… اور آزاد فضا کیا ہوتی ہے؟… اے کاش! تم وہ پہنو پھر… جو ہار ہواؤں میں جھوم کر… کل بھگت سنگھ نے پہنا تھا‘‘

یہ محبت جو زباں سے بلند ہے۔ جو زماں اور مکاں کے قید سے بلند ہے۔ اس محبت کو اپنانے کے لیے ہمیں موجودہ دور کی ان زنجیروں کو توڑنا ہوگا جو زنجیریں نفرت اور تعصب سے بنی ہیں۔ ان زنجیروں کو توڑے بغیر ہم ان بنیادوں کو تلاش نہیں کرسکتے جو اس وقت ہماری آنکھ سے اوجھل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔