علامہ احسان الٰہی ظہیر ایک عہد ساز شخصیت…

شرافت حسین اثری  پير 30 مارچ 2015

اہلحدیث رہنما اور اسلام کے بے باک سپاہی علامہ احسان الٰہی ظہیر کی شہادت کو آج 28 برس بیت چکے ہیں، مگر آج بھی ان کی فکر زندہ و جاوید ہے۔ ان کی تقریروں کی گھن گرج آج بھی جمود میں ارتعاش پیدا کر دیتی ہے، ان کی تحریریں آج بھی لہو کو گرما دیتی ہیں۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید، ان شخصیات میں سے ایک ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں، ایسے لوگ اکیلے اتنا کام کر جاتے ہیں جن کو کرنے کے لیے کئی افراد درکار ہوں۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر نے اپنی 42 سالہ زندگی میں اتنا کچھ کام کیا ایسی مثال کم ہی ملتی ہے۔

علامہ نے وقت کی ایک ایک اکائی کو دین اسلام کی سربلندی اور جماعت اہلحدیث کو متحرک اور فعال کرنے کے لیے استعمال کیا۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کے شب و روز کے بارے میں آپ کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ ہم نے کبھی بھی انھیں تین سے چار گھنٹے سے زیادہ سوتے نہیں دیکھا۔ علامہ ظہیر ایسے حافظ قرآن تھے جنھوں نے 9 سال کی کم عمری میں قرآن حفظ کیا اور ساری عمر مصلیٰ پر قرآن سنایا۔ وہ ایک ایسے عالم دین تھے جسے صحافت، وکالت اور سیاست جیسے عصری علوم پر بھی مہارت حاصل تھی، ایک ایسے بلند پایہ خطیب تھے جنھیں سن کر کئی خطبا تیار ہوگئے، ایک ایسے مصنف جن کی تصانیف نہ صرف عالمی یونیورسٹیوں کے نصاب کا حصہ بنیں بلکہ بڑی بڑی جامعات بھی مصنف کے نام کے ساتھ اپنی نسبت فراغت کو اپنا فخر قرار دیتیں۔

علامہ ایک ایسے بیباک لیڈر تھے جس نے اپنے قول و فعل سے قومی جمود کو جوش میں بدل دیا، ایسے لیڈر کے لیے آج قوم ترس رہی ہے۔ وہ صرف ایک مذہبی لیڈر ہی نہیں بلکہ سیاسی افق پر جگمگاتا ستارہ تھے۔ انھوں نے سیاست میں اس وقت قدم رکھا جب کہ خود ان کے بقول جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں۔ علامہ ظہیر شہید اہلحدیث جماعت کے قائد ہونے کے ساتھ ساتھ آمریت کے خلاف برسر پیکار سیاسی جماعتوں کے اتحاد ایم آر ڈی کے بھی سرگرم رہنما تھے۔

علامہ احسان الٰہی ظہیر نے جمعیت اہلحدیث کی زمام کار سنبھالی تو اس وقت اہلحدیث عوام کی حالت ایک پسے ہوئے، کچلے ہوئے طبقے کی مانند ہوچکی تھی، حوصلہ، عزم، جولانی اور آگے بڑھنے کی امنگ کہیں رخصت ہوچکی تھی، حالانکہ اس وقت بھی علمائے اکرام دعوت و تبلیغ کا کام جانفشانی کے ساتھ کر رہے تھے، اہل توحید کی تعداد بڑھ رہی تھی، دعوت حق کا سیل رواں تھا مگر اس کی موجوں میں اضطراب نہیں تھا، جوش اور ولولوں سے محروم تھا، پنجاب جیسے بڑے صوبے میں اہلحدیث کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود اپنے جائز حقوق سے محروم تھے، بلکہ ان کی اکثریت کا فائدہ دیگر مذہبی و سیاسی جماعتیں حاصل کرتیں۔

اہلحدیث جو خالص قرآن وسنت کے حاملین ہیں ان کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا تھا، کبھی نظام مصطفیٰ کے نام پر اور کبھی شریعت بل کے نام پر، علامہ صاحب کو اپنے عوام کے ساتھ یہ ناروا سلوک بہت گراں گزرتا، اہلحدیث عوام کی حالت انھیں غمگین اور دکھی کردیتی، ان کے اندر کا طوفان جوش مارتا ہے، پھر علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید اہلحدیثوں کی طاقت مجتمع کرنے مسجد کے محراب و منبر سے باہر نکلے، ملک میں قرآن و حدیث کی بالادستی کے لیے انھوں نے سارا زور لگادیا، علم کی کمی نہیں تھی، سفارتی تعلقات بھی بہت تھے، شخصیت بھی سحر انگیز تھی، شہرت و دولت بھی باندی کی طرح پیچھے پیچھے پھر رہی تھی مگر علامہ ظہیر کو فکر تھی تو اس بات کی تھی کہ ملک میں شریعت محمدی کی بالادستی قائم ہو، اہلحدیثوں کو ملک میں موثر مقام حاصل ہو، اس ویژن کی خاطر علامہ شہید نے خود کو حاصل تمام کمالات اور وسائل صرف کردیے۔

کچھ عرصے کی محنت کے بعد چشم کائنات نے دیکھا کہ اہلحدیث ملک کی ایک قابل ذکر قوت بن گئے، اپنے اور بیگانے بھی جماعت کو حاصل اس نئی قوت کو محسوس کرنے لگے۔ خود کو محدود رکھنے اور جماعت کے افرادی وسائل کو محدود رکھنے والوں کو خطرہ محسوس ہونے لگا، انھیں اپنی کرسی خطرے میں نظر آنے لگی، انھیں اپنی کارکردگی وقت کے آئینے میں ناقص اور کمتر دکھائی دینے لگی تو پھر انھوں نے حسب روایت پروپیگنڈے شروع کردیے، فتوے بھی لگے، غیروں نے بھی نشانہ بنایا، اپنوں نے بھی کچھ کم ستم نہ ڈھائے مگر ہوا کیا؟

حفیظ اہل جہاں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں

اخلاص کے ساتھ کی گئی محنتوں کو اللہ رب العزت ضایع نہیں کرتا۔ اہلحدیث ملک کی قابل ذکر سیاسی طاقت کا روپ دھار گئے، ملک کے طول و عرض میں اہلحدیثوں کے اتنے بڑے بڑے جلسے کیے جن کی نظیر بہت ہی کم مذہبی جلسوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ ملکی سیاست میں ہلچل پیدا ہوئی کہ اس وقت کی حکومت کی چولیں ہل کر رہ گئیں، اہلحدیثوں میں بلا کا اعتماد پیدا ہوا۔ ایک بڑے جلسے میں علامہ احسان الٰہی ظہیر نے کہا تھا اہلحدیث کسی کی بھیڑ بکریاں نہیں بلکہ ایک طاقت ہیں، اس ملک کا مقدر قرآن و حدیث ہے، ایک اور بڑے جلسے میں علامہ نے کہا تھا یہ صدی اہلحدیث کی صدی ہے، ایک اور موقع پر کہا کہ اہلحدیثوں زمانہ تمہاری چاپ کا منتظر ہے۔ ایک اخباری نمایندے نے سوال کیا کہ آپ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آیندہ پنجاب میں حکومت اہلحدیثوں کی ہوگی؟

علامہ شہید نے کھرا سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں نہیں کہتا کہ آیندہ حکومت اہلحدیثوں کی ہوگی مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ کوئی بھی اہلحدیثوں کی مرضی اور تائید حاصل کیے بغیر حکومت نہیں بناسکے گا۔ علامہ ظہیر صرف پاکستان ہی نہیں عالم عرب کے بھی مقبول عالم اور خطیب تھے۔ علامہ شہید کو عربی زبان میں اس قدر دسترس حاصل تھی کہ خود اہل عرب انگشت بدندان تھے۔ عراقی پارلیمنٹ میں صدر صدام حسین اور ان کے مصاحبوں کے سامنے خلیج کے حالات پر عربی میں ان کا خطاب تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح علامہ صاحب کی بعض عربی تصانیف عرب کی دینی جامعات میں نصاب کا حصہ ہیںاور اردو تصانیف نے پاک و ہند کے متاثرہ مذہبی حلقوں میں کہرام مچا رکھا ہے۔

خطابت ایسی تھی کہ آج بھی ان کی تقاریر سن کر ایمان جوش مارتا ہے، دینی و جماعتی امور سے واقفیت رکھنے والے علامہ کا نام سن کر ہی متحرک ہوجاتے ہیں۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کی ذات اور فکر سے خائف قوتیں علامہ شہید اور ان کی تحریک کو کچلنے کے درپے ہوگئیں۔ پروپیگنڈے، قید و بند کی اذیتیں پیچھے نہیں ہٹاسکیں تو انھوں نے آخری ضرب کاری لگائی اور 23 مارچ 1987 کو مینار پاکستان سے متصل علاقے قلعہ لچھمن سنگھ میں منعقد سیرت النبی کانفرنس میں ریموٹ بم دھماکے سے علامہ اور ان کے ساتھیوں کو خاک و خون میں نہلادیا۔

علامہ اپنے رفقا مولانا حبیب الرحٰمن یزدانی، مولانا عبدالخالق قدوسی، مولانا محمد خان نجیب سمیت دس علما کے ساتھ شدید زخمی ہوگئے، زخموں سے چور ساتھی ایک ایک کرکے داعی اجل کو لبیک کہتے رہے۔ علامہ ظہیر کو شدید زخمی حالت میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے فوجی اسپتال منتقل کیا گیا مگر آپ جانبرنہ ہوسکے اور 30 مارچ 1987 کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اللہ تعالیٰ علامہ احسان کے درجات بلند کرے اور ان کے مشن کی سربلندی کے لیے کوشاں احباب کی مدد فرمائے۔

آمین۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔