صحافت کی جڑیں ادب سے جڑی ہیں،اخبارات کی ترقی کے لیے وسائل بہتر بنانا ہوں گے!!

احسن کامرے  پير 30 مارچ 2015
ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام ’’صحافت اور ادب کو درپیش مسائل‘‘ کے حوالے سے منعقدہ سیمینار کی رپورٹ۔ فوٹو: وسیم نیاز/ایکسپریس

ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام ’’صحافت اور ادب کو درپیش مسائل‘‘ کے حوالے سے منعقدہ سیمینار کی رپورٹ۔ فوٹو: وسیم نیاز/ایکسپریس

’’ایکسپریس میڈیا گروپ‘‘ کے زیر اہتمام ’’صحافت اور ادب کو درپیش مسائل‘‘ کے حوالے سے گزشتہ دنوں الحمرا کلچرل کمپلیکس میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔ یہ سیمینار دو سیشن پر مبنی تھا۔

پہلے سیشن کا موضوع ’’چھوٹے شہروں سے شائع ہونے والے اخبارات کے مسائل‘‘ تھا جس کی صدارت سی پی این ای کے صدر مجیب الرحمن شامی نے کی جبکہ شرکاء میں سینئر صحافی اور روزنامہ پاکستان ٹوڈے کے مدیراعلیٰ عارف نظامی، روزنامہ آفتاب کے ایڈیٹر ممتاز طاہر، روزنامہ طاقت کے چیف ایڈیٹر رحمت علی رازی، سینئر صحافی خاور نعیم ہاشمی اور روزنامہ سٹی 42کے ایڈیٹر نوید چودھری شامل تھے۔

دوسرے سیشن کا موضوع ’’صحافت اور ادب کا رشتہ،کالم نویسی کی اہمیت‘‘ تھاجس کی صدارت معروف شاعر اور کالم نویس امجد اسلام امجد نے کی جبکہ شرکاء میںمقامی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن، معروف کالم نویس اوریا مقبول جان، کالم نویس ڈاکٹر صغریٰ صدف، سینئر صحافی و تجزیہ نگار سہیل وڑائچ اور روزنامہ ایکسپریس کے ایڈیٹر ایڈیٹوریل لطیف چودھری شامل تھے۔ سیمینار کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

پہلا سیشن

موضوع: چھوٹے شہروں سے شائع ہونے والے اخبارات کے مسائل

مجیب الرحمن شامی (صدر سی پی این ای)

پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس کے خاتمے کے بعد اب ہر شخص آسانی سے ڈیکلیریشن لے سکتا ہے بشرطیکہ 18سال کی عمر ہوچکی ہو۔ چھوٹے اور بڑے شہروں سے شائع ہونے والے اخبارات کے بعض مسائل یکساں ہیں۔ اس کے لیے سی پی این ای کا مطالبہ رہا ہے اور اے پی این ایس کو بھی اس سے اتفاق ہونا چاہیے کہ سرکاری اشتہارات کے لیے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا الگ الگ بجٹ مختص کیا جائے ۔ الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد بجٹ وہی پرانا ہے اور اس میں دعویدار دو پیدا ہوگئے ہیں لہٰذا اس میں دوگنا اضافہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر اخبارات کو مشکلات درپیش رہیں گی۔ علاقائی اخبارات کا سرکاری اشتہارات میں 25فیصد کوٹہ مقرر ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرف توجہ دی جائے اور پرائیویٹ بزنس کو بھی قائل کیا جائے کہ وہ بھی علاقائی اخبارات پر خاص توجہ دیں۔

اس وقت ادبی رسائل کے ساتھ بھی سوتیلوںجیسا سلوک ہو رہا ہے ۔ نہ حکومت کی اس طرف توجہ ہے اور نہ ہی پرائیویٹ بزنس کی۔ اگرہم ادب کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے تو پھر ہم بے ادبی کا رونا روتے رہیں گے۔ چھوٹے شہروں سے جو رسائل اور اخبارات چھپ رہے ہیں ، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے علاقے پر توجہ دیں اور اپنے شہر کی آواز بنیں لیکن ان اخبارات میں تمام قومی خبریں ہی چھپی ہوتی ہیں لہٰذا اگر صرف ڈیکلیریشن کے لیے شہر کا نام رکھا جائے اور باقی ترتیب وہی رہے تو پھر ان سے ہمدردی نہیں رکھی جاسکتی۔ اخبارات کے نمائندے بغیر تنخواہ کے کام کرتے ہیں یہ شکایت اپنی جگہ درست ہے لیکن چھوٹے شہروں میں جو لوگ نامہ نگاری کے فرائض ادا کرتے ہیں وہ جز وقتی ہوتے ہیں، وہ بزنس کے نمائندے بھی ہوتے ہیں، اشتہارات میں ان کا کافی بڑا کمیشن ہوتا ہے اور اس طرح وہ اپنا سامان رزق وہاں سے حاصل کرلیتے ہیں۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/68.jpg

بہر حال اس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ میرے نزدیک چھوٹے شہروں کے اخبارات کو اپنے معاملات خود بھی حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، ان میں سے بعض بڑے شہروں میں بھی آگئے ہیں لیکن انہوں نے اپنا تخلص چھوٹا رکھا ہوا ہے جبکہ وہ چھوٹے نہیں ہیں۔ یہ ترتیب وویج بورڈ ایوارڈ کے لیے مقرر کی گئی تھی لیکن اب ضرورت یہ ہے کہ اس کا جائزہ لیا جائے اور اس کی ترتیبِ نو کی جائے۔ اس کے علاوہ اگر کسی شخص نے صحافت کو اپنا کل وقتی مشن بنایا ہے تو ا س کا خیال رکھا جانا چاہیے لیکن اگر معاملات جز وقتی چل رہے ہیں تو پھر اس کے ساتھ سلوک بھی جز وقتی جیسا ہی ہوگا۔

عارف نظامی (مدیر اعلیٰ پاکستان ٹوڈے)

اخباری صنعت اب ایک انڈسٹری بن چکی ہے لیکن اسے مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ بڑے بڑے اخبارات کی ریڈر شپ بھی جمود کا شکار ہے اور الیکٹرانک میڈیا نے ان کے اشتہارات اور ریڈر شپ لے لی ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد اب نوجوان نسل اخبار ہی نہیں پڑھتی۔ اس تناظر میں علاقائی اخبارات کے مسائل گھمبیر ہوتے چلے گئے ہیں ۔ اے پی این ایس نے ریجنل اخبارات کے لیے اشتہارات کا جو 25فیصد کوٹہ مقرر کیا تھا وہ بھی انہیں نہیں ملتا۔ اے پی این ایس بعض بڑے گروپوں کی اجارہ داری بن چکی ہے ، اس میں علاقائی اخبارات تو دور باقی اخبارات کی بھی گنجائش نہیں ہے اور انہوں نے اس کی لیڈر شپ پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے۔ بنیادی طور پر اے پی این ایس کو چاہیے کہ جس طرح یونائٹڈ نیشن میں ہر ملک برابر ہے اسی طرح اس میں بھی ہر اخبار برابر ہونا چاہیے۔

ایک طرف تو اے پی این ایس پرنٹ میڈیا کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے جبکہ دوسری طرف الیکٹرانک میڈیا کی بھی کلیئرنس کرنا چاہتی ہے ۔ میں ذاتی طور پر اے پی این ایس کی صورتحال سے سخت مایوس ہوں کیونکہ جس تنظیم کو اخبارات کے مسائل حل کرنے چاہئیں وہ اس طرف نہیں آرہی۔ یہ حقیقت ہے کہ نامہ نگاروں کو تنخواہ نہیں ملتی جبکہ اخبار کی نامہ نگاری کے لیے بولیاں لگتی ہیں اورمختلف لوگوں میں بہت سخت مقابلہ ہوتا ہے جو افسوسناک امر ہے۔ اخباری برادری اور ان کی تنظیموں کو علاقائی اخبارات کی تنظیموں کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ اس کے علاوہ ان کے مالی حالات بہتر کرنے کیلئے حکومت کو چاہیے کہ ان کی مدد کرے اور بڑے اخبارات کو بھی قربانی دینی چاہیے۔

ممتاز طاہر (ایڈیٹر روزنامہ آفتاب)

صحافت اور ادب کاچولی دامن کا ساتھ ہے۔ صحافت کے فروغ اور ترقی سے ادب کی سرگرمیوں میں از خود اضافہ ہوجاتا ہے۔ آج چونکہ پرنٹ میڈیا آزمائشی دور سے گزر رہا ہے ، صحافت کے محافظ اور وارث اپنی تمام تر توانائیاں الیکٹرانک میڈیا پر صرف کررہے ہیں،اس لیے اخبارات کے لیے مشکلات اس کا قدرتی نتیجہ ہے اور صحافتی پلیٹ فارم سے ادبی سرگرمیوں کی شوخیاں بھی ماند پڑ رہی ہیں۔ صحافت اب مشن نہیں رہا بلکہ کمرشل ازم کا دور شروع ہوچکا ہے اور ہمارے ملک میں علاقائی اخبارات کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے حالانکہ علاقائی اخبارات کی اہمیت اور افادیت دنیا بھر میں تسلیم کی جاتی ہے۔

ہماری ملکی تاریخ شاہد ہے کہ ہماری آزادی کو مقبول اور فعال بنانے والے مسلم اخبارات جو ہندو اخبارات کی سرکولیشن کے مقابلے میں چھوٹے اخبارات کہلاتے تھے مگر اپنے مقصد اور کردار کے لحاظ سے ان کی عظمت کو سلام کیا جاتا تھالہٰذا اگر کوئی مشن سامنے ہو اور عوامی امنگوں کی ترجمانی کی جائے تو علاقائی اور مقامی اخبارات بھی تاریخ ساز کردار ادا کر سکتے ہیں، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ کاٹیج انڈسٹری کی طرح ریجنل اخبارات کی ڈویلپمنٹ پر خصوصی توجہ دے۔ اے پی این ایس نے قرارداد منظور کی تھی کہ صحت مند صحافت کے فروغ کے لیے اخبارات کا ڈویلپمنٹ فنڈ قائم کیا جائے لیکن ہماری اپنی جماعت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے فوائد حاصل نہ ہوسکے۔

ہماراحکومت سے مطالبہ ہے کہ چینلزکے لیے علیحدہ سے بجٹ تیار کیا جائے۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ جدید تقاضوں اور قومی ضرورتوں کے مطابق نیشنل انفارمیشن اینڈ ایڈورٹائزنگ پالیسی بنائے اور چاروں صوبوں کو اس پر عمل کرنے کا پابند بنایا جائے۔ اس کے علاوہ سرکاری اشتہارات کے 25 فیصد کوٹہ پر سختی سے عملدرآمد کروانے کے ساتھ ساتھ کلاسیفائڈ اور ڈسپلے اشتہارات پر بھی اس پالیسی کا اطلاق کیا جائے۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/317.jpg

رحمت علی رازی (چیف ایڈیٹر روزنامہ طاقت)

ہماری نئی پود بہت زیادہ کنفیوژن کا شکار ہے ، تربیت گاہوں میں صحافت کے طالبعلموں کو عملی تربیت نہیں دی جاتی اور نہ ہی ان کی صحیح رہنمائی کی جاتی ہے۔ جن طالبعلموں نے اخبارات یا چینلز میں کام کرنا ہوتا ہے ہم انہیں صحیح راہ نہیںدکھا پاتے جو صحافت کے مسائل کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ ہمارے ملک میں علاقائی اخبارات کو اہمیت نہیں دی جاتی جبکہ بھارت میں علاقائی اخبارات کی اشاعت سب سے زیادہ ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ چھوٹے اخبارات سے تربیت حاصل کرنے والے صحافی، ہماری تنظیمیں اور حکومت بھی ان اخبارات کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ نہیںدے رہی۔

بڑے سرمایہ دار اب اس میدان (میڈیا) میں آئے ہیں ، میرے نزدیک یہ بہتر ہے کیونکہ ان کی وجہ سے لوگوں کو روزگار ملا ہے اور حالات بہتر ہوئے ہیں۔ اخبارات کے مسائل پر توجہ دینا حکومت کا فرض ہے لیکن اس سے زیادہ ہماری اپنی تنظیموں کا حق بنتا ہے کہ وہ اس حوالے سے آواز اٹھائیں۔ میرے نزدیک ہماری اپنی تنظیموں کو فعال ہونا چاہیے اور جو ہمارے ضابطہ اخلاق ہیں اور قارئین کی جو شکایا ت ہیں وہ اسی صورت میں ہی ختم ہوسکتی ہیں کہ ہم ان چیزوں کو بہتر کریں۔

خاور نعیم ہاشمی (سینئر صحافی)

صحافت اور ادب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اردو کا جو کلاسک ادب ہے اس میں صحافت کا بہت بڑاکردار ہے جبکہ اردو ادب کے تمام لکھنے والوں کا کہیں نہ کہیں تعلق صحافت کے ساتھ ہے اور اردو ادب کی ترقی میں صحافت ماخذ ہے۔ جہاں تک پاکستان کے چھوٹے شہروں میں علاقائی صحافت کا تعلق ہے،میرے نزدیک پاکستان میں علاقائی صحافت پاکستان کی ترقی کے خلاف ایک سازش ہے کیونکہ علاقائی اخبارات صحافت برائے صحافت نہیںبلکہ صحافت برائے فروغ کاروبار کررہے ہیں۔ پنجاب میں ڈیکلیریشن ریوڑیوں کی طرح بانٹے جاتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں آئیڈیل علاقائی صحافت بھی نہیں ہے۔

اس میں قصور تمام بڑے اخبارات کا بھی ہے کیونکہ پاکستان کے ارب پتی اخباری مالکان بھی علاقائی صحافیوں کو تنخواہ نہیں دیتے لہٰذا جب علاقائی صحافیوں کو تنخواہ ہی نہیں ملتی تو ان سے باکردار ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بڑے اخباری مالکان دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ٹرینڈ سیٹر ہیں تو انہیں چاہیے کہ یہاں بھی ٹرینڈ سیٹ کریں اور علاقائی صحافیوں کو تنخواہ دیں۔ پاکستان کے 90فیصد علاقائی صحافی بغیرتنخواہ کے کام کرتے ہیں جواس ملک اور عوام پر بوجھ ہیں کیونکہ وہ کرپشن کا بہت بڑا حصہ ہیں۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/415.jpg

نوید چودھری (ایڈیٹر روزنامہ سٹی 42)

پوری ریاست مالی مشکلات کا شکار ہے جبکہ علاقائی اخبارات سبسڈی مانگ رہے ہیں۔ یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ انہیںجانی و مالی تحفظ دے لیکن ریاست کو آگے لے جانے کے لیے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ علاقائی اخبارات نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ اس قسم کا رویہ اختیار کیا کہ ان اخبارات میں مقامی گروہ یا بااثر لوگوں کی بڑی بڑی تصویریں چھاپ کر خانہ پری کی جاتی ہے ، ان کا کانٹینٹ بھی پڑھنے کے قابل نہیں ہوتااور اس طرح وہ خود ہی صحافت کے دائرے سے باہر ہوگئے۔

جدید دورکی و جہ سے جگہ جگہ پریس لگے اورپھر بڑے اخبارات بھی مختلف علاقوں سے شائع ہونے لگے جس کی وجہ سے چھوٹے علاقائی اخبارات کو مسائل پیش آئے لیکن علاقائی اخبارات ان کا مقابلہ کرنے یا اپنا معیار درست کرنے کی بجائے الٹے پاؤں پیچھے ہٹتے گئے ۔ اے پی این ایس اور سی پی این ای کو چاہیے کہ علاقائی اخبارات کے جائز مطالبات کا جائزہ لے اورکانٹینٹ کے حوالے سے بھی ان کی رہنمائی کرے۔ صحافت کو بلیک میلنگ کا ذریعہ بنایا گیا ہے ، مختلف علاقوں میں بیورو بنائے گئے، انہیں تنخواہ دینے کی بجائے خودان سے پیسوں کا مطالبہ کیا گیا لہٰذایہ صورتحال بڑی خوفناک ہے اوراب خود میڈیا کے اندر بھی گروپنگ سامنے آئی ہے جو تشویشناک پہلو ہے۔

دوسرا سیشن

موضوع: صحافت اور ادب کا رشتہ ، کالم نویسی کی اہمیت

امجد اسلام امجد (معروف شاعر و کالم نویس)

ہمارے چینلز اور اخبارات میں نئی زبان بنتی چلی جارہی ہے اور یہ زبان قدرتی نہیں ہے بلکہ مسخ شدہ ہے۔ پہلے لوگ ریڈیو پاکستان سے لفظوں کا صحیح تلفظ سیکھا کرتے تھے اور صوفی تبسم جیسے لوگوں کو وہاں خاص طور مامور کیا جاتا تھا لیکن اب چینلز برتری حاصل کرنے کے لیے الفاظ کا خیال نہیں رکھتے اور ان پر چلنے والے ٹکرز میں تلفظ کی بہت ساری غلطیاں ہوتی ہیں جنہیں ٹھیک کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جاتی۔ دنیا میں جب صحافت کی ابتداء ہوئی اور اخبارات شائع ہونا شروع ہوئے تو ایڈیٹوریل پیج پراداریہ کے ساتھ ایک فکاہیہ کالم ہوا کرتا تھا جس میں حالات حاضرہ پر تبصرہ کیا جاتا تھا۔

پاکستان بننے کے بعد نئے اخبارات نکلے اوراس ساتھ ساتھ کالم کی تعداد بھی ایک سے زیادہ ہونا شروع ہوگئی اور اب وہ زمانہ ہے کہ اخبار کا ایڈیٹوریل پیج پر سب سے زیادہ نام ہوتے ہیں۔ کالم کی ابتداء ہمارے ادب سے جڑی ہوئی ہیں اور ہمارے نامور ادیب ہی آگے چل کر نامور صحافی بنے۔ گزشتہ40برس سے اس میں فرق پڑنا شروع ہوا ہے جس کے بعد ماس کمیونیکیشن اور صحافت کی جماعتوں سے صحافیوں کی ایک ایسی نسل آرہی ہے جس کا ادب یا اپنی روایت کے ساتھ گہرا تعلق نہیں ہے اور یہ چیز ان کی تحریروں میں جھلکتی ہے۔ اردو زبان کے حوالے سے بہت سے مسائل ہیں اگرچہ یہ مسائل بہت چھوٹے ہیں لیکن مجموعی طور پر ہمارے معاشرے کی جو تصور ہے اس میں بدنمائی پیدا ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/513.jpg

پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن (استاد شعبہ ابلاغیات)

صحافت اور ادب دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے اورانہیں الگ نہیں کیا جاسکتا۔ برصغیر میں1780ء میں صحافت شروع ہوئی اور 1822ء تک صرف انگریز ی زبان میں صحافت ہوتی رہی جبکہ 1822ء میںکلکتہ سے پہلا اردو اخبار نکلا جس کی کامیابی کے بعد بنگالی، تامل اور فارسی سمیت چار سو کے قریب اخبارات بر صغیر سے نکلناشروع ہوئے۔ 1988ء تک ہماری صحافت پر بہت سے ظلم ہوتے رہے مگرجس انداز سے ہمارے نامور صحافیوں اور ادیبوں نے محنت اور جدوجہد کی ہے اس کا نمونہ شاید ہی کہیں اور مل سکے اور اس طرح ہم نے بہت سے نامور صحافی اور ادیب پیدا کیے لیکن آج ہماری صحافت میں ادب بہت کم نظر آتا ہے۔

برصغیر میں جب کالم نویسی کا آغاز ہوا تو زیادہ سے زیادہ دو کالم لکھے جاتے تھے جسے کوئی نامور ادیب لکھا کرتا تھا۔ چراغ حسن حسرت، ابراہیم جلیس کالم لکھتے رہے، یہ سب اپنے اپنے زمانے کے نامور ادیب تھے اور ان کے کالم بہت مشہور ہوا کرتے تھے۔ آج لاہور کے چار، پانچ اخبارات میں روزانہ 130کالم چھپتے ہیںجن میںسے 95 فیصد کالم ’’میں‘‘ سے شروع ہوتے ہیں اور کالم نویس اپنی تشہیر کرتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ کالم رضاکارانہ طور پر لکھے جاتے ہیں اور کالم نویس یا تو اپنا مسئلہ حل کروانا چاہتا ہے یا اسے پبلک ریلیشن کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جو شخص اپنی شہرت اور اپنے فائدے کیلئے کام کررہا ہے ، وہ خبروں میں اصل حقائق چھپاتا ہے اور وہ صحافت سے واقف بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے اینکرز مرغ لڑا کر خوش ہوتے ہیںاور ان کا خیال ہے کہ اس طرح چینل کی ریٹنگ بڑھتی ہے۔

اوریا مقبول جان (معروف کالم نویس)

اگر دنیا میں سچ کبھی کھل کر بولا جاتا تونہ استعارہ وجود میں آتا، نہ تشبیہ وجود میں آتی، نہ افسانے لکھے جاتے اورنہ ہی شاعری ہوتی۔ سچ پہ قدغن لگتا ہے تو لوگ راستے نکالتے ہیں اور کھرا سچ بولنے کے بعد لوگوں کا جوحشر ہوا ہے وہ اپنی الگ تاریخ رکھتا ہے۔ ہماری صحافت آج کے ماڈرن کارپوریٹ کلچر کی بڑی شاندار شکل ہے اور ہر لکھنے والا اپنی تشہیر چاہتا ہے ۔ پرنٹنگ پریس نے صحافت کو ایک نئی شکل دی اورجو لوگ لکھنے والے تھے وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ کاروبار کوئی دوسرا کر نہیں سکتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ تاریخ بھی تلخ ہے اور وہ ہمارے کارپوریٹ کلچر کے ساتھ وابستہ ہے جس نے ہمارا کلچر ہائی جیک کرلیا ہے۔

آج سے 20سال پہلے میڈیا 180کمپنیوں کی ملکیت تھا جبکہ اس وقت پوری دنیا کا میڈیا تین بڑی کمپنیوں کی ملکیت ہے اور پھر وہ کمپنیاں جو ڈکٹیٹ کرتی ہیں وہی ہوتا ہے۔جب سرمایہ دار لوگوں کو خریدتے ہیں تو پھر ایسی ہی زبان بولی جاتی ہے اور ایسی ہی چیزیں بنتی ہیں۔ میں جب تک میڈیا میں لٹریری فیسٹیول کی طرح کا ادب نہیں بناؤں گا میرا مال نہیں بکے گا۔ یہ سب کارپوریٹ میڈیا ہے اور ہم اس میں حل تلاش کرتے ہیںجو ناممکنات میں سے ہے۔ جس چیز کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے وہ اس علاقے کی ثقافت اور اس کا ادب ہوتا ہے اور ادب اسی وقت تباہ و برباد ہوتا ہے جب آپ وہ خواب دیکھنا شروع ہوجائیں جو آپ کے نہیں ہیں۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/149.jpg

میکسیکو میں اس وقت دنیا کی بد ترین صورتحال ہے جہاں 25ہزار لوگوں کی گردنیں کاٹی گئی ہیں کیا کسی نے انہیں بتایا کہ یہ ظالم ہیں، ہر گزنہیں کیونکہ ہم اسی سچ میں زندہ رہتے ہیں اور وہی سچ لکھتے ہیں جو ہمیں ڈکٹیٹ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایک لاکھ لوگوں کی ایسی کلاس بن گئی ہے جو او لیول کا امتحان دیتے ہیں اورمیڈیا کی نمائندگی کرتے ہیں جو بکے ہوئے ہیںاور 18کروڑ عوام کو جاہل سمجھتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ بکے ہوئے لوگوں کا نہ تو کوئی ادب ہوتا ہے نہ ان کا کوئی شعور ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی کوئی ثقافت ہوتی ہے۔

ڈاکٹر صغریٰ صدف (کالم نویس)

ہمارے جتنے بھی مسائل ہیں وہ اپنی زمین اورثقافت سے دوری کا نتیجہ ہیں اورپاکستان اس حوالے سے بدقسمت رہا ہے کہ اس کے وجود سے ہی ہمیں ہماری زمین کے کلچر سے ، مذہب اور عقیدے کے نام پر جدا کیا گیا۔ ایک ادیب کے کالم میں مقصدیت سب سے اہم ہوتی ہے کیونکہ اس نے اپنی قوم کو ایجوکیٹ کرناہوتا ہے اور جو زبان وہ استعمال کرتا ہے وہ علامتی زبان ہوتی ہے جس میں کئی چیزیں پوشیدہ ہوتی ہیں اور عام لوگوں کے لیے بھی اس میں اشارے موجودہوتے ہیں۔ آج اگر مختلف اخبارات کے کالم دیکھیں تویہ عالم نظر آتا ہے کہ وہ لوگ جن کا اپنا کوئی نظریہ نہیں ہوتا وہ لوگوں کوتبلیغ کررہے ہیں۔

گزشتہ چند سالوں کو دیکھیں تو ہم نے پیچھے کی طرف سفر شروع کیا ہے، لوگ زیادہ شدت پسند ہوگئے ہیں اور بہت سارے پڑھے لکھے لوگوں کی طرف سے بھی شدت پسندی نظر آئی ہے جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس طرح ردعمل ظاہر کرتے ہیں کہ فتویٰ لگانے پر آجاتے ہیں۔ میرے نزدیک ہم ناکام ہوئے ہیںاور ہم نے لوگوں کوایجوکیٹ کرنے کااپنا فرض ادا نہیں کیا۔ ادیب آمد کے حوالے سے لکھتا ہے لیکن اس کا شعور اپنے عہد کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے اور اس عہد کے جو مسائل ہوتے ہیں وہ اس کی شاعری میں اور نثر میں جھلکتے ہیں۔

میرے نزدیک آج کالم اور ادب کے حوالے سے ہمیں جومسائل درپیش ہیں ان سے چھٹکارہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ ہم سچ کی طرف چلیں اور سچ یہ ہے کہ ہمیں صرف اپنی ذات کا نہیںبلکہ پوری دنیا کے انسانوں کے بارے میں سوچنا ہے اور جہاں بھی انسانیت کا استحصال ہورہا ہے وہاں آواز بلند کرنی ہے۔

سہیل وڑائچ (سینئر صحافی و تجزیہ نگار)

ادب اور صحافت دونوں اپنے اپنے زمانے کی عکاسی کرتے ہیں اورتصور کیا جاتا ہے کہ دونوں کو اپنے اپنے زمانے کے ضمیر کا ترجمان ہونا چاہیے ۔ دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ صحافت کی زبان ہمیشہ سے ادب کی زبان سے مختلف رہی ہے کیونکہ صحافت کا بنیادی کام ابلاغ ہے جس کے لیے ہم باقاعدہ ایک دوسرے سے تربیت لیتے ہیں کہ کونسا لفظ استعمال کریں جو ایک عام آدمی تک پہنچے اور ایک ریڑھی بان بھی اسے سمجھ سکے۔ اخلاق سے گری ہوئی یا غلط زبان تو بالکل نہیں استعمال کرنی چاہیے لیکن ادب کی زبان تھوڑی مشکل ہوتی ہے کیونکہ اس میں ایسی اصطلاحات ہوتی ہیں جو عام لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔ زبان وہی آگے چلتی ہے جسے عام لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں لہٰذا ہمیں بھی تھوڑا دل کھلا رکھنا چاہیے اور نئے الفاظ اور آسان چیزوں کو صحافت کے ذریعے ہی سہی عام زبان میں شامل ہونے کی اجازت دینی چاہیے۔

سب اخبارات ایک جیسی خبریں دیتے ہیںلیکن اگر ان میں کچھ مختلف ہے تو وہ کالم ہیں۔سیاسی جنگ اخبارات کے کالموں میں لڑی جاتی ہے۔ اگر گزشتہ پانچ سے دس سال کے اخبارات کا جائزہ لیں اور اس کے ساتھ ساتھ ہونے والے انتخابات اور سیاسی واقعات پر نظر ڈالیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ پاکستان میں بہت سے کالم ایک نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر لکھے جاتے ہیںاور اکثرمذہب، اسٹیبلشمنٹ وغیرہ کے ڈر سے سچ نہیں لکھا جاتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ سچ کو رہنما بنایا جائے چاہے وہ صحافت ہو، ادب ہو یا کالم لکھنے کا کام ہوکیونکہ صرف اسی طریقے سے ہی معاشرہ آگے جا سکتا ہے۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2015/03/227.jpg

لطیف چودھری (ایڈیٹر ایڈیٹوریل روزنامہ ایکسپریس)

ادب کی زندگی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ ادب آنے والی نسلوں کے لیے ہوتا ہے۔ میرے نزدیک زندگی میں برائی اور اچھائی نے ساتھ ساتھ چلنا ہوتا ہے یا پھر یوں کہہ لیں کہ ایک تخریبی قوت ہے اور ایک تعمیری قوت ہے جو ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ صحافت میں بہت سے دباؤ ہیں جس میں مالکان کا دباؤ ہے، اخبارات کے اشتہارات ہیں لیکن پھر بھی صحافی کسی نہ کسی حوالے سے ، کسی نہ کسی رنگ میںاپنی بات کررہا ہے اور یہی کالم نویسی کا آرٹ ہے کہ مختلف قسم کی جو پابندیاں ہیں جن میں سماج کی پابندی ہے، سیاست پر بات کرنے کی پابندی ہے، مذہبی گروہ ہیں، ذات پات ہے، مختلف کمیونٹیز ہیں، آپ نے ان سب کو سامنے رکھ کر لکھنا ہوتا ہے کہ کسی کمیونٹی، مذہب یامسلک کے حوالے سے کوئی غلط بات نہ چلی جائے یا پھرمالک ،فوج یا عدلیہ نہ ناراض ہوجائے لہٰذا کالم نویسی بہت مشکل کام ہے۔

میرے نزدیک ایک شاعرکے لیے بہت بڑا میدان ہوتا ہے، وہ آسانی سے اپنی بات کر سکتا ہے لیکن ایک کالم نویس کے لیے یہ بہت مشکل عمل ہے کہ وہ اپنی بات آگے لوگوں تک پہنچائے ۔ آج بھی بہت سارے لوگ کالم لکھ رہے ہیں اورمیرے نزدیک سب ہی اپنی اپنی بات بڑی چالاکی سے پہنچا سکتے ہیں اس میں پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔